پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے ایک مو ضوع پر مسلسل لکھا۔ نظام کی تبدیلی کے باب میں آج کچھ بنیادی سوال اٹھا دیے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ فکری پراگندگی کے اس عہد میں، رائے ساز طبقے پر لازم ہے کہ وہ قوم کو اس نظری ابہام سے نکالے اوراسے بتائے کہ اُسے تبدیلی کا کون سا منہج اختیارکرنا چاہیے۔ مو جود کشمکش کے تناظر میں میرا ایک نقطہ نظرہے اور میں اس کے دلائل رکھتا ہوں۔ یہ دلائل ایک تسلسل کے ساتھ اس کالم میں بیان ہوتے رہے ہیں۔ میرے اس اصرارپر، بعض پڑھنے والوں نے اپنے تئیں کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ ابلاغ کے مختلف ذرائع سے، وہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ میں انہیں دونکات کی صورت میں بیان کر سکتا ہوں۔
1۔ آج جب ملک میں'سٹیٹس کو‘ اور تبدیلی کی قوتوں کے مابین ایک معرکہ بپا ہے، میں نے اپنا وزن 'سٹیٹس کو‘ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
2۔ میں عمران خان اورطاہرالقادری صاحب کی کمزوریوں کا ذکر کرتا ہوں لیکن نوازشریف صاحب کے کمزور پہلوؤں سے صرفِ نظر کر تا ہوں۔ اس سے میں یہ تاثر دیتا ہوں کہ ان میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ موقف دیانت کے خلاف ہے۔
میرے نزدیک یہ نتائجِ فکر درست نہیں۔ اس کے اسباب میں یہاں عرض کیے دیتا ہوں۔
1۔ میں اس مقدمے کو صحیح نہیں سمجھتا کہ اِس وقت 'سٹیٹس کو‘ اورتبدیلی کی قوتوں کے مابین کوئی معرکہ بپا ہے۔ دونوں طرف 'سٹیٹس کو‘ ہی کی قوتیں ہیں۔ ایک طبقے نے انقلابی بیانیہ اختیار کرلیا ہے حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے خلاف انقلاب آنا چاہیے۔ پاکستان میں ' سٹیٹس کو‘ کی چار علامتیں ہیں۔ مذہبی پیشوا، جاگیردار، سرمایہ دار، روایتی سیاست دان۔ مذہبی پیشوائیت محراب و منبر اور خانقاہ پر قابض ہے۔ اس نے ایک ایسے طبقے کو جنم دیا ہے جو لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتا ہے۔ یہ خدا اور اس کے ساتھ لوگوں کی محبت کو ابھارتا اور انہیں اپنی حقیر دنیاوی اغراض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ طاہرا لقادری صاحب آج اس کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ انہوں نے رسالت مآبﷺ اور صالحینِ امت کے ساتھ لوگوں کی محبت کو جس طرح جنسِ بازار بنا یاہے، عصری تاریخ میں اس کی کوئی مثال مو جود نہیں ہے۔ اس طرح کا ایک موثر طبقہ ہمارے ہاں مو جود ہے لیکن قادری صاحب نے اسے جہاں پہنچا دیا ہے، وہ کم ہی لوگوں کے بس کی بات ہے۔
جاگیرداری کے بارے میں توکسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ لوگ اس کے مظالم سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ایک وڈیرہ جس طرح انسانی جان اور آبرو سے کھیلتا ہے، وہ اس سماج کے گلی بازار میں پھیلی ایک درد ناک داستان ہے۔اس کے بے شمار نمائندے اس انقلابی گروہ میں شامل ہیں، مثال کے طور پر شاہ محمود قریشی۔ وہ ہماری سیاست کی واحد شخصیت ہیں جو 'سٹیٹس کو‘ کی تین قوتوں کے تنہا نمائندہ ہیں۔ وہ پیر ہیں، جاگیر دارہیں اور روایتی سیاست دان ہیں۔ وہ ایک خانقاہ کے سجادہ نشین ہیں۔ وہ کتنی روحانی شخصیت ہیں، ساری قوم جانتی ہے۔ وہ اقتدار کے تعاقب میں، ہر اس سیاسی جماعت میں شامل ہوئے ہیں جو ان ایوانوں تک پہنچ سکتی تھی۔ مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور اب تحریکِ انصاف۔ روایتی سیاست یہی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین، شیخ رشید،اس سیاست کی سب سے نمائندہ شخصیات ہیں۔ میں کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ کیسے مان لوں کہ ان کی قیادت میں یا ان کی معاونت سے کوئی انقلاب بپا ہو سکتا ہے یا یہ سٹیٹس کوکے خلاف کسی جنگ کے سپاہی ہیں۔
اب عمران خان نے بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ اقتدارکے متلاشی ایک روایتی سیاست دان ہیں۔انہوں نے ہمیںجو سیاسی جماعت دی، وہ کسی طرح بھی کسی دوسری سیاسی جماعت سے مختلف نہیں۔ کوئی مجھے ن لیگ اورتحریکِ انصاف میں تین جوہری فرق بتا دے تو میں اس کا شکریہ ادا کروںگا۔ اس جماعت میں بھی ہر قماش کے لوگ شامل ہیں۔ اس میں بھی پارٹی انتخابات ہوتے ہیں تو جعلی ووٹ پڑتے ہیں، عہدے بکتے ہیں۔ انتخابات میں بھی تحریکِ انصاف کے امیدوارکسی طرح دوسری جماعت کے امیدواروں سے بہتر نہیں ہوتے۔ وہ بھی انتخابات جیتنے کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو اس ملک میں رائج ہے۔ عمران نے انہیں اس لیے پارٹی میںشامل کیا ہے کہ ان میں جیتنے کی صلاحیت ہے۔ یہی دلیل پیپلزپارٹی اور ن لیگ بھی استعمال کر تی ہیں۔ روایتی سیاست دان غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ ساز باز سے اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ جاویدہاشمی اوراس دھرنے نے بتا دیا کہ اس حوالے سے بھی عمران خان روایتی سیاست دان ہیں۔ پھر ذاتی اور عوامی زندگی کا تضاد بھی اُسی طرح ہے جس طرح روایتی سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ ان کے بچے اپنے ننہیال میں جس طرح کی زندگی گزارتے ہیں،بلاول نے بھی شایداس معیار کی زندگی نہ گزاری ہو۔ بلاشبہ وہ مسلمان ہیں ، لیکن عمران نے انہیں جس ماحو ل میں رکھاہے، قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی فکر اور تہذیب کے ساتھ عملاً ان کا تعلق کتنا ہوگا۔ اس ساری باتوں کی مو جودگی میں، مَیں اسے غیر روایتی سیاست دان کیسے قرار دوں؟اگر عمران خان ایک روایتی سیاست دان ہیں، طاہر القادری ایک روایتی مذہبی پیشوا اور ان کے دونوں طرف کھڑی شخصیات 'سٹیٹس کو‘ کی سب سے بڑی علامتیں ہوں تو میں کیسے مان لوں کہ یہ تبدیلی کی کوئی قوت ہے جو 'سٹیٹس کو‘ سے بر سرِ پیکار ہے۔ میں اب عمران اور قادری صاحب میں بھی کوئی فرق نہیں کر سکتا۔ اس کی سب سے بڑے وجہ تو یہ ہے کہ دونوں نے خود اس فرق کو ختم کر دیا ہے۔ قادری صاحب عمران کو اپنا کزن کہتے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب انہیں جڑواں بھائی قرار دیتے ہیں۔ مجھے اب یہ دو دھڑ والا ایک بچہ دکھائی دیتا ہے۔
2۔ عمران خان کی مخالفت کا قطعی یہ مفہوم نہیں کہ نوازشریف صاحب کی سیاست یا اسلوبِ حکومت میں کوئی خرابی نہیں۔اس میں بے شمار خرابیاں ہیں جنہیں دور کر نا ضروری ہے۔ مثال کے طور پرمیں اس تاثر کو حقیقت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اختیارکو اپنے خاندان اور چند ذاتی وفاداروں میںمرتکز کر دیا ہے۔ یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔اس طرح کی اور بہت سے باتیں بھی درست ہوں گی۔ میں اگر اس وقت ان کو بیان نہیں کر تا تو اس کی وجہ وہی ہے جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 'سٹیٹس کو‘ اور تبدیلی کی قوتوں کے مابین نہیں، دونقطہ ہائے نظر کے درمیان تصادم ہے۔ ایک نقطہ نظر وہ ہے جسے پہلے طالبان اور آج عمران وقادری پیش کررہے ہیں۔ یہ نقطہ نظرکہتا ہے کہ مو جودہ ریاستی ادارے اور نظام عوامی مسائل حل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں طاقت سے بدل ڈالیں۔ طالبان کے نزدیک یہ طاقت بندوق ہے۔ عمران اور قادری صاحب کے نزدیک یہ انبوہ ہے۔ طالبا ن اور ان میں فرق نظری نہیں، طریقۂ واردات کا ہے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس موقف کا لازمی نتیجہ فساد اور لاقانونیت ہے۔ اگر خیرکی قوتیں کوشش کریں تو عوامی دباؤ سے،کسی فساد کے بغیر اصلاح لائی جا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تبدیلی کے لیے اسی طریقے کو اختیار کیا جائے جوآئین میں مو جود ہے۔ میں اسی نقطہ نظرکو درست سمجھتا کیونکہ فتنہ،اللہ کے نزدیک قتل سے بڑا جرم ہے۔اس وقت اس نقطۂ نظر کا فائدہ اگر حکومت کو پہنچ رہاہے تو یہ ارادی (By design) نہیں، جبری (By default) ہے۔ اس کا فائدہ کے پی میں تحریکِ انصاف اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو پہنچے گا۔
میرے نزدیک پاکستان کی سیاسی اور سماجی بقا کے لیے ناگزیرہے کہ انقلاب کے نام پر پھیلنے والے اس فساد اور لاقانونیت کا راستہ روکا جائے۔ آج اس سے زیادہ ضروری کام کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے میں نے ایک تسلسل کے ساتھ اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پہ لکھا ہے۔ جب ملک اس عذاب سے نکل آئے تو اس وقت سارا زور اس پر لگایا جائے کہ ملک کو ایک اچھی حکومت کیسے مل سکتی ہے۔ میں نے نوازشریف صاحب کے اسلوبِ حکومت پر تنقیدکو اس وقت کے لیے اٹھا رکھا ہے۔