"KNC" (space) message & send to 7575

آوازِ دوست

اللہ کا شکر ہے کہ عصمت اللہ معاویہ صاحب نے وہ بات جان لی جس کی طرف ہم جیسے طالب علم ایک مدت سے توجہ دلا رہے تھے۔ ڈاکٹر فاروق خان شہید آج زندہ ہوتے تو انہیں اس قلبِ ماہیت سے بہت خوشی ہوتی۔کیا یہ آوازِ دوست آج ایک عمومی پکار میں ڈھل سکتی ہے؟
پاکستان قتال کا نہیں،دعوت کا محل ہے۔ اس ملک میں بسنے والوں میں، ستانوے فیصد ایسے ہیں جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ باقی تین فیصد غیر مسلموں کے ساتھ ہم نے معاہدہ کیا ہے کہ اُن کواس سرزمین پر جان و مال کا تحفظ ملے گا، انہیں مذہبی آزادی میسر ہو گی اور بنیادی انسانی حقوق کے معاملے میں بھی مذہبی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ یوں پاکستان میں رہنے والے سو فیصد لوگوں کے جان ومال کسی کے لیے مباح نہیں ہوسکتے۔ مجھے اطمینان ہے کہ کوئی عالم اس کے برخلاف رائے نہیں دے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہم میں خرابیاں ہیں۔ اسلام ہم سے کچھ مطالبات کرتا ہے ، ہم انہیں پورا کرنے میں غفلت کے مر تکب ہوتے ہیں۔ ہم حکمران ہوں یا رعایا، عوام ہوں یا خواص، عالم کے پروردگار نے ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ ہم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ، لیکن ان سب کوتاہیوں کے باوجود ، ہم مسلمان ہیں۔ ہم میں شاید ہی کوئی ہو جو اپنی کمزوریوں کے لیے عذر پیش کر تا ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا بد بخت ہوجو اپنے رب کا باغی ہو۔ ہم میں گناہ گار ہیں لیکن جانتے ہیں کہ وہ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایسے سماج کا علاج تلوار نہیں دعوت ہے۔۔۔۔۔انذار، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر !
مسلمان اہلِ علم نے ایک مسلمان معاشرے میں تلوار اٹھانے کو کبھی جائز نہیں کہا۔ حکمران غفلت کے مرتکب ہوئے تو اہلِ علم نے انہیں متوجہ کیا ، انہیں خبردار کیا ،انہیں نصیحت کی۔ عوام میں کسی خرابی نے سر اٹھایا تو وعظ و تلقین کی۔ علماء میں کسی اخلاقی کمزوری نے راہ بنائی تو انہیں پکارا۔ صوفیاء میں کسی بدعت کو پنپتے دیکھا توانہیں سنت کی طرف بلایا۔ حکمرانوں نے کبھی نصیحت کو قبول کیا ، کبھی سنا لیکن عملاً رد کر دیا۔کبھی ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے حدود سے تجاوزکیا اور حق بات کہنے پر علمائے حق کو تعزیر کا مستحق قرار دیا۔ ان نیک لوگوں نے ہر جبر کو برداشت کیا لیکن جواباً اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ انہیں صرف انذار کر نا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔کوئی اس کو جاننا چاہے تو اَئِمّہ اربعہ کی سوانح پر ایک نظر ڈال لے ، امام غزالی کی کتابوں کو پڑھ لے۔ اس امت کے جلیل القدر لوگوں کی تاریخ یہی ہے۔ مسلمان سماج میں جس نے بھی اس راہ سے انحراف کیا،اس نے فساد کا راستہ کھول دیا۔ طاقت اور تلوار کے ساتھ اصلاح کی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ حکمرانوں کے خلاف خروج کی شرائط اتنی سخت ہیں کہ کسی مسلمان حکمران کے خلاف یہ اقدام کم و بیش ناممکن ہے۔
پاکستان میں عسکری جدو جہد کے نتائج ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔ یہ ملک فساد سے بھر گیا، یہاں خوف نے ڈیرے ڈال دیے، ہزاروں لوگ مر گئے۔ پسِ مرگ اُن سے پوچھا جائے تو وہ بتا نہیں سکیں گے کہ انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا۔ اتنے سال کی غارت گری کے بعد اس کے نتائج ہم نے بچشمِ سر دیکھ لیے۔ اب سود وزیاں کا حساب کرنا آسان ہے۔ اب تو ہم ایک گوشوارہ مرتب کر سکتے ہیں کہ ہم نے کیا کھویا اورکیا پایا؟کوئی چیز آنکھوں سے اوجھل نہیں ، ہمیں کسی سے پو چھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم بتا سکتے ہیں کہ تیس سال پہلے کا پاکستان کیسا تھا اور آج کا پاکستان کیسا ہے؟ ہم سماجی، معاشی، سیاسی ، ہر حوالے سے جائزہ لے سکتے ہیں کہ قتال سے ہم نے پاکستان کو کیا بہتر بنا لیا؟ یقیناً ہر ذی شعورکا جواب ایک ہی ہوگا ، آج کا پاکستان ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ حال ہے۔ اس کے در و دیوار پر بربادی کی ان گنت داستانیں لکھی ہیں۔ ایک المیے کا بسیرا ہے جس نے ہر دروازے پر ایک بار ضرور دستک دی ہے۔
اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ پاکستان کی بربادی کا مطلب اہلِ اسلام کی بربادی ہے۔ پاکستانی فوج کی کمزوری کا نتیجہ مسلمانوں کی عسکری قوت کا زوال ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اگر معاشی طور پر مشکلات میں گھرا ہو گاتواس سے وہ لوگ خوش ہوں گے جو اسلام سے بغض رکھتے ہیں۔ ہم بے شمار خامیوں کا مجموعہ ہوسکتے ہیں لیکن دنیا کے لیے اسلام کا چہرہ ہیں، امت ِمسلمہ کی عزت ہیں۔ پاکستان کے اضطراب کا مطلب، اہلِ اسلام کی بے چینی ہے۔ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچتا ہے توہم جانتے ہیں کہ کہاں کہاں خوشی کی لہر دوڑجاتی ہے۔ پاکستان کی کامیابی پرکہاں کہاں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ اگر کوئی ان باتوں پر غورپر آمادہ ہو اوراس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی رتی برابر محبت ہو تو وہ پاکستان میں کبھی فساد کو پسند نہیں کرے گا۔ وہ کبھی پاک فو ج اور پاک عوام کو نقصان نہیں پہنچانا چاہے گا۔
معلوم ہوتا ہے کہ عصمت اللہ معاویہ صاحب کواس بات کااندازہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے ایک بہادرآ دمی کی طرح اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیا ہے۔ اُن لوگوں سے مشورہ کیا ہے جن کے علم پر ان کو اعتبار ہے۔ پھرانہوں نے اس نتیجۂ فکر کو سب کے سامنے بیان کیا ہے۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ پاکستان دعوت کا محل ہے، سب کو جان و مال کی امان ہے ، یہاں دعوت کا کام ہی کیا جا سکتا ہے۔ دعوت بھی وہ جس کا تعلق ایک مسلمان معاشرے سے ہے ، لوگوں کو ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا اور آخرت میں جواب دہی کے لیے تیار کرنا۔ اس باب میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ دعوت کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق علما کے ساتھ ہے۔ یہ دعوت تفقہ فی الدین کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جسے قرآن مجید نے تواصی بالحق کہا ہے۔ اس میں ہر مسلمان بیک وقت داعی ہوتا اور مدعو بھی۔ وہ کسی کو دعوت دے رہا ہوتا ہے اورکوئی اسے۔ یوں مسلمان سماج میں خیرکا مسلسل تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔
اگر آج لوگ شعوری تبدیلی کے بعد، تلوار کے بجائے دعوت سے اصلاح کا کام کر نا چاہتے ہیں تو ریاست اور سماج کو اس کا خیر مقدم کر نا چاہیے۔ ریاست کو ایسی حکمتِ عملی اختیارکر نی چاہیے کہ لوگوں کے سامنے واپسی کا راستہ کھلا رہے۔ وہ اگر دوبارہ معاشرے کا فعال حصہ بنناچاہیں تو انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کر نا پڑے۔ اس ضمن میں قانون سازی کی جا سکتی ہے اور عام معافی کا بھی اعلان کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو لوگ ابھی تک پاکستان میںقتال ہی کے قائل ہیں، انہیں عصمت اللہ معاویہ صاحب کی طرح ایک بار پھر اپنے طرزِ عمل پر غور کر نا چاہیے۔ علماء سے مشاورت کر نی چاہیے ، بطور خاص اس سوال پر غورکر نا چاہیے کہ پاکستانی فوج کے ساتھ برسرِ پیکار ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان؟ 
پاکستان اللہ کی ایک نعمت ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ہم سب اپنا حصہ ڈالیں۔ اس باب میں کسی کو شبہ نہیں ہو نا چاہیے کہ پاکستان کا استحکام امتِ مسلمہ کااستحکام اور پاکستان کی کمزوری مسلمانوں کی کمزوری ہے۔ اگر ہم صرف اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں سوچیں تو بھی ہم اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ پاکستان کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے بہت طاقت ور ہو نا چاہیے۔ ایک مضبوط اور پُرامن پاکستان جنوبی ایشا کے امن کی ضمانت بھی ہے۔ عصمت اللہ معاویہ صاحب اگر اپنے عسکریت پسند دوستوں میں اس دعوت کو پھیلا سکیں تو یہ اسلام اور امتِ مسلمہ کے لیے ان کی بڑی خدمت ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں