مجھ جیسے طالب علم، جو کچھ تجزیے کے اسلوب میں کہہ رہے تھے،جناب ہارون الرشید نے اپنی معلومات سے اُس کی تصدیق کردی۔جو بادی النظر میں دکھائی دے رہا تھا،وہ در اصل ہماری نظروں سے دور کہیں طے پا رہا تھا۔میرا میدان تو تجزیہ ہے۔ مجھے اسی پہ اکتفا کرنا ہے۔
دو الگ مقدمات ہیں جنہیں کم فہمی سے جمع کر نے کی کوشش کی گئی۔ایک یہ کہ ہمارا سیاسی وریاستی نظام اصلاح کا متقاضی ہے۔ خرابی چونکہ ہمہ جہتی ہے،اس لیے اصلاح کی نیم دلا نہ کوشش کافی نہیں ہو گی۔لہٰذا غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ عمران و قادری ایڈونچر،اسی اصلاح کے لیے ہے۔مجھے پہلے مقدمے کے بارے میں کبھی شبہ نہیں رہا‘ دوسرا مقدمہ البتہ غلط تھا۔اس کے دلائل میں نے تسلسل کے ساتھ بیان کیے اور کچھ دوسرے لوگوں نے بھی۔اسی بنیاد پرمیرا اصرار رہا کہ یہ ساری تحریک منفی ہے اوراس کا حاصل فسادکے سوا کچھ نہیں۔یہ سب 'سٹیٹس کو‘کے لوگ ہیں جو باندازِ دگر، عوامی جذبات کا ایک بار سودا کرنے آئے ہیں۔اس لیے سرِ دست ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ عوام خود کو ان سے الگ رکھیںاوراس معرکہ آرائی میں انقلابیوں کی ناکامی ہی پاکستان کے مفاد کا تقاضا ہے۔آج ہارون صاحب کی معلومات بھی اس مقدمے کی پشت پر کھڑی ہیں۔بہت دن پہلے، نیویارک میں مقیم ایک دوسرے اخبار کے نمائندہ عظیم میاں نے بھی یہ سازش بے نقاب کر دی تھی۔پروفیسر احمدرفیق اختر صاحب جیسے سنجیدہ آدمی نے بھی اس کی تصدیق کی۔یہ سب گواہیاں ایسی نہیں کہ انہیں نظرا نداز کیا جا سکے۔پھر یہ کہ عقل و شعور کی راہنمائی بھی اگر اس کی تصدیق کرتی ہو تو پھر انکار مزیدمشکل ہو جا تا ہے۔
ان معلومات میں مگر دو ابہام ہیں‘ انہیں دور ہو نا چاہیے۔جو لوگ سازش کی بات کرتے ہیں وہ عمران خان کو اس کا براہِ راست حصہ نہیں سمجھتے۔میرے لیے اس بات کو ہضم کر نا آسان نہیں۔ لندن میں عمران و قادری ملاقات کااب شا ہ محمود قریشی صاحب نے اعتراف کر لیا ہے۔تحریکِ انصاف کی قیادت اس سے پہلے مسلسل انکار کرتی رہی ہے۔اہلِ سیاست میں ملاقاتوں کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔اگر یہ دونوں ملے تھے تو اس میں کیا برائی تھی؟خفیہ تو وہی چیز رکھی جاتی ہے جس کی علانیہ کوئی توجیہ دینا ممکن نہ ہو یا جو آپ کے خیال میںاخلاقاً قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملاقات خانہ جنگی کے اسی خفیہ منصوبے کا ایک باب تھی؟ اگر تھی تو عمران خان اس منصوبے کا براہ راست حصہ کیسے نہیں؟اور اگر نہیں تو کیا وہ اتنے بے بصیرت تھے کہ اس کا ادراک نہیں کر سکے؟ نہ صرف اُس وقت بلکہ بعد میں بھی جب اس مبینہ سازش کے خدوخال بڑی حد تک واضح ہو گئے۔یہی نہیں،اب یہ بھی ایک کھلا رازہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کا منصوبہ مشاورت سے بنا تھا۔ اس کے مراحل طے تھے کہ کب تک الگ الگ اور کب ایک ساتھ چلنا ہے۔کیا یہ ساری منصوبہ بندی اتنی سادگی کے ساتھ ہو رہی تھی کہ عمران خان کو کسی سازش کااندازہ ہی نہیں ہو سکا؟
دوسرا ابہام وہ ہے جو جاوید ہاشمی کے انکشافات پیدا کر رہے ہیں۔ہاشمی صاحب کے مطابق، عمران خان کا دعویٰ یہ تھا کہ ان کا مرکزِ قوت ملک کے اندر ہے، بیرونِ ملک نہیں۔جاوید ہاشمی نے اسے اپنی رائے یا معلومات کے طور نہیں، عمران خان کے موقف کے طور پر پیش کیا ہے کہ وہ یہ کہتے تھے۔ہاشمی صاحب کے بارے میں مستند لوگوںکی گواہی ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان نے یہ تاثر کیوں دیا؟کیا انہوں نے ایک بے بنیاد بات کسی دوسرے سے منسوب کی؟پھر یہ بات صرف عمران خان نہیں کہہ رہے،اس کی صدائے بازگشت دیگر ذرائع سے بھی سنی جارہی ہے۔تجزیوں میںاس کو ایک قابلِ ذکر موقف کی حیثیت سے قبول کیا گیا ہے۔یہ بات تو کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے کہ داخلی اور خارجی قوتیں ایک ساتھ پاکستان کے خلاف کسی منصوبے کا حصہ ہوں۔یہ بات بھی ہضم کر نا مشکل ہے کہ سلامتی کے قومی ادارے اس سازش سے بے خبر ہوں۔وہ نہ صرف ان قوتوں کو اتنے دن دارالحکومت کی سڑکوں پر گوارا کریں بلکہ فوج کے سپہ سالار ثالثی کی پیشکش کریں اور ساتھ ہی آئی ایس پی آر حکومت کو متنبہ کرے کہ 'سازشیوں‘کے خلاف طاقت استعمال نہ کی جائے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہو؟
ان ابہامات کے باوصف،مجھے اس بات پر شرحِ صدر ہے کہ یہ فساد پر مبنی ایک حکمت عملی تھی جس کا نتیجہ کسی طور خیر پر مبنی نہیں ہو سکتا تھا۔ہیجان سے کبھی خیر برآمد نہیں ہوا۔ جب ہم فیصلے کا حق بپھرے عوام کو دے دیتے ہیں توآٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔جو لوگ سماج میںانتقام کے جذبات پیدا کرتے ہیں، وہ در اصل ظلم کو فروغ دیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انبیاؑ کی حکمتِ عملی انقلابی نہیں ہوتی‘ وہ ارتقا پر یقین رکھتے ہیں اور برائی کو نیکی سے دور کرنے کی سماجی نفسیات کو فروغ دیتے ہیں۔برائی کو برائی سے دور کرنے کی سوچ اشتراکیت کی دَین ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب لوگ رحمٰن ملک صاحب کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک پر خوش ہوتے اور اسے تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں۔پیغمبر کبھی ایسا نہیں کرتے۔جو لوگ اس کو سمجھنا چاہیں ،وہ سیرتِ پاک میں فتح مکہ کا باب پڑھ لیں۔آپ نے انتقام نہیں،احسان اور معافی کے کلچر کو عام کیا۔اگر کسی سماج میں ایسا ہو رہا ہے تویہ خوشی کی نہیں، تشویش کی بات ہے۔
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ جب طبقات میں تفاوت بڑھ جاتا ہے تو ایسے واقعات ہونے لگتے ہیں۔اس لیے میں اس مقدمے کو درست سمجھتا ہوں کہ اس سیاستی نظام میں اصلاح کے لیے غیر معمولی کوشش کی ضرورت ہے۔میرا کہنا یہ ہے کہ یہ اصلاح ہیجان پیدا کرنے سے نہیں ہو سکتی۔آج لوگ لاقانونیت کی یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ بپھرے ہجوم کی ایک نفسیات ہوتی ہے‘ اسے قابو نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ قیادت آخر کس شے کا نام ہے؟ اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ ہجوم پی ٹی وی اور سرکاری عمارتوں پر حملہ آور ہو سکتا ہے تو آپ انہیں ایسے علاقوں میںکیوں لاتے ہیں؟یہاں تو لیڈر ہر روز بار بار عوام کو ہیجان میں مبتلاکرتے ہیں۔اس کے بعد ان کا یہ کہنا مضحکہ خیزہے کہ'پھر میں اپنے ٹائیگرز کو روک نہیں سکوں گا‘۔لیڈر چاہتے ہی یہی ہیں کہ فساد پیدا ہو۔انقلابی فلسفے اور ان کے قائدین کی سوانح پڑھیں تو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ فساد تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے۔طاہرالقادری صاحب اسے بیان کر چکے کہ انقلاب کے لیے خون بہاناپڑتا ہے۔
اس لیے اگر ہم سازش کے پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس ہنگامہ آرائی کا تجزیہ کریں تو بھی اس کیا نتیجہ وہی ہے جو کسی سازش کا ہو سکتا ہے اور وہ ہے، خانہ جنگی اور فساد فی الارض۔یہ طالبان ہی کا بیانیہ ہے جو بااندازِ دگر ہمارے سامنے آیا ہے۔اگر یہ سازش بھی ہے تو پھر معاملے کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔تجزیے کی حد تک تو مجھے کوئی ابہام نہیں لیکن اگریہ سازش ہے توان ابہامات کو دور ہو نا چاہیے،جن کا میں نے آج ذکر کیا ہے۔اگر ہارون صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ 1971ء کے بعد یہ پاکستان کے خلاف سب سے بڑی سازش ہے توپھریہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کی یہ اوّلیںذمہ داری ہے کہ اس کو قوم کے سامنے بے نقاب کریں اور ان کرداروں کو بھی جو اس قوم کے رہے سہے سکون کو بھی برباد کرنا چاہتے ہیں۔