حکومت قوتِ نافذہ کا نام ہے جیسے انسا ن انسانیت کا۔ انسان اس شرف سے محروم ہو جا ئے تواسے انسان کہنا مشکل ہو تا ہے۔اسی طرح حکومت قوتِ نافذہ سے محروم ہو جائے تو اسے حکومت ماننا مشکل ہو تا ہے۔میں جانتا ہوں کہ مصلحت متقاضی ہو تو قوت کے استعمال سے گریز بھی کیا جاتا ہے‘ لیکن ہر جگہ اور ہروقت گریز کا نام حکومت نہیں۔
بجلی کے بلوں میں بے سبب اضافہ مذاق نہیں۔خواجہ آصف کی طبعِ نازک پر تنقید گراں گزرتی ہے تو یہی مناسب ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔وہ عوامی نمائندے ہیں اورحتمی ذمہ داری ان کی ہے۔دھرنے کا عذاب کیا کم تھا کہ لوگوں کو مصنوعی مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا جائے؟ حکومت کا کام عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔بجلی کے بلوں میں یہ اضافہ کسی افراطِ زر کا نہیں، صریحاًنا اہلی کا معاملہ ہے۔ یہی وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں حکومت کی قوتِ نافذہ دکھائی دینی چاہیے۔اس نااہلی کا مطلب مہنگائی میں مزید اضافہ اور پریشان عوام کو مزید پریشان کر نا ہے۔اگر حکومت کی قوتِ نافذہ یہاں کام نہیں آئے گی تو پھراسے کس کام کے لیے رکھ چھوڑا ہے؟کیا دھرنے کے لیے؟
دھرنے کا معاملہ بھی عجیب ہے۔یہاں بھی کسی حکومت کا وجود ثابت نہیں۔ابتدا میں قوت کے استعمال سے گریز ہی مناسب تھا کہ تشدد فریق ِثانی کی ضرورت تھی۔انہوں نے سترہ لاشوں کی جھوٹی کہانیاں گھڑیں اور سب نے جان لیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔حکومت نے طاقت کے استعمال سے گریز کیا اور اچھا کیا لیکن کب تک؟اب تو بقول شاہ محمود قریشی، دھرنے کا چالیسواں بھی ہو چکا ۔اب تو صفِ ماتم اٹھاد ینی چاہیے۔سب جانتے ہیں کہ اس وقت اس کا صرف ایک مقصد ہے: حکومت کو مفلوج کر نا۔وہ کوئی کام نہ کر سکے اور یوں اس کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے۔یہ تو عمران خان نے جان لیا کہ استعفیٰ نہیں مل سکتا۔چوہدری شجاعت حسین صاحب نے اسلام آباد میں برادرم بابر اعوان کی صاحب زادی کی تقریبِ رخصتی میں، اس کی وجہ سادہ الفاظ میں بتا دی: ''استعفیٰ بھی کوئی منگن والی شے اے؟‘‘ (استعفیٰ بھی کوئی مانگنے والی چیز ہے؟)
جب ریاست مفلوج اور کاروبارِ زندگی شدت کے ساتھ متاثر ہو نے لگے تو پھر حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ بروئے کار آئے۔احتجاج طویل ہو جائے توغیر فطری ہوتا ہے جسے زیادہ دن گوارا نہیں کیا جا سکتا، بالخصوص جب اس کی کوئی عقلی،آئینی اور اخلاقی بنیاد نہ ہو۔یہ دھرنے اب وبالِ جان بن چکے۔ لمحۂ مو جود میں اس دھرنے کی حقیقت کیا ہے؟طاہر القادری صاحب نے لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔بے بس اور لاچارلوگ۔ عقیدت اور غربت کے مارے ہوئے۔ شرکاء کے کوائف جمع کیے جائیں تو کتنی ہولناک داستانیں سامنے آئیں۔کتنے سماجی المیے اور حادثے! صرف بی بی سی نے بعض پہلو اجاگر کیے۔ مقامی میڈیا کی اپنی ترجیحات ہیں۔وہ دانستہ ان پہلوئوں کی نقاب کشائی سے گریزاں ہے۔عمران خان کے دھرنے کا موڈ دوسرا ہے۔ سرِ شام آسودہ حال لوگوں کے جواں سال بچے اور بچیاں جمع ہوتے اور انجوائے کرتے ہیں یہاں تک کہ رات ڈھلنے لگتی ہے اوروہ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔شہر کے پوش علاقوں میں وہ رہتے ہیں جہاںآرام دہ بستر ان کے منتظر ہوتے ہیں۔عمران خان اس احساس میں تنہا مبتلا نہیں کہ 'جتنامزا اس ایک مہینے میں آیا، اٹھارہ سال کی سیاست میں نہیں آیا‘۔وہ تو آ غاز ہی میں کہہ چکے تھے کہ ایک سال سے وہ بور ہورہے تھے کہ یہ نیا شغل ہاتھ آگیا۔ان کو مزا آر ہا ہے اور پاکستان بھگت رہا ہے۔
آج دھرنے کی حقیقت یہی ہے۔اگر کسی کے نزدیک یہ ایک بڑے مقصد کے لیے تھابھی تواس کا خواب کب کا ٹوٹ چکا۔ایک منظم ریاست اورمعاشرے میں تبدیلی اس طرح نہیں آتی۔ خرابیوں کے باوجود یہاں ادارے مو جود ہیں۔برے بھلے صحت اور تعلیم کے نظام ہیں۔ اس سے فائدہ ا ٹھانے والے کروڑوں میں ہیں۔دو اڑھائی ماہ پہلے میری ایک عزیزہ کے گردے کا پیچیدہ آپریشن ہوا،راولپنڈی کے عام سرکاری ہسپتال میں۔بارہا ان کی عیادت کے لیے جاناہوا۔یہ آ پریشن مفت ہوا اور اللہ نے انہیں شفا دی۔ میں نے دیکھا کہ وارڈز مریضوں سے بھرے ہیں جہاں صبح شام لوگوں کا علاج ہو رہا ہے۔میری ماموں زاد راولپنڈی سے کہیں دور ایک گاؤں میں پڑھاتی ہیں۔وہ زوآلوجی میں ایم ایس سی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ تاخیر سے سکول جائیں تو باز پرس ہوتی ہے۔ بچوں کو کتابیں مفت ملتی ہیں۔آج عام دیہات میں عام بچوں کو جدید تعلیم یافتہ لوگ پڑھا رہے ہیں۔ جہاں کبھی سڑک کا تصور نہ تھا آج پکی گلیاں ہیں۔
یہی نہیں، آج سماج بھی زندہ ہے۔لوگوں کے پاس پیسہ ہے اور وہ فیاض بھی ہیں۔ہمارے گھر میں ایک خاتون کام کرتی تھی، کثیر العیال اور نکھٹو خاوند۔اس کی بچیاں ایم اے کر چکی ہیں۔ وہ خود کینسر کی مریضہ ہے اور اسے ہزاروں روپے کے انجیکشن لگتے ہیں۔ایک بار بھی اس کے انجیکشن میں تاخیرنہیں ہوئی اور اس کی بچیوں کی تعلیم اس وجہ سے نہیں رکی کہ فیس میسر نہ تھی۔جب کبھی اس کے لیے مسئلہ ہوتا ہے، وہ ہمارے ہاں آتی ہے۔میری اہلیہ اور بھابھی اپنے خاندانی اور سماجی حلقے کو متحرک کرتی ہیں اور یوں اللہ کے کرم سے اس کا کام ہو جا تا ہے۔ میں اگر صرف اپنے گردو نواح سے ایسے لوگوں کی فہرست مرتب کروں تو سیکڑوں میں ہوگی۔اس کا مطلب ہے کہ ریاست اور سماج دونوں نے ابھی امید کو زندہ رکھا ہے۔اس کا یقیناً یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ مسائل نہیں ہیں اور محروم طبقات کی کمی ہے۔میں اس کی شدت سے باخبر ہوں۔میں صرف اس بات کی نفی کر رہا ہوں کہ ریاست اور سماج کی سطح پر خیر اور امید کا ہر دروازہ بند ہو گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔جو لوگ دکھوں کو گلیمرائز کرتے ہیں، وہ مبالغہ کرتے ہیں۔وہ ریاست اور سماج کے خیر سے دانستہ صرفِ نظر کرتے ہیں۔مزید یہ کہ آزادیٔ رائے پر کوئی قید نہیں۔حتیٰ کہ سرعام گالیاں دینے کی بھی مکمل آزادی ہے۔ جہاں امید کا باب کھلا رہتا ہے وہاں کوئی انقلاب نہیں آ سکتا۔ جہاں آزادی رائے ہو وہاں بھی انقلاب نہیں آتے۔
اس وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ آج اگر حکومت قوتِ نافذہ کا استعمال کرتے ہوئے اس دھرنے کو ختم کر دے تووہ اس کا قانونی اور اخلاقی ا ستحقاق رکھتی ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ اسے ایسا کر نا چاہیے۔ایک وقت آتا ہے کہ حکومت کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہو تا ہے۔استنبول میں گیزی پارک کے معاملے کو جب حکومت کے خلاف ایک تحریک اورسماجی فسادکی بنیاد بنانے کی کوشش ہوئی تو طیب اردوعان نے تین کام کیے۔ چند روز کے لیے سوشل میڈیا(فیس بک، ٹویٹر وغیرہ) اور الیکٹرانک میڈیا پر پابندی لگا دی۔دوسری طرف پولیس کومتحرک کیا کہ لوگوں کو دھرنے سے بزور اٹھادے۔تیسری طرف اپنی پارٹی کو متحرک کیا جس نے حکومت کے حق میں جلوس نکالے۔عالمی سطح پر ردِ عمل آیا کہ اردوعان آمر ہے۔انہوں نے اس سے بے نیاز ہوکر حکومت کی رٹ قائم کی اور اپنے تعمیراتی منصوبوں کو رکنے نہ دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترک عوام نے ، چند ماہ بعدانہیں بھاری اکثریت سے صدر منتخب کر لیا۔
یہ فارمولہ مگر وہاں کامیاب رہتا ہے جہاں حکومتوں کو اپنی صلاحیت اور عوامی ساکھ پر اعتماد ہو تا ہے۔کیا ہماری حکومت کو یہ اعتماد ہے؟ اگر ہے تو پھر اس کا فیصلہ ہو نا چاہیے کہ بجلی کے بلوں میں کیوں اضافہ ہوا اور کون اس کا ذمہ دار ہے۔ اس کے ساتھ اِن دھرنے کی صفیں بھی اب لپیٹ دی جانی چاہیں کہ اس کا چہلم بھی ہو چکا۔