لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد آج عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ کیا ہم نے سوچا کہ یہ کون لوگ ہیں؟
یہ موجود نظام سے متنفر اور شاکی ہیں۔ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس نظام نے انہیں کچھ نہیں دیا۔ یہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں۔ بی اے پاس اور کسی حد تک آسودہ۔ انہوں نے بھوک اور ننگ کا نام سنا ہے لیکن ان محرومیوں سے کبھی ان کا پالا نہیںپڑا۔ انہیں روٹی، کپڑا اور مکان میسر ہے۔ روزگار بھی ہے۔ ان کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بیماری نے ان کے گھروںکا رخ کیا ہو اور دوا ان کی دسترس سے باہر رہی ہو۔ ہفتے عشرے کے بعد یہ دوستوں کی مجلس سجاتے اور زندگی کی دل کشی کا لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ برگر فیملیز کے چشم و چراغ بھی ہیں جو ساحل سمندر اور ڈیفنس میں مظاہرے کرتے ہیں۔
ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو بیرونِ ملک آباد ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے باسی‘ جنہیں زندگی کی ہر نعمت میسر ہے۔ نیو یارک اور پیرس میں رہتے ہیں لیکن ان کا دل یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں موجود نظام کو آگ لگا کر خاکستر کر دیں۔ انہیں اس میں کوئی خیر دکھائی نہیںدیتا۔ یہ سب لوگ ، الاماشااﷲ، مخلص ہیں۔ وہ دل سے ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ ان کے خیال میں عمران خان کے علاوہ ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی راہنما بد عنوان اور دھوکے باز ہے۔ وہ پوری دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان حق و باطل کا پیمانہ ہے۔ کسی کے سچا اور دیانت دار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ عمران خان کا ہم نوا ہے۔ کسی کا جھوٹا اور بد دیانت ہونا اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کا ناقد اور اس کا مخالف ہے۔ اس موقف کی پشت پر یقیناً سیاسی رومان بھی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ اس نظام سے بیزاری اور نفرت بھی نمایاں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ میں اس پر سوچتا ہوں۔ میں ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی جیسے سماجی نباض سے پوچھتا ہوں۔ عمرانیات کے ماہرین سے سوال کرتا ہوں۔ اکثر لوگ اس کا ایک جواب دیتے ہیں۔ میں اس کی اصابت کو قبول کرتا ہوں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو اختیار میں اپنا حصہ چاہتا ہے۔ انسان جبلّی تقاضوںسے آزاد ہو جائے تو اس کے من میں جو پہلی خواہش جنم لیتی ہے وہ طاقت کے حصول کی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاس تعلیم ہے اور ہنر بھی لیکن طاقت ان کے ہاتھوں میں ہے جو ہنر سے محروم ہیں اور تعلیم سے بھی۔ وہ اس بات کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اس نظام کو چلا سکے۔ اس طاقت کو اب اس کے ہاتھوں کو منتقل ہو جانا چاہیے۔ وہ دیکھتا ہے کہ طاقت کے کھیل پرکچھ گروہوں نے اس طرح سے قبضہ کر رکھا ہے کہ اس کو کبھی جگہ نہیں دیں گے۔ سرمایے کی صورت میں ، ان کے پاس ہنر اور تعلیم کا ایک متبادل موجود ہے۔ یہ اس سے تعلیم اور ہنر سمیت ہر چیز خرید سکتے ہیں، حتیٰ کہ اقتدار بھی۔ عدالتیں ان کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ مقننہ پر یہ قابض ہیں۔ انتظامیہ ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ یہ تو مجھے بھی جگہ نہیں دیں گے۔ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ قابض طبقے اور موجود نظام کی بربادی ہی سے مجھ پر طاقت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
یہ احساس جیسے جیسے گہرا ہوتا جاتا ہے، اس طبقے کا غصہ شدید ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ کبھی ادھر ، کبھی ادھر اس کا اظہار کرتا ہے۔ اگر کوئی لکھنے والا اس کے جذبات کو زبان دے دے تو وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی راہنما اس کو نعرہ بنا لے تو وہ اس کے گرد جمع ہونے لگتا ہے۔ ترقی پذیر معاشروں میں حکمران طبقہ کم فہم ہوتا ہے اور کم ظرف بھی۔ وہ طاقت کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم لوگوں کے ساتھ شراکت کرے۔ وہ انہی لوگوں کو جگہ دیتا ہے جو اس کی مجبوری بن جاتے ہیں۔ وہ اس طبقے کے غصے کی شدت کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتا اور یوں ایک لاوا پکتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی عمران خان اسے شعلہ جوالہ بنا دیتا ہے۔
یورپ میں جب اشتراکیت کا طوفان اٹھا تو بہت جلد حکمران طبقے نے اس کی شدت کو محسوس کر لیا۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ اگر اس نے طاقت کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز رکھا تو یہ اس سے چھن بھی سکتی ہے۔ اگر اس نے اپنی دولت میں سے دوسروں کو حصہ نہ دیا تو وہ اپنی تجوریوں سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔ یوں اس نے جمہوریت اور بنیادی حقوق کا ایک نظام متعارف کرایا۔ کھلی منڈی کی معیشت کا تصور دیا۔ آزادیٔ رائے کا پرچم اٹھا لیا۔ اس سے یہ ہوا کہ سماج کے ایک بڑے طبقے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ اقتدار میں شریک ہو گیا ہے۔ اس طرح حکمران طبقے نے سرمایہ اور اختیار کا ایک بڑا حصہ اپنے پاس رکھا لیکن سماج کے اس طبقے کو بھی کسی حد تک اس میں شریک کر لیا جو اس کے اقتدار اور سرمایے کے لیے چیلنج بن سکتا تھا۔ یوں ترقی یافتہ معاشروں میں انقلاب کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
ہمارا حکمران طبقہ اپنی ذہنی اور اخلاقی پس ماندگی کے سبب ابھی اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکا۔ وہ یہ نہیں جان سکا کہ جو لوگ دھرنا دے رہے ہیں یا اس نظام سے اظہار نفرت کر رہے ہیں، وہ در اصل اس نظام میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ جس دن یہ نظام انہیں ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ ہو گیا، یہ انقلابی لہر پر سکون بہاؤ میں بدل جائے گی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ خیبر پختون خواکی تحریک انصاف دھرنے اور تصادم کے شدید خلاف ہے۔ وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے پر آمادہ ہیں نہ حکومت چھوڑنے پر۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے۔ وہ اس نظام سے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ استعفیٰ کیوں دیں؟ وہ عمران خان کے شدید ناقد ہیں اور شدت سے یہ چاہتے ہیںکہ اس دھرنے کا خاتمہ ہو۔ اس کے برخلاف پنجاب میں یہ لہر ابھرتی جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ طبقہ یہاں اقتدار سے محروم ہے۔
موجودہ سیاسی نظام صرف گیارہ سو افراد کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ باقی لوگ آخر کہاں جائیں؟ اس کا ایک علاج بلدیاتی اداروں کی بحالی ہے۔ اگر آج بلدیاتی ادارے زندہ ہو جائیں تو ہزاروں لوگ اقتدار میں شریک ہو جائیں گے۔ یوں اس طبقے میں یہ امید پیدا ہو جائے گی کہ وہ بھی اس نظام سے مستفید ہو سکتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ آج اگر بلدیاتی ادارے بحال ہو جائیں تو کل دھرنوں کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ ہمارے حکمران طبقے کو دنیا کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اسے طاقت اور وسائل میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شریک کرنا ہو گا۔ دنیا نے انقلاب کا راستہ اسی طرح سے روکا ہے۔ اگر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ وہ اس نظام کی برکات میں شریک ہیں تو پھر کسی عمران خان کو دھرنے کے لیے افراد نہیں ملیں گے۔ اس وقت حکمران طبقے کو حیرت ہے کہ آسودہ حال لوگ دھرنے کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ انہیں جان لینا چاہیے کہ انہیں اقتدار میں حصہ چاہیے!