ہر کوئی نظام کی تعریف کر رہاتھا۔محبت اورعقیدت کے پھول نچھاور ہو رہے تھے۔میں حیرت زدہ سوچ رہا تھاکہ گجرات میں یہ جزیرہ کیسے نمو دار ہو گیا؟ پاکستان کے ہر کونے میں نظام معتوب ہے اور یہاں محمود۔ایک طرف وہاں ''گو نظام گو‘‘ کے نعروں میں معقولیت کی آواز سنائی نہیں دے رہی اور دوسری طرف یہاں ''واہ نظام واہ‘‘ کے گیت کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا؟ صحرا کی وسعتوں میں یہ گلستان کیسے کھل اٹھا؟
آنکھوں کی گواہی،لیکن جھٹلا ئی نہیں جا تی۔یونیورسٹی آف گجرات میں یہ نظام ایک فرد 'نظام الدین‘ کی صورت میں متشکل ہو گیا تھا۔ڈاکٹر نظام الدین آٹھ سال تک وائس چانسلر رہنے کے بعد اس منصب سے سبک دوش ہو رہے تھے۔صرف یونیورسٹی ہی نہیں‘ شہر اور ملک بھر سے نمائندہ شخصیات انہیں خراج ِتحسین پیش کر رہی تھیں۔سب کا اجماع تھا کہ فردِ واحد نے نظام کے خد وخال بدل دیے۔ نتیجتاً ادارے کی شکل و صورت تبدیل ہو گئی۔آٹھ سال پہلے جب ڈاکٹر صاحب یہاں آئے تو یونیورسٹی طالب علموں کی راہ تک رہی تھی۔ آج وہ رخصت ہوئے تو اٹھارہ ہزار طلباو طالبات یہاں زیرِ تعلیم ہیں۔اس پسماندہ اور روایت پسند سماج میں قوم کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم سے مزین ہورہی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ مرد ہو یاعورت،ان کی زینت علم ہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب سے میں چند ماہ پہلے متعارف ہوا جب یونیورسٹی کے ایک سیمینارمیں جانا ہوا۔ان کی دل آویز شخصیت بہت بھلی لگی۔ پھر میں یہاں کے تعلیمی ماحول سے قدرے مانوس ہوا تو ڈاکٹر صاحب سے انس بڑھنے لگا۔ میرے دل سے آواز اٹھی: ''ہاں! یونیورسٹی ہو تو ایسی‘‘۔دنیا بھر میں جامعات علم و فکر کے مراکز ہوتے ہیں۔اس وقت امریکہ میں جو لوگ سماج کی فکری ساخت اور ریاستی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں ،ان کا تعلق یونیورسٹیز سے ہے۔ نوم چومسکی،فوکویا ما،ولی رضا نصر، ہٹنگٹن اور اس سے پہلے ایڈورڈ سعید، برنارڈ لویس، جس رجحان ساز شخص کا نام لیں، وہ کسی نہ کسی یونیورسٹی سے وابستہ ہے۔وہ اگر کوئی دوسری ذمہ داری اٹھاتا بھی ہے توکچھ عرصہ بعد پھر یونیورسٹی لوٹ آتا ہے۔جیسے کنڈولیزا رائس۔یہ لوگ اپنے افکارنئی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ نئی نسل کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ خیالات کے اس تنوع سے فائدہ اٹھاتی ہے اور یوں اس میں ایک تنقیدی ذہن پیدا ہو تا ہے۔ یہی ذہن نئے افکار کو جنم دیتا ہے اور اس طرح سماج فکری اور ذہنی اعتبار سے ارتقا کی منازل طے کر تا جا تا ہے۔ وہ روایت سے وابستہ رہتا ہے لیکن اس سے مہمیز کا کام لیتا ہے، اسے پاؤں کی زنجیر نہیں بناتا۔یونیورسٹی کاکام کسی خاص فکر کی آ بیاری نہیں، وہ ماحول فراہم کر نا ہے‘ جہاں فکر و نظر کی روایت آگے بڑھے اور نئی نسل کو اس کے رجحانِ طبع کے مطابق پرورش پانے کا موقع ملے۔
ڈاکٹر نظام الدین نے آٹھ سال پہلے جب اس یونیورسٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو اس یونیورسٹی کی تعمیر کا ایک خاکہ ان کے ذہن میں تھا۔ وہ کئی سال اقوامِ متحدہ سے وابستہ رہ چکے تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی جیسے اداروں میں پڑھا تے رہے ہیں۔انہوں نے اپنا سارا تجربہ اور علم ومہارت اس یونیورسٹی پر صرف کر دی۔ان کی شخصی دل آ ویزی اور امریکی تربیت ان کے معاون بنے اور یوں انہوں نے ساری دنیا کو اپنا معاون بنا لیا۔ ان کا انتخاب میرٹ پر ہوا جب چوہدری پر ویز الٰہی صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ شہباز شریف صاحب نے بھی ہمیشہ تعاون کیا ۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ انہیں پنجاب کی بیورو کریسی سے بھی کوئی شکایت نہیں رہی۔وہ ان کے کسی کام میں رکاوٹ نہیں بنی۔امریکی تربیت کے زیرِ اثر ان کی اہلیہ نے بھی رضاکارانہ طور پر ان کا ہاتھ بٹا یا۔انہوں نے یونیورسٹی کی تزئین کے ساتھ ساتھ ماحول کو بہتر بنا نے میں بھی اہم کر دار ادا کیا۔یوں ڈاکٹر صاحب نے نوکری نہیں کی، اس یونیورسٹی کو ذاتی پروجیکٹ بنا دیا۔ اللہ نے ان کی محبت اور اخلاص کو یوں قبول کیا کہ آج ڈاکٹر صاحب کو قبولیتِ عامہ حاصل ہو گئی۔ یونیورسٹی ظاہرا ور باطن میں ایک مثال ہے۔
9 اکتوبرکی شام ،ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک شاندار تقریب ہوئی۔یونیورسٹی کے علاوہ شہر کے معززین اور ملک کے نامور اہلِ علم شریک ہوئے۔علاقے کی سیاسی قیادت نے ان کو غیر معمولی خراجِ تحسین پیش کیا۔قمر زمان کائرہ صاحب نے کہا کہ یہ علاقہ ہمیشہ ان کے احسان کے زیرِ بار رہے گا۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی چوہدری جعفر اقبال نے ذاتی تجربات بتائے کہ کس طرح ڈاکٹر صاحب ادارے کی بہتری کے لیے کام کرتے رہے۔ جماعت اسلامی کے ضلعی امیر اور مقامی راہنما بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ ڈاکٹر طارق صاحب نے ان کی محاسن کا تذکرہ کیا۔جام شورو کے ڈاکٹر قاسم صاحب بھی موجود تھے۔منو بھائی بھی تشریف لائے۔علالت کے باوجود بڑی دیر بیٹھے رہے۔سچ یہ ہے کہ میں نے زندگی میں کم ہی لوگوں کو اس وقار کے ساتھ رخصت ہوتے دیکھا ہے۔یہ تقریب رات کے ایک بجے تک جاری رہی۔ شیخ عبدالرشید صاحب کی موثر میزبانی نے لوگوں کو باندھے رکھا۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی نظام کو چلانے کے لیے ایک نظام الدین کی ضرورت ہو تی ہے۔عزم،ارادہ اور خوئے دل نوازی۔میرا خیال ہے کہ کسی کے پاس یہ زادِ راہ ہو تو اس کی منزل کبھی کھوٹی نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر نظام الدین کے تجربے سے تو یہی معلوم ہو تا ہے۔ہماری قوم کی نفسیاتی تشکیل کسی دوسرے زاویہ سے ہوئی ہے۔اہلِ سیاست، اہلِ مذہب اور میڈیا نے شکایت اور احتجاج کے کلچر کو فروغ دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ہر خرابی کی ذمہ داری دوسرے کے سر ڈالنے کی عادت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ہر وقت احتجاج، ہر وقت شکوہ۔ہم نظام کو گالیاں دیتے ہیں لیکن خود 'نظام الدین‘ بننے کے لیے تیار نہیں۔ امریکہ سے لے کر اپنی حکومت تک ،ہر کوئی ہمارا دشمن اور ہمارے حق کا غاصب ہے۔میں تقریب میں بیٹھا سوچتا رہا کہ امریکہ اور حکومت نے آ خر ڈاکٹر نظام الدین کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑا؟ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب کوہمارے بد خواہ کیوں روک نہیں سکے؟
اس ملک کے اہلِ سیاست نے میثاقِ جمہوریت کو اپنایا‘ جس نے جمہوری اداروں کو استحکام دیا۔ اب اس قوم کوایک میثاقِ تعلیم کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتیں طے کرلیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی قیادت سے لے کرنظامِ تعلیم کی تشکیل تک، ہر معاملے کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھا جائے گا۔اس سے کیا ہو گا؟اس کو کوئی بچشمِ سر دیکھنا چاہے تو یونیورسٹی آف گجرات کو دیکھ لے۔چوہدری پرویزالٰہی نے اس کارِ خیر کا آ غاز کیا۔شہباز شریف نے اس میں اپنا حصہ ڈالا، قمر زمان کائرہ اس کے سرپرستوں میں شامل ہو گئے۔ چوہدری پرویز الٰہی وہاں مو جود نہیں تھے لیکن ان کا ذکر تحسین کے ساتھ ہوا۔ن لیگ کے چوہدری جعفر اقبال نے خواہش کا اظہار کیا کہ اس موقع پر انہیں موجود ہو نا چاہیے تھا۔کائرہ صاحب نے تائید کی۔یہ جہاںان کی وسعتِ قلبی کا اظہار تھا وہاں،اس بات کا اعلان بھی کہ اچھا کام خود کو منواتا ہے اور لوگ آپ کی غیر موجودگی میں بھی آپ کو اچھے ناموں سے یاد کر تے ہیں۔ہمارے اہلِ سیاست اگر اس لذت سے آ شنا ہو جائیں تو سارا ملک یونیورسٹی آف گجرات بن جائے۔ ایسا نظام اور دوسروں کو گالی دینے سے نہیں، خود نظام الدین بننے سے ہو سکے گا۔اگر کوئی نظام الدین بنناچاہے تو نظام رکاوٹ نہیں بن سکتا۔گجرات کے قرب میں واقع یہ جزیرہ تو یہی پیغام دے رہا ہے ؎
یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے