12اکتوبر1999ء ہماری تاریخ کا عجیب اور پُراسرار دن ہے۔ایک آسیب کی طرح ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔پندرہ برس بیت جانے کے بعد، عوام کا منتخب وزیراعظم اس کے بارے میں سوچتا بھی ہے تو اس کے پائے تخت میں بھونچال آ جا تا ہے۔
جناب نوازشریف کے خلاف جو فردقراردادِ جرم،اپنوں اور غیروں نے مرتب کی، اس میں پہلا جریمہ یہ درج ہے کہ انہوں نے فوج کے خلاف محاذ آرائی کی‘ جو غیر ضروری تھی۔غیروں کا کہنا یہ ہے کہ اس کا محرک بلا شرکتِ غیرے اقتدار کا حصول ہے۔وہ اسے بادشاہ بننے کی خواہش سے تعبیر کرتے ہیں۔اپنوں کا انداز ناصحانہ ہے۔وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انہیں 'زمینی حقائق‘ کا ادراک کرنا اور اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔غالباً اس حوالے سے اُن کے سامنے آصف زرداری صاحب کاماڈل ہے۔پانچ سال اس طرح پورے کیے کہ ان گنت سکینڈلز میں گھرے رہنے کے باوجود، کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔یہ خیر خواہ چاہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب بھی پانچ سال پورے کریں۔ گویا کامیابی کا پیمانہ یہی ہے اور یہی جمہوریت کی کامیابی بھی ہے۔
گزشتہ انتخابات کے بعد، نوازشریف صاحب نے ایوان ِ اقتدار میںجوماہ و سال گزارے ہیں، میں نے ان کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔مجھے کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملا جس کی یہ تعبیر ممکن ہو کہ انہوں نے فوج سے محاذ آرائی کا راستہ اپنا یا ہے۔ دور کی ایک کوڑی یہ لائی جاتی ہے کہ خواجہ آصف صاحب یا سعد رفیق صاحب کے کچھ بیانا ت سے یہ جھلکتا ہے کہ وہ فوج کو آنکھیں
دکھارہے ہیںا ور اس کے لیے انہیں وزیر اعظم کی پشت پناہی حاصل تھی۔یا پھر ایک صحافی پر قاتلانہ حملہ اوراس کے تناظر میں ایک میڈیاگروپ کی غیر ضروری تائید۔ میںاسے فوج کے ساتھ محاذآرائی سے تعبیر نہیں کر سکتا۔ صحافی پرحملے سے پہلے ہی محاذ آرائی کا تاثر قائم ہو چکا تھا۔اسے ہم جلتی پر تیل کہہ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ کے مابین باہمی احترام کا ایک رشتہ ہمیشہ قائم رہا اور فوج کو بطور ادارہ کبھی وزیراعظم سے کوئی شکایت نہیں رہی۔حکومت نے کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا،جس سے یہ نتیجہ برآمد کیا جا سکے کہ اس سے فوج کے اداراتی مفاد کو کوئی نقصان پہنچا ہے۔پھر یہ کہ کسی معاملے میں اگر کوئی اختلاف تھا بھی تو اسے محاذ آرائی نہیں کہا سکتا۔اختلاف تو خوش گوار تعلقات میں بھی ہوتا ہے اور اسے فطری سمجھا جا تا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو سوال یہ ہے کہ فوج اور وزیراعظم کے مابین محاذآرائی کا یہ تاثر کیوں قائم ہوا؟اس کا جواب نوازشریف صاحب کے حامی اورمخالفین،دونوں کے پاس ایک ہی ہے:پرویز مشرف صاحب کے خلاف مقدمہ۔ وہی12اکتوبر۔ دونوں گروہوں کا خیال ہے کہ نوازشریف صاحب کو یہ جسارت نہیں کر نی چاہیے تھی۔ملک کو درپیش دیگرمسائل کیا کم ہیں کہ گڑھے مردے اکھاڑے جائیں۔بہت سے سیاسی مبصرین موجودہ ہیجان اور دھرنوں کو بھی اسی جسارت سے جوڑتے ہیں۔ کسی نے لکھا کہ انہوں نے2013ء ہی میں یہ خبر دے دی تھی کہ پرویز مشرف صاحب کو مقدمے سے بچانے کے لیے دھرنے دیے جائیں گے۔ان کے نزدیک ملک میں جاری یہ اضطراب دراصل اسی لیے ہے۔ نوازشریف اگر اس سے رجوع کرلیں تو امن کا پرچم لہرادیا جائے گا۔حکومت کاایک حلقہ بھی یہی رائے رکھتا ہے۔ احسن اقبال صاحب نے بہت دن پہلے کہہ دیا تھا کہ جس دن پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ ختم ہو گا ،سکون ہو جا ئے گا۔گویامحاذآرائی کا تاثر 12 اکتوبر کے مقدمے سے پھوٹا ہے۔اگر مقدمہ ختم ہو جا تا ہے تو پھر محاذ آرائی کی بات بھی دم توڑ دے گی۔
اس ساری بحث سے یہ تو واضح ہے کہ 12اکتوبر کا دن کس طرح ہماری قومی سیاست پر اثرا نداز ہو رہا ہے۔یہی نہیں، اس سے ہمارے سماج اور ریاست دونوں کے مفادات خطرات میں گھر گئے ہیں۔اگر دھرنے سے ابھرنے والی تحریک اور ہیجان کا تعلق بھی 12اکتوبر کے ساتھ ہے توپھر یہ ماننا پڑے گا کہ ایک فرد اتنا اہم بھی ہو سکتا ہے کہ اسے بچانے کے لیے ریاست اور سماج، دونوں کا مفاد خطرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔جنرل راحیل شریف کی بصیرت نے اگرچہ کسی بڑے بحران کا خطرہ ٹال دیا لیکن اتنا ضرور ہو اکہ حکومت کا وجود عملاً بے معنی ہو گیا۔ آج اگر کوئی اجنبی اسلام آباد کا رخ کرے تو اس کے لیے یہ یقین کر نا مشکل ہے کہ یہاں کوئی حکومت بھی پائی جاتی ہے۔یہ ایک مفتوحہ شہر کا منظر پیش کررہا ہے۔اس لیے فاتح کا تعین کیے بغیر کوئی اجنبی اس شہر کا رخ کرنے پر آمادہ نہیں، حتیٰ کہ چین جیسا دوست بھی۔ اس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف صاحب اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد بھی کس طرح اقتدار میں ہیں۔بھٹو صاحب کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ پس ِ مرگ بھی حکومت میں ہیں۔میرا خیال ہے کہ اس فہرست میں وہ تنہا نہیں۔اس میں اب پرویز مشرف صاحب کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔
اس پس منظرمیں12اکتوبر ہماری سیاست میں ایک علامت ہے۔اس سے پہلے یہ حیثیت 5جولائی کو حاصل تھی۔پیپلزپارٹی کو حکومت کرنے کے لیے اس دن کو بھلانا پڑا۔اگر بے نظیر بھٹواس دن کو اپنی یاداشت سے کھرچ نہ دیتیں تو کبھی وزیر اعظم نہ بن سکتیں۔آصف زرداری صاحب نے اس سبق کو یاد رکھا۔انہوں نے بے نظیربھٹو کا قتل بھی بھلا دیا۔بلاول کو بھی یہی کر نا پڑے گا۔انہوں نے جوانی کے جوش میں اپنی ماں کے قاتلوں میں پرویز مشرف صاحب کو بھی شامل کیا۔میرا خیال ہے کہ یہ کہتے وقت انہوں نے اپنے والدِ گرامی سے مشورہ نہیں کیا۔ میرا احساس ہے کہ وہ اس غلطی کو دہرائیں گے نہیں،اگر وہ وزیراعظم بننے میں سنجیدہ ہیں۔ پیپلزپارٹی نے 5 جولائی ہی کو نہیں، 4 اپریل کو بھی فراموش کردیایا اسے کرنا پڑا۔
تو کیا نوازشریف کو بھی12اکتوبر کواپنی یادداشت سے محو کر نا پڑے گا؟بعض لوگ کہتے ہیں ایسا ہو چکا۔ وہ اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ان دنوں میں ہمیں خوش گوار تعلقات کا جو تاثر ملتا ہے، وہ اسی رجوع کے باعث ہے۔نوازشریف صاحب کی نگاہ بھی اب مستقبل پر ہے۔میرا خیال ہے کہ انہوں نے اچھا کیا۔جس حکومت کا حال یہ ہو کہ دو اڑھائی ہزار افرادکو اسلام آباد کی سڑکوں سے اٹھانے کی سکت نہ رکھتی ہو، اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ شہہ تیروں کو اپنی گرفت میں لینے سے گریز کرے۔جو پہلوان گوجرانوالہ کے ایک صحت مند آ دمی سے چت ہو جائے،اس کے لیے خیر خواہانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ انوکی کو چیلنج نہ کرے۔12اکتوبر کا سبق یہی ہے۔نواز شریف صاحب اگراچھی حکومت سے ملک کی معیشت کو سنبھال سکیں تو یہ راستہ ان کے لیے کھلا ہے۔پھر وہ مستقبل کی سیاست کا حصہ ہیں۔ بصورتِ دیگر شاید پانچ سال بھی ایک ناقابلِ حصول ہدف بن جائے۔ ویسے زرداری صاحب کی طرح اگر پانچ سال مل بھی جائیں تو وہ کس کام کے؟ بہادر شاہ ظفر کی طرح تاج سر پر سجانے کا حاصل کیا ہے؟