دھرنوں کا کردارتو ختم ہوا۔ 12اکتوبر کی شب جب عمران خان نے ڈیڑھ دو درجن خواتین سے انقلاب آفریں خطاب کیا تو معلوم ہوا کہ اب رہا سہا وقار بھی ختم ہونے کو ہے۔
قادری صاحب رخصت پر گئے تو مریدین نے بھی رختِ سفر باندھا،خیمے اُٹھا ئے اور گھر چل دیے۔ عمران خان کی طرح شاید وہ بھی مان کر نہ دیں کہ اب خطیب العصر کو جو سامعین میسر ہیں، وہ جلسے کے خاتمے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ دریاں اُٹھائیں اور گھروں کو جائیں۔یہ طرفہ تماشا بھی پہلی بار ہوا کہ'' استعفیٰ میچ ‘‘ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ عمران خان نے ''بیداری میچ‘‘ کا آغاز کر دیا۔ایک میدان کی پچ چونکہ چوکوں چھکوں کے لیے سازگار نہیں رہی اس لیے وہ دوسرے گراؤنڈ میں قسمت آزما ہیں۔ یہ کوشش بظاہر کامیاب رہی۔ سوال لیکن یہ ہے کہ ایک وقت میں دو میچ کیسے کھیلے جا سکتے ہیں؟ عمران خان کے لیے شایدیہ زیادہ مشکل نہیں۔ اگر وہ ایک بال پر دو وکٹیں لے سکتے ہیں تو بیک وقت دو میدانوں میں کھیل کیوں نہیں سکتے؟ اسلام آ باد کی مقامی تنظیم دہائی دے رہی ہے کہ اب لوگ نہیں آتے، لیکن عمران خان کی انا کے سامنے سب بے بس ہیں۔ پھر ایک شتر گربگی اور بھی ہے۔اسلام آباد میں وہ کہتے ہیں کہ نوازشریف استعفیٰ دیں۔جلسوں میں کہتے ہیں کہ ابھی ٹھہر جائیں، قوم کو مکمل بیداری کے لیے کچھ وقت چاہیے۔اس محاذ پر تویہ تماشا جاری ہے،دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی بچی کھچی توانائی جمع کر کے کوئی جامع حکمتِ عملی تشکیل دے سکتی ہے یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہتی ہے؟
آج کی حکومت ، محض حکومت نہیں ایک سیاسی قوت بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ن لیگ جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اپنی اس قوت کو بالکل نظرانداز کر دیتی ہے؛ تاہم یہ قوت موجود ہے اور وہ چاہے تو اسے منظم کر سکتی ہے۔ یوںحکومت کا ردِ عمل محض انتظامی نہیں سیاسی بھی ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ حکومت کی نا اہلی ہے کہ وہ ردِ عمل میں کوئی حکمتِ عملی ترتیب دے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ملکی سیاست کی باگ حکومت کے ہاتھ میں ہواور اس کی پالیسی ،سیاست اور صحافت میں زیرِ بحث ہو۔ پاکستان میں سیاسی حکومتیںکبھی اتنی مضبوط اور عقل مند ثابت نہیں ہوئیں کہ آگے بڑھ کر مینا تھام لیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہم نے دیکھا کہ میڈیا نے بحث کا ایک ایجنڈا طے کیا اور حکومت نے پانچ سال اس کا جواب دیتے گزار دیے۔ اب بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ قادری صاحب، خان صاحب اور میڈیا صاحب نے مل کر ایک ایجنڈا ترتیب دیا اور حکومت جوابی بیان بازی سے اپنے ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔خود شکستگی کی یہ حکمتِ عملی کبھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب حکومت کو زندہ رہنا ہے تو اسے آگے بڑھ کر اقدام کرنا ہوگا۔ پرویز مشرف کے محاذ پر پسپائی کے بعد، وہ اگرسیاسی محاذ پر بھی اس کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر اس کا وجود اور عدم دونوں ایک جیسے ہیں۔
حکومت کو اس وقت ردِ عمل کی نفسیات سے نکلنا ہو گا۔مخالفین کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ حکومت کو لا حاصل بحثوں میںالجھائے رکھیں اور وہ کسی محاذ پر مثبت پیش رفت کا مظاہرہ نہ کرسکے۔اس سے عوام کے اضطراب میں اضافہ ہو گا اور حکومت کی مخالفت بڑھے گی۔یہی عمران خان اور قادری صاحب کی کامیابی ہے۔ حکومت کو فوری طور پراس جال سے نکلنا ہوگا۔اس کے لیے اسے چند کام کرنا ضروری ہیں۔
1۔عمران خان اور طاہرالقادری صاحب گزشتہ دو ماہ سے ایک ہی تقریر کر رہے ہیں۔حکومت اورشریف خاندان کے خلاف وہ جو کچھ کہہ سکتے تھے، وہ انہوں نے کہہ ڈالا۔اب محض لفظوں کی جگالی ہے۔ حکومت اور شریف خاندان کے وکلا حسب توفیق اس کا جواب دے چکے۔اس وقت اس گروہ کے پاس بھی اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔اس باب میں لوگوں نے جورائے بنانی ہے،اس کے لیے دونوں اطراف سے وافر دلائل مو جود ہیں۔حکومت اگر خود کو اس دفاعی بحث میں مزید الجھائے گی تواسے نقصا ن ہوگا۔اس لیے میرا خیال ہے کہ پرویز رشید صاحب فوری طور پرحکومت کی طرف سے یک طرفہ طور پر اس بحث سے نکلنے کا اعلان کریں۔وہ حکومتی میڈیا پالیسی جاری کریں کہ حکومت ملکی مسائل، حکومتی کارکردگی اورپالیسی سے متعلق بحث کا حصہ تو بنے گی لیکن الزام اور جوابی الزامات کی اس بحث میں وہ مزید فریق نہیں ہیں۔جسے کوئی شکایت ہے، وہ عدالت میں جائے، حکومت وہاں اس کا جواب دے گی۔
2۔ وزیر اعظم فوری طور پر قوم سے خطاب کریں اور 2018ء تک کے ترقیاتی و تعمیراتی ایجنڈے کا اعلان کریں۔وہ دو اور دو چار کی طرح بتائیں کہ 2015ء کے آخر تک وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، 2016ء کے لیے ان کے منصوبے کیا ہیں اور یوں تین سال کی حکمت عملی کے معاملے میںوہ قوم کو اعتماد میں لیں۔وہ یہ بھی بتائیں کہ گزشتہ انتخابات کے بعد انہوں نے کیاکیا اور دھرنا سیاست کس طرح ملک کی معیشت، سماج اور سیاست پر اثر انداز ہوئی۔ وزیر اعظم وزارتوں کی کارکردگی کو پرکھنے کے لیے ۱ی گورننس (e governance) کے تصور کو آگے بڑھائیں تا کہ عوام میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ وزرا ان کے سامنے جواب دہ ہیں۔ وزیر اعظم قوم سے خطاب کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں اور تین ماہ میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور قوم سے خطاب کریں اور اسے اعتماد میں لیں۔گریز اور خاموشی کوئی حکمت عملی نہیں ہوتی۔ زرداری صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
3۔ دھرنوں کا خاتمہ آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہے۔یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ عوام ان سے پوری طرح لاتعلق ہو چکے۔ حکومت اگر انتظامی قوت سے دھرنوں کو ختم نہیں کرنا چاہتی تو اس کے لیے دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے۔وہ اپنا مقدمہ پیش کرے کہ اس سے ملک کی ساکھ، معیشت اور روزمرہ زندگی پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں اور کیوں اسلام آباد میںدھرنوں کا اس طرح جاری رہنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اپوزیشن جماعتیں جہاں جلسہ کرنا چاہیں، قانون کے مطابق ان کے حق کوتسلیم کیا جائے اور معاملات کو مقامی انتظامیہ کی سطح پرطے کیا جا ئے۔اس طرح کی سرگرمیوں کو معمول کا واقعہ سمجھا جائے اور ہیجان میں مبتلا ہونے سے گریز کیا جائے۔
4۔ پارلیمنٹ کو فعال بنا یا جائے اور حکومت کابینہ کے بجائے پارلیمان پر زیادہ بھروسہ کرے۔اس کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا جائے۔عوام تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ یہ تعاون عوام کے لیے اور بھلائی کے باب میں ہے نہ کہ برسرِ اقتدار گروہ کے دفاع میں۔ کشمیر، پاک امریکہ تعلقات، افغانستان، سماج، معیشت، تمام معاملات پر پارلیمنٹ میں کھل کر گفتگو ہو تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان معاملات میں عوام کے نمائندے کیا کہہ رہے ہیں۔پھران امور میں حکومت جو حکمتِ عملی اختیار کرے،اس میں ان آراء کاعکس ہو جو پارلیمان میں سامنے آئیں۔
5۔ وزیراعظم اپنی مشاورت کا دائرہ بڑھائیں۔انہیں یہ ضرور معلوم ہو نا چاہیے کہ کس معاملے میں انہیں کس سے مشورہ کرنا ہے۔ اگر انہوں نے قومی دانش کو ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں تک محدود سمجھا توپھروہ انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
حکومت اقدام اور پیش رفت کا نام ہے۔یہ ندرتِ خیال اور حرکت کانام ہے۔یہ قیادت کا نام ہے۔لیڈر ردِ عمل کی نفسیات میں نہیں جیتا۔وہ مقلد نہیں، امام ہو تا ہے۔حکومت کو اگر سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے تو اس کی یہی صورت ہے۔ اگر پانچ سال پورے کرنے ہیں تو پھر آصف درداری صاحب کا ماڈل ان کے سامنے ہے اور انجام بھی۔