جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر... کون سا تقابل اور کیسا موازنہ، عوام کا فیصلہ مگر ہمارے سامنے ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کو ابھی بہت سے ارتقائی مراحل طے کر نے ہیں۔ تو کیا اس ملک کی سرزمین ابھی جمہوریت کے لیے سازگار نہیں؟
یہ عرب بہار سے بہت پہلے کا ذکر ہے۔ یہ سوال مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے بھی اٹھا تھا۔ الجزائر کے انتخابی نتائج اس بحث کا محرک بنے تھے۔ فوکویاما جیسا دانش ور یہ خیال کرتا تھا کہ یہ سرزمین ابھی جمہوریت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جمہوریت کی نتیجہ خیزی کے لیے عرب سماج کو پہلے شعور و آگہی کی کچھ منازل طے کرنا ہوں گی‘ اس کے بعد ایک عام آدمی کی بصیرت قابلِ بھروسہ ہو گی۔ 'عرب بہار‘ کے نتائج سامنے آئے تو بالخصوص مصر کے حوالے سے یہ بحث ایک بار پھر زندہ ہو گئی۔ پاکستان میں تو ہمیشہ جمہوریت کے خلاف ایک رائے موجود رہی ہے؛ تاہم یہاں استدلال بالکل دوسرا ہے۔ اسے لامذہب مغرب کے نو تراشیدہ خداؤں میں سے ایک کہا جاتا ہے اور یوں یہ خلافِ اسلام قرار پاتی ہے۔ میں اس سوال کو فوکویاما سے ہم آہنگ کرکے اٹھا رہا ہوں؛ کیا پاکستانی سماج میں بھی ضرورت ہے کہ پہلے کوئی تحریکِ اصلاح اٹھے‘ روشن خیالی کی بہار آئے اور پھر سیاسی قیادت کے انتخاب کا فیصلہ عوام کے سپرد کیا جائے؟ بصورتِ دیگر یہی ہو گا۔ لوگ جاوید ہاشمی پر عامر ڈوگر کو ترجیح دیں گے۔ 1970ء میں اس سے بڑھ کر یہ ہو چکا۔ صالحین کی پوری جماعت کو مسترد کر دیا گیا۔ سلیم احمد نے نوحہ لکھا: مشرق ہار گیا۔ تو کیا ایک بار پھر مشرق ہار گیا؟
ایک بات پوری طرح واضح ہے۔ یہ انتخابات سیاسی کلچر میں کسی جوہری تبدیلی کی تائید نہیں کر رہے۔ وہی قدیم گروہی سیاست جو سیاسی پروگرام اور امیدوار کی شخصیت سے بے نیاز ہوتی ہے۔ یہ تحریکِ انصاف کی کامیابی ضرور ہے لیکن کسی تبدیلی کا اظہار نہیں۔ تحریکِ انصاف نے یہ انتخاب روایتی سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے جیتا۔ ایک طرف بائیکاٹ کیا اور دوسری طرف وائس چیئرمین انتخابی مہم چلاتے رہے اور رات کامیابی کا سہرا باندھے شہر میںگھومتے رہے۔ ساتھ ہی ایک ایسے امیدوار کا انتخاب کیا‘ جو چند دن پہلے تک پیپلز پارٹی میں تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی کا دستِ راست اور ان کی شہرت میں پوری طرح شریک۔ اس طرح یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی صورت میں ملکی سیاست میں ایک نئی سیاسی قوت مستحکم ہوئی ہے لیکن یہ کسی طرح کسی نئے سیاسی پروگرام، کسی نئی قیادت، کسی نئے سیاسی طرزِ عمل یا کسی تبدیلی کا ظہور نہیں ہے۔ اگر ہم اسے مبالغہ کرتے ہوئے، اگلے عام انتخابات کا مقدمہ کہہ دیں تو بھی یہ کسی جوہری تبدیلی کا اعلان نہیں ہو گا۔
پنجاب کی سیاست بنیادی طور پر دھڑے کی سیاست ہے۔ ایک دھڑا جب ایک جماعت کا انتخاب کر لیتا ہے‘ تو دوسرے کو لازماً کسی دوسری جماعت کی تلاش ہوتی ہے۔ ماضی میں یہ کردار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ادا کرتی تھیں۔ اب پیپلز پارٹی کی جگہ تحریکِ انصاف نے لے لی ہے۔ یہ بات 2008ء کے انتخابات سے بھی واضح ہوئی اور اب اسے مزید تقویت ملی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر یوسف رضا گیلانی اور منظور وٹو صاحب پر بھروسہ کرے گی تو اس کا انجام نوشتہء دیوار ہے۔ معلوم ہوا کہ لوگ اپنی زود فراموشی کے باوجود ابھی پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت کو بھول نہیں سکے۔ اگر یہ جماعت مرکزی سطح پر نیا چہرہ متعارف کرا رہی ہے‘ تو اسے دوسری سطحوں پر بھی یہی کرنا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ن لیگ کا ووٹر بڑی حد تک اپنی جگہ کھڑا ہے۔ مقابلہ اب پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف میں ہے کہ دوسرا دھڑا کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب سے تو یہی بات مستحکم ہوئی کہ وہ تحریکِ انصاف کا چناؤ کر چکا ہے۔
میرا احساس یہ ہے کہ ملک کی سیاست ابھی روایتی انداز ہی میں آگے بڑھے گی۔ اس لیے اس سے فوری طور پر کوئی بڑی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ اس نتیجے سے تحریکِ انصاف پر شاہ محمود قریشی صاحب جیسے روایتی اہلِ سیاست کی گرفت مضبوط ہو گی۔ عمران خان بھی ان پر زیادہ بھروسہ کریں گے۔ انتخاب کی رات دھرنے میں غلام سرور خان ان کے دائیں کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے۔ آنے والے دنوں میں یہی گروہ بالا دست ہو گا اور اس بات کا امکان کم ہوتا جائے گا کہ تحریکِ انصاف کوئی مختلف کردار ادا کر پائے گی۔ تو کیا ہمیں فی الحال جمہوریت سے مایوس ہو جانا چاہیے؟ میرا خیال ہے یہ نتیجہ فکر درست نہیں ہو گا۔ اگر کوئی خیر اس وقت کہیں میسر ہے تو وہ جمہوریت ہی میں ہے۔ اس نے امکانات کی جس دنیا کے دروازے کھول دیے ہیں، وہ بھی کم اہم نہیں۔ اگر ان کو سامنے رکھیں تو جمہوریت ہی اصلاح اور تبدیلی کا واحد راستہ دکھائی دے گا۔ میں چند باتوں کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ ان انتخابات نے اس تصور کو مسترد کر دیا ہے کہ اس نظام میں ارتقا کی صلاحیت نہیں اور یہ بانجھ ہو چکا۔ اب احتجاجی سیاست کا جواز ختم ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ پارلیمان میں انتخابی نظام میں اصلاح کی جس مشترکہ کوشش کا آغاز ہوا، وہ ثمربار ہو سکتی ہے۔ تحریکِ انصاف سماج کو ہیجان اور اضطراب میں مبتلا کیے بغیر بھی اس کے لیے کردار ادا کر سکتی ہے؛ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ انتخابی نظام میں اصلاح سے اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی‘ جب تک سماج کا نظامِ اقدار تبدیل نہیں ہوتا۔ اس کی کوشش بہرصورت جاری رہنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی تبدیلی کے لیے جاری جمہوری عمل کو روک دیا جائے۔ اسی فلسفے کو 'پہلے احتساب پھر انتخاب‘ کے نعرے میں متشکل کیا گیا تھا۔ طاہرالقادری صاحب اور عمران خان اسی کے قائل تھے۔ اب زبان حال سے، دونوں اس سے رجوع کر چکے‘ لہٰذا اس پر اب اجماع ہو جانا چاہیے کہ تبدیلی جب بھی آئے گی، ووٹ کی قوت سے آئے گی۔
دوسری بات یہ کہ یہ انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کی طرف ایک قدم بن سکتے ہیں۔ عامر ڈوگربڑا سیاسی قد کاٹھ نہ رکھتے ہوئے بھی جیت گئے، جاوید ہاشمی ایک قدآور قومی سیاست دان ہو کر بھی ہار گئے۔ ظاہر ہے کہ اس میں کردار سیاسی جماعتوں کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔ اس سے جماعتیں جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے بدعنوان عناصر کی گرفت سے آزاد ہو سکتی ہیں؛ تاہم یہ اسی وقت نتیجہ خیز ہو گا جب انتخابی نظام کی طرح سیاسی جماعتوں کے داخلی کلچر کی تبدیلی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ اگر یہ جماعتیں بدستور خاندانوں یا افراد کے ہاتھوں یرغمال بنی رہتی ہیں‘ تو پھر کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
یہ ضرورت مزید نکھر کر سامنے آئی ہے کہ اس ملک میں شعور و آگہی کی ایک تحریک اٹھنی چاہیے۔ نتیجہ خیز سیاسی تبدیلی اس کے جلو ہی میں نمودار ہو سکتی ہے۔ جاوید ہاشمی نے ایک اہم موقع پر تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ عوام اور سیاسی جماعتیں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کر سکیں؛ تاہم اگر ہم ووٹ کی قوت کو فیصلہ کن مان لیں تو یہ بھی کم اہم تبدیلی نہیں ہو گی۔ یہ ضمنی انتخابات ہیجان کے باوصف، پُرامن رہے۔ یہ بھی نیک شگون ہے۔ اسی روایت اور کلچر کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تحریکِ انصاف کو بھی اب چاہیے کہ وہ اپنی توانائیاں دھرنوں اور استعفے کے مطالبے پر ضائع کرنے کے بجائے اپنی تنظیم اور سیاسی پروگرام کو بہتر بنانے پر صرف کرے۔ خیبر پختون خوا میں عوام کو ایک اچھی حکومت دے۔ اس کا کردار محض یہ نہ ہو کہ اس نے پیپلز پارٹی کے بجائے، لوگوں کو ایک نیا دھڑا دے دیا جہاں وہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ قوم کو جاوید ہاشمی کی جگہ عامر ڈوگر کی قیادت فراہم کرنا کوئی تبدیلی نہیں۔