معلوم ہو تا ہے ایک نیا سیاسی چیلنج عمران خان کا منتظر ہے۔اس کا نام بلاول بھٹو ہے۔
بلاول کی تقریر مواد اورانداز، دونوں حوالوں سے ایک بالغ نظر سیاست دان کی آواز تھی۔بڑھاپے میں قدم لٹکائے تمام سیاست دانوں کے لیے اس میں عبرت کا بڑا سامان ہے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں 'بھٹو ازم ‘ کو کسی نے اس استدلال اور صراحت کے ساتھ اپنے عہد سے ہم آہنگ کیا ہو۔سماج، سیاست،مذہب اور وفاق کے باب میں بھٹو صاحب کے فکر وفلسفے سے آج کیاراہنمائی ملتی ہے،اگر کوئی جاننا چاہے تو یہ تقریر کفایت کرتی ہے۔یہی نہیں بلاول کا انداز بھی فی الجملہ متین رہا۔ انہوں نے سیاسی مخالفین پر کھل کر تنقید کی لیکن کہیں سوقیانہ انداز اپنا یا نہ حفظِ مراتب کو نظر انداز کیا۔اس معاملے میں تو وہ بھٹو صاحب سے مختلف دکھائی دیے۔شاید انہوں نے اپنی کم سنی کا لحاظ رکھا اورا نہیں ایسا ہی کر نا چاہیے تھا۔معاصر سیاست دانوں میں،میرے علم میں نہیں کہ مو لانافضل الرحمن کے سوا کوئی اپنے موقف کا اظہار اس حسنِ بیان (Enunciation)کے ساتھ کرتا ہو۔
ہمارے ملک کی سیاست میں پیپلزپارٹی ایک بیانیے کا نام تھا۔اس کے پیشِ نظرایک لبرل جمہوری معاشرے کا قیام تھا جو سوشلسٹ معاشی بنیادیں رکھتا ہو۔اس بیانیے میں اسلام ایک فکری قوت اور عصبیت کی حیثیت سے توشامل تھا لیکن ایک ثقافتی اور قانونی قوت کے طور پر نہیں جسے شریعت کہتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ بھٹو صاحب اقوام ِ عالم میں مسلم شناخت کے علمبردار تھے اور یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک سیاسی وحدت کی اساس بنے۔تاہم انہیں اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی کہ سماج کا نظامِ اقدار اسلام کے اس تہذیبی و قانونی لبادے کو اختیار کر لے جو اسلام کے صدرِ اول میں متشکل ہوا۔'لبرل اسلام‘اسی تفہیمِ دین کا قائل ہے جس میںاسلام کے اصول تو ابدی ہیں لیکن شریعت نہیں۔ پاکستانی سماج نے بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی کے اس بیانیے کو جزواً قبول کیا۔یہی سبب ہے کہ عملاً وہ ایک ایسے سماج کی تشکیل میں کامیاب نہیں ہو سکے جو ان کے نظام ِ فکر کے مطابق 'لبرل ‘ ہو۔یہی نہیں بطور وزیراعظم ان کے اقدامات پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بنے۔بے نظیر صاحبہ اور زرداری صاحب بھی اس طرزِ عمل سے انحراف نہ کرسکے۔اس کا نقطہ ء عروج سلمان تاثیر کا قتل تھا جب معلوم ہوا کہ پیپلزپارٹی مصلحت کے آخری درجے پر فائز ہو چکی۔
پیپلزپارٹی کے اس انحراف کے بعد، یہ بیانیہ سماجی ونظری سطح پرتو مو جود رہا لیکن سیاسی اعتبار سے یتیم ہو گیا۔اس سوچ کے لوگوں نے فی الجملہ سیاست سے مایوس ہو کر ' سول سوسائٹی ‘کے سائبان تلے پناہ لے لی۔پیپلزپارٹی کا یہ انحراف اسی دائرے تک محدود نہیں رہا۔ وہ ملک کو ایسا معاشی نظام نہ دے سکی جو 'مساوات ہماری معیشت ہے‘ کی تعبیر ہو تا اور نہ ہی عوام کہیں طاقت کا سرچشمہ بن سکے۔وہ زرپرستوں کے ایک گروہ کی نمائندہ بن گئی جنہیں عملاً عوام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔سیاسی سطح پر اس انحراف کایہ نتیجہ نکلا کہ عام آ دمی کی امیدیں ٹوٹنے لگیں اوروہ متبادل کی تلاش میں نکل پڑا۔بہت سوں نے تحریک انصاف کی صورت میں اسے ڈھونڈ لیا۔وہ جماعت جو کبھی فکری اور سیاسی اعتبار سے 'سٹیٹس کو‘ کی باغی شمار ہو تی تھی، اب اس کی نمائندہ قرار پائی۔
بلاول کی تقریر اصل پیپلزپارٹی کی طرف مراجعت کا اعلان ہے۔سات سال میںپہلی بارپیپلزپارٹی کے کسی راہنمانے ان اقدار کی بات کی ہے،پیپلزپارٹی ابتداً جن کی علم بردار تھی۔یہ اس بیانیے کا احیا ہے جو اس جماعت کی اساس تھا۔وہ اس پر کس حد تک قائم رہتے ہیں، اس سوال کا تعلق مستقبل سے ہے لیکن اس وقت اہمیت اس بات کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے کسی راہنما نے اس کو زندہ کر نے کی جرأت کی۔ان کی یہ بات اصولاً درست ہے کہ پاکستان میں اس وقت دوہی بیانیے ہیں۔تاہم انہوں نے جس طرح اس کی تقسیم کی ہے وہ محل ِ نظر ہے۔وہ مشرف اور ضیاالحق کو ایک بیانیے کانمائندہ کہتے ہیں۔نظری اعتبار سے یہ درست نہیں۔مشرف تو 'لبرل‘ تھے لیکن ان کا معاملہ وہی تھا جو بھٹو اور بے نظیر صاحبہ کا تھا۔انہیں اقتدار میں رہنا تھا اور اس کے لیے انہوں نے ان قوتوں سے بھی مصالحت کی جن سے وہ نظری طور پر ہم آہنگ نہیں تھے۔پاکستان میں اس وقت دو بیانیے ہیں ۔ایک قدامت پسند اور دوسرا لبرل۔دونوں میں دوگروہ ہیں۔ ایک متشددانتہا پسند اور دوسرا اعتدال پسند۔انتہاپسند اقلیت میں ہیں،
تاہم وہ موثر بہت ہیں۔ ایک اس وجہ سے کہ اس گروہ کے پاس بندوق ہے۔ دوسرا اس وجہ سے کہ اس کی پشت پر ذرائعِ ابلاغ ہیں اوربین الاقوامی دنیا بھی۔اہلِ پاکستان کی اکثریت میانہ رو قدامت پسند ہے۔یہ تاریخی اعتبار سے مسلم لیگ اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں سے وابستہ رہی ہے۔ضیاالحق صاحب کی قیادت میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اسے ایک محاذ پر جمع کر نے کی کامیاب کوشش کی۔ابتدا میں یہ پاکستان قومی اتحاد یااسلامی جمہوری اتحاد کی صورت میں ان جماعتوں کا اتحاد تھا۔ بعد میں نوازشریف اور مسلم لیگ اس نقطہ نظر کے بلا شرکتِ غیرے نمائندہ قرار پائے۔اس نے جماعت اسلامی کوعوامی تائید سے محروم کردیا۔اس مایوسی نے جماعت کو انتہا پسندوں کے گروہ میں لا کھڑا کیا۔
پیپلزپارٹی، میرا تاثر ہے کہ لبرل ہونے کے باوصف انتہا پسند نہیں ہے۔یوں اس کی عوامی پذیرائی کا امکان مو جود ہے۔اگر وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک سیاسی بیانیہ مستحکم کر لیتی ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ وہ ایک اہم قومی ضرورت کو پورا کرے گی۔یہ واقعہ ہے کہ ملک کو درپیش مسائل میں اس وقت ن لیگ اور تحریکِ انصاف سمیت کسی کا کوئی واضح بیانیہ نہیں ہے۔اگر کسی کا کوئی واضح موقف ہے تو وہ انتہا پسند ہیں۔بلاول اس حوالے سے دوسری آواز ہے۔میرے نزدیک کسی موقف کے غلط یا صحیح ہونے سے اہم تر یہ ہے کہ آپ کا کوئی موقف توہو۔اس باب میں ن لیگ اور تحریکِ انصاف دونوں بدترین ابہام کا شکار ہیں۔بلاول اگر اس بیانیے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں تو پھر ان جماعتوں پر بھی دباؤبڑھے گا کہ وہ ان معاملات میں اپنا موقف واضح کریں۔
بلاول کا متحرک ہو نا ن لیگ سے زیادہ تحریکِ انصاف کے لیے چیلنج ہے۔تحریکِ انصاف میں شامل لوگوں کی اکثریت پیپلزپارٹی سے آئی ہے۔اگر بلاول اس طبقے کو واپس لے جانے میں کامیاب ہوتے ہیں توتحریکِ انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔دوسرااب لوگ قائدانہ صلاحیتوں کا بھی موازنہ کریں گے۔میں نے آج تک عمران خان کی کوئی ایسی تقریر نہیں سنی جس میںکوئی وژن یا نظم تلاش کیا جا سکے۔ ان کی تقاریر متفرق اقوالِ زریں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔دھرنے کے بعد تو ان کے خطبات کا معیار مزید پست ہو گیاہے۔بلاول بھٹو کی تقریر عمران خان سمیت سب اہلِ سیاست کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اب لوگ اس پہلو سے بھی موازنہ کریں گے۔عمران خان کی قوت ان کا شخصی کرشمہ ہے۔ان کی شہرت ایک دیانت دار آ دمی کی ہے۔ان کی باتوں سے اخلاص ٹپکتا ہے۔ یہ قابلِ قدر خوبیاں ہیں جنہیں سیاسی قیادت میں لازماً تلاش کر نا چاہیے۔تاہم میرا خیال ہے کہ دھرنا سیاست نے ان کی سیاسی دیانت کو بری طرح مجروح کیاہے۔زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت کی ساکھ اور شہرت فی الجملہ ہمارے سامنے ہے۔معلوم نہیں بلاول اس تاثر کو کس حد تک ختم کر پائیں گے۔بہر حال انہوں نے عمران خان کے لیے اس وقت بطورِ خاص خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔شیر اپنی جگہ ہے۔ مقابلہ اب کھلاڑی اور شکاری میں ہے۔بظاہر دونوں شیر کی گھات میں ہیں لیکن پہلے یہ طے ہو نا ہے کہ شیر کا مقابلہ کون کرے گا؟