ایک انقلاب تو اپنے انجام کو پہنچا۔ یہ نوشتۂ دیوار تھا۔ افسوس کہ لوگوں کو دکھائی نہیںدیا۔ ان کو بھی نہیں جن پر ہم دانش کی تہمت دھرتے ہیں۔
قوم کو کئی ماہ ہیجان اور اضطراب میں مبتلا کرنے کے بعد ایک صاحب گھر سدھارے۔ جلسے وہ کرتے رہیںکہ اس قوم کو تفریح طبع کے لیے بھی کچھ چاہیے۔ عطا اﷲ شاہ بخاری جیسا بے بدل خطیب بھی اپنی سعیٔ رائگاں پر یہی تبصرہ کر سکا:'' تم تو کانوں کے عیاش ہو‘‘! اب کانوں کی عیاشی باقی ہے۔شاہ صاحب فرماتے تھے: ''تقریر میری سنتے ہو اور ساتھ مسلم لیگ کا دیتے ہو۔‘‘ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ تقریر کسی اور کی،ووٹ کسی اور کا۔ یہ الگ بات ہے کہ شاہ صاحب کی درویشی اور اخلاص کے باب میں تاریخ خود کو دہرا نہیں سکی۔ یہ اوصاف اب قصۂ پارینہ ہیں۔ آج نیا دور ہے اور اس کی اپنی پہچان۔نئے لوگ نئے اوصاف۔
ابتدا ہی سے، ایک تسلسل کے ساتھ میں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ انقلابوں کا دور گزر چکا۔ جمہوریت سب سے بڑھ کرسدِ انقلاب ہے۔ جمہوریت نے اظہار کے جو مواقع ارزاں کیے ہیں اور برا بھلا عوام کا اقتدار جب تک موجود ہے، کوئی انقلاب نہیں آ سکتا۔ انقلاب اس دور کی یادگار ہیں جب زبانوں پر تالا ہوتا تھا اور اقتدار کے ایوانوں میں بادشاہ ہوتے تھے۔ زرداری، نواز شریف پر آپ جتنی چاہیں تنقید کریں اور ممکن ہے کہ آپ اس میں حق بجانب بھی ہوں، بادشاہ مگر وہ نہیں ہیں۔ بادشاہت ان کی خواہش ہو سکتی ہے مگر یہ کبھی امر واقعہ نہیں بن سکتی۔ زرداری صاحب کیا بادشاہ تھے؟ صدر فضل الٰہی سے زیادہ بے بس کہ ریاست کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی ، اس کے بارے میں کوئی بنیادی فیصلہ کرنے کے مجاز نہ تھے۔یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے گھر بھجوا دیا۔کیا زرداری صاحب روک سکے ؟نواز شریف؟ شہباز شریف؟ دونوں پر قتل کے مقدمات درج ہو گئے اور وہ کسی کا ہاتھ نہ پکڑسکے۔ عوامی تائید کے وہ محتاج ہیں اور اس سے محرومی انہیں اقتدار کے ایوانوں سے باہر کر دے گی۔اُن پر سب سے زیادہ تنقید،سیاست میں شریف خاندان کا غیر ضروری رسوخ ہے۔وہ اس کی قیمت ادا کررہے ہیں اور آئندہ انتخابات میں مزید کریں گے،اگروہ اپنی روش تبدیل نہیں کریں گے۔ یہ کہانی نہیں، موجودہ پاکستان کے حقائق ہیں۔ اس ماحول میںکون سا انقلاب اور کیسا انقلاب؟ جب حکومتوں کی تبدیلی کے لیے آئینی راستہ موجود ہو، اس وقت انقلاب ممکن ہوتا ہے نہ اس کا جواز ہوتا ہے۔ میں عرض کر چکا کہ جاوید ہاشمی کی جگہ عامر ڈوگر کا آنا انقلاب نہیں۔آپ اسے زیادہ سے زیادہ انتقام کہہ سکتے ہیں۔ انتقام ایک منفی جذبہ ہے جس کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
طاہر القادری صاحب نے اس قوم کو ہیجان اور اضطراب میں مبتلا رکھا۔ سماج کی اقدار سے لے کر ریاست کی ساکھ تک، سب پر بے بنیاد منفی اثرات مرتب کیے۔ کھوکھلے دعوے، ناقابل حصول وعدے، جھوٹ، تہمت، فساد... ہر اُس بات کا چلن ہوا جس سے سماج برباد ہوتے ہیں اور ریاست بھی۔ یہی نہیں ماڈل ٹاؤن کے بے گناہ لوگوں کے خون کا بھی تو حساب ہونا چاہیے۔ خدا انہیں زبان عطا کرے۔تو وہ پکار اُٹھیں: ہمیں کس وجہ سے گھروں سے نکالا اور پھر مار ڈالا گیا؟گولیاں چلانے والے تو بلا شبہ مجرم ہیں لیکن وہ بھی کم نہیں جنہوں نے انہیں سبز باغ دکھائے اور ایک کوشش رائگاں کا ایندھن بنا دیا۔
قادری صاحب نے عوام اور حکومت کو کٹہرے میں کھڑ ے کیے رکھا۔ اب وقت ہے کہ وہ حکومت کی جگہ کھڑے ہوں اور قوم کے سوالوں کا جواب دیں۔مرید تو مجبور ہیں، میڈیا اور عوام کو تو سوال اٹھانے چاہئیں:
1۔آپ نے عوام کو تبدیلی کے سبز باغ کیوں دکھائے اور جان بوجھ کر ان کے جذبات کا استحصال کیوں کیا؟
2۔آپ مسلسل غلط بیانی کرتے رہے۔ اپنے بارے میں، حکومت کے بارے میں اور تبدیلی کے بارے میں۔ اس کے بعد آپ کی اخلاقی ساکھ کیا ہے؟
3۔ اگر یہ حکمتِ عملی آپ کی بصیرت کا نتیجہ ہے تو بے بصیرتی کے اس مظہر کے بعد،کیا آپ کسی جماعت یا تحریک کے قائدبن سکتے ہیں؟
4۔ اگر ایسا نہیں تھا تو کیا آپ نے کسی کے اشارے پر کیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر پسِ پردہ کون تھا؟
5۔ آپ نے ملک و قوم کا جو وقت برباد کیا، اس کا حساب کون دے گا؟
مجھے حیرت ہوتی ہے جب پڑھے لکھے لوگ بھی کہتے ہیں: ''قادری صاحب ، عمران کہتے تو ٹھیک ہیں؟‘‘ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں غلط کون کہتا ہے؟ کیا نواز شریف صاحب غلط کہتے ہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمان صاحب زبانِ قال سے کرپشن کی حمایت کرتے ہیں؟ اس سے بڑھ کر میں سوال اٹھاتا ہوں : کیا طالبان غلط کہتے ہیں؟ آخر ہم سب کی مذمت کس بنیاد پر کرتے ہیں؟کسی کی بصیرت، کسی کی دیانت، کسی کا ماضی اور کسی کی حکمتِ عملی ان کی تائید کے راستے میں حائل ہو جاتے ہیں۔ اس اصول پر یہ واضح تھا کہ قادری صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس کو امرِ واقعہ بنانے کے لیے محض الفاظ اور قدرتِ کلام کافی نہیں ۔ کچھ اس کے سوا بھی چاہیے۔ وہ کہیں نہیں تھا۔ وصالِ یار فقط آرزو اور اظہارِ بیان کی بات ہوتی تو پھر انسانی زندگی میں ہجر کا موسم کہاں ہوتا؟
یہ اضطراب اور ہیجان برپا کرنے والوں میں اس ملک کا میڈیا ا ور لکھاری بھی پیش پیش رہے۔ خواب فروشی وبا کی طرح پھیل گئی۔ ایک واقعہ کو عمومی رنگ دے کر لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا۔ افسوس کہ اس کاروبار میں وہ بھی شریک ہو گئے جن سے توقع تھی کہ وہ اپنے علم و بصیرت کو قوم کی بیداری کے لیے استعمال کریں گے۔ اب ہم نے بچشم سر دیکھ لیا کہ ہیجان اور بیداری میں فرق ہوتا ہے۔ ہیجان ایک منفی جذبہ ہے۔ بیداری ایک قابل تحسین عمل ہے۔ یہ بے معنی جملہ ہے کہ '' دو مہینوں میں قوم بیدار ہو گئی ہے۔‘‘ بیداری اگر اس احساس کا نام ہے کہ ہمارا سماج اور نظام ریاست اصلاح کے متقاضی ہیں تو یہ سوچ پہلے سے موجود تھی اور غالب بھی۔ لوگ قومی قیادت سے سیاسی ہو یا مذہبی، بد دل تھے۔ '' پاکستان کو ایک خمینی کی ضرورت ہے‘‘ ،ایک چلتا ہوا جملہ ہے جسے قبولیت عام حاصل رہی۔ ان دو ماہ میں ہم نے جو کچھ دیکھا، وہ بیداری نہیں، ہیجان ہے۔
طاہرالقادری صاحب لوٹ گئے۔شایدوہ اب بازارِ سیاست میں واپس نہ آ سکیں۔ عمران خان کب لوٹیں گے؟ اب بحث اس پر ہونی چاہیے۔ وہ اگر لوٹتے ہیں تو ان کے پاس واپسی کا راستہ موجود ہے۔ تحریک انصاف ایک انتخابی قوت بن چکی۔ اگر نظامِ انتخابات میں مزید اصلاح ہوتی ہے، جس کے لیے سب آمادہ ہیں تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ تحریک انصاف کو انتخابی نتائج کے بارے میں کوئی اشکال نہ رہے۔ وہ خیبر پختون خوا میں بہتری لا کر اپنے گراف کو بہتر کر سکتے ہیں۔ افسوس کہ ''پلڈاٹ‘‘ کی تازہ ترین رپورٹ اس بات کی تصدیق نہیں کر تی کہ تحریک انصاف کے پی میں کوئی خیر لا سکی۔ عمران خان کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ اس تاثر کو بدل دیں؛ تاہم اگر وہ لوٹتے ہیں تو وہ ان کے سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار رہیں جن کا آج قادری صاحب کو سامنا ہے۔