وقت ریت کے ذروں کی طرح ہاتھوں سے پھسل رہاہے۔ وزیراعظم آخر قوم سے براہ راست مخاطب کیوں نہیں ہوتے؟ عوام سے حجاب کیوں؟ منتخب وزیراعظم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی کارکردگی سے آگاہ رکھے۔دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ امریکہ کا صدر بھی باقاعدگی کے ساتھ عوام سے خطاب کرتا ہے۔ہمارے وزیراعظم کیا اُن سے زیادہ مصروف ہیں؟کیا یہ لازم ہے کہ آندھی ہو یا طوفان،انہوں نے ہفتے کے کم ازکم دودن لازماً رائے ونڈ گزارنے ہیں؟مسائل میں گھری اس قوم کا وزیراعظم کیااس عیاشی کا متحمل ہو سکتا ہے؟
وزیر اعظم کو اس وقت دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک تو وہ چارج شیٹ ہے جومخالفین نے ان کے خلاف مرتب کی ہے۔ الزامات کی ایک طویل فہرست ہے جو صبح شام دھرائی جاتی ہے۔ دو الزامات سنگین تر ہیں۔ ایک یہ کہ ان کااپنا سرمایہ بیرونِ ملک ہے اور وہ دوسروں کو اندرونِ ملک سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ کھلا تضاد ہے۔دوسرا یہ کہ عملاً یہ ایک خاندان کی حکومت ہے۔ شہباز شریف صاحب کا دائرہ اختیار مرکز تک پھیلا ہوا ہے اور صوبے پر ان کے صاحبزادے کی حکومت ہے۔ یہ دونوں الزامات ممکن ہے قانوناً کوئی اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ ملک کے کسی شہری پر آئین یہ پابندی عائد نہیں کر تا کہ وہ ملک سے باہر سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ اسی طرح شہباز شریف صاحب کی مرکز میں مداخلت بھی کسی عدالت میں ثابت نہیں ہوگی۔ تاہم جمہوریت میں حکمرانی کے لیے صرف قانونی جواز ہی کافی نہیں ہوتا۔ اس سے اہم تر اخلاقی جواز ہے۔ کسی اقدام کا اخلاقی جواز اگر موجود نہیں یا کمزور ہے تو پھر قانون کی نظر میں مجرم نہ ہونے کے باوجود ، لوگ عوامی نگاہوں میں مجرم بن جاتے ہیں۔زرداری صاحب کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ان کے خلاف کوئی الزام عدالت میں ثابت نہیں ہوالیکن اس کے باوجودعوامی عدالت نے انہیں بے گناہ نہیں مانا۔
سوال یہ ہے کہ ان الزامات کے حوالے سے وزیرِاعظم اور ان کے خاندان کا مؤقف کیا ہے؟ یہ مؤقف متفرق اقوالِ زریں کی صورت میںیا مناظرانہ اسلوب میں بیان کیاجاتا ہے اور یہ کافی نہیں۔ مثال کے طور پر پرویز رشید صاحب نے فرمایا کہ اگر نواز شریف کا بیرونِ ملک سرمایہ ہے تو وہ عمران خان لے لیں اور بدلے میں بنی گالہ کا گھر دے دیں۔ کسی مناظرے میں ممکن ہے یہ دلیل قابلِ قبول ہو مگر اس کی سنجیدہ حیثیت محلِ نظر ہے۔اسی طرح خاندانی حکومت کابھی کوئی جواز یا جواب سامنے نہیں آسکا۔
میرے نزدیک اس باب میں حکومت کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنا مقدمہ مبسوط اور مرتب صورت میں میڈیا اور عوام کے سامنے رکھے۔ وزیرِ اعظم قوم سے خطاب میں اسے موضوع بنائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان الزامات کو عدالت میں چیلنج کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر پرویز رشید صاحب کی بات درست ہے کہ وزیرِ اعظم کا بیرونِ ملک کوئی سرمایہ موجود نہیں تو اس الزام کو عدالت میں چیلنج کرنے میں کیا عذر مانع ہے؟ ایک نیا الزام شیریں مزاری صاحبہ نے بھی لگایا ہے جس کا تعلق حسین نواز کاایک بھارتی تجارتی ادارے کے ساتھ لین دین سے ہے۔ حکومت ان لوگوں کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتی؟ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوتے، حکومت میڈیا اور عوام کے سامنے اپنا مؤقف وضاحت سے نہیں رکھتی اور عدالت سے رجوع بھی نہیں کرتی تو پھر عوام انہیں درست مانتے ہوئے، وزیراعظم کی قیادت سے اعلانِ برأت کرتے ہیںتووہ اس میں حق بجانب ہوں گے۔
دوسرا مسئلہ اسلوبِ حکومت کا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے سال بھر وزراء سے نہیں پوچھا کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ یہ صرفِ نظر افسوس ناک ہے۔ تین ماہ میں کم از کم ایک بار ہر وزیر کو بلا کر پوچھا جانا چاہیے تھا کہ عوام نے انہیں جو ذمہ داری سونپی ہے، انہوں نے اس کو نبھانے میں کس دیانت اور کس اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کابینہ وزیرِ اعظم کا حسنِ انتخاب ہے اور وہی ان کی کار کردگی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ابتدا یہاں سے کی تھی کہ وزارتیں صرف کارکردگی کی بنیاد پر برقرار رہیں گی۔ اس کا کوئی عملی ثبوت لوگوں کے سامنے نہیں آ سکاجو افسوس ناک ہے اور اس پروزیر اعظم کا طرزِ عمل مزید افسوس ناک ہے۔ جیسے بجلی بلوں کا مسئلہ ہے۔ کسی نے استعفیٰ دیا نہ کوئی کٹہرے میں کھڑا ہوا۔ اسی طرح مختلف محکموں کی کارکردگی ہے۔ ریلوے تقابلی اعتبارسے بہتر ہے۔ ورنہ اسے بھی شدید اصلاح کی ضرورت ہے۔سرکاری دفتروں کا کلچر بدلا ہے اورنہ اہل کاروں کا رویہ۔ سب جواب دہی کے احساس سے بے نیاز ہیں۔ عوام نے ووٹ مگر نواز شریف کو دیا ہے کسی بیوروکریٹ کو نہیں۔ اس لیے عوام سوال بھی ان ہی سے کریں گے اور انہیں ہی جواب دینا چاہیے۔
یہ ساری باتیں ممکن ہے محض تأثر ہوں۔ہو سکتا ہے کہ جھوٹی ہوں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں۔ مگر تأثر کو دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ وزیرِاعظم آخر عوام سے بات کیوں نہیں کرتے؟ اگر ان کے نامۂ اعمال میں کچھ لکھا ہے تو اسے عوام سے پوشیدہ رکھنے میں کیا راز ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ انہیں پارلیمنٹ تک لانے میں کتنے جتن کرنا پڑے۔ یہاں تک کہ دھرنے نے اسے ممکن بنایا کہ وہ پارلیمنٹ میں تشریف لائیں۔ نواز شریف عوامی راہنما ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اقتدار کے ایوانوں تک محدود ہو جانے والے لوگ عوام کی نظروں سے اتر جاتے ہیں۔ انہوں نے اچھا کیا جو سیلاب زدہ لوگوں تک پہنچے۔ سوال پھر وہی ہے؟ وزیرِ اعظم کی زیارت کے لیے پارلیمنٹ کو دھرنے اور عوام کو سیلاب کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اگر وہ ووٹ کے لیے لوگوں کے پاس جا سکتے ہیں تو اقتدار کے دنوں میں کیوں نہیں؟ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کے لوگ ممکن ہے ان کی صورت بھی بھول چکے ہوں۔ وہ تو انہیں ٹیلی ویژن وغیرہ پر ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے امریکی یا چینی صدر کو۔ گاہے گاہے اور حسرت کے ساتھ۔
ڈیڑھ سا ل میں وزیرِ اعظم صاحب محض ایک آدھ بار عوام سے مخاطب ہوئے اور وہ بھی خارجی دباؤ کے نتیجے میں، اپنے ارادے سے نہیں۔ وقت دھیرے دھیرے گزر رہا ہے، لیکن عوام کے ذہنوں پر تأثر چھوڑکر۔ جمہوریت میں جمود نہیں ہوتا۔ یہ خیال کرنا کہ لوگوں کی سوچ 2013ء میں آ کر رک گئی ہے، خود فریبی ہے۔ موجودہ حکومت کو ایک جارحانہ اپوزیشن کا سامنا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی جارحیت کی ضرورت ہے۔ اس کا دوسرا نام ''حسنِ کارکردگی‘‘ ہے۔ جمہوریت میں عوامی وابستگی ایک تغیر پذیر عمل ہے۔ اس کا ساتھ دینے کے لیے تحرک کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم اگر ان حالات میں بھی'' ویک اینڈ‘‘ سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں، تو پھرانہیں دوسروں سے گلہ نہیں ہونا چاہیے۔ حرکت بہت سوچی سمجھی نہ ہو ، تو بھی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔عمر ان خان اور شہباز شریف اس کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ عمران خان کو ان کی حرکت نے ایسی سیاسی حقیقت بنا دیاہے جسے نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔ شہباز شریف آج بھی تمام وزرائے اعلیٰ میں ممتاز شمار ہوتے ہیں۔ وزیرِاعظم کوبھی تنِ خاکی میں جان پیدا کرنا ہوگی۔ یہ حکومت کی اخلاقی اور انتظامی ساکھ کا سوال ہے اور بقا کا بھی۔