"KNC" (space) message & send to 7575

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا مقدمہ

یہ جماعت اسلامی نہیں، پاکستان سے بے کراں نفرت کا اظہار ہے۔ جماعت، مرحوم مشرقی پاکستان کی واحد قابل ذکر سیاسی قوت تھی، جس نے آخری لمحے تک پاکستان کو متحد رکھنا چاہا۔ حسینہ واجد کے نزدیک یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ اخلاق، قانون اور انصاف کا خون کرتے کرتے، وہ اس دیوانگی میں اس مقام تک آ پہنچی ہیںکہ اب انسانی لہو ہی سے ان کے انتقام کی پیاس بجھ سکتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ کا مقدمہ ایک تھا۔ دونوں کی کوشش تھی کہ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی کے ہاتھوں بنگالیوں کے حقوق پامال نہ ہوں۔ فرق صرف یہ تھا کہ عوامی لیگ ہر قیمت پر یہ مقدمہ جیتنا چاہتی تھی، حتیٰ کہ پاکستان کی قیمت پر بھی۔ جماعت یہ قیمت دینے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ عوامی لیگ اور بھارت نے گٹھ جوڑ کر لیا اور مکتی باہنی نے پاکستان سے محبت رکھنے والوں کے قتل عام کا منصوبہ بنا لیا۔ بھارت اور مکتی باہنی کے خلاف جماعت نے اپنا وزن پاک فوج کے پلڑے میں ڈال دیا۔ جب بھارت اور پاک فوج میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ایک محب وطن جماعت کا فیصلہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا تھا؛ تاہم اس معرکے میں فوج کی کچھ بے اعتدالیاں تاریخ کا حصہ ہیں اور جماعت اسلامی بھی ان سے انکار نہیں کرتی۔
پروفیسر غلام اعظم بنگالی تھے۔ یہ تشخص انہیں عزیز تھا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری اُن کو پسند تھی اور ان کے بہت سے شعر ازبر۔ وہ ان کے ڈراموں میں چھپی حکمت کی باتیں دوسروں کو سناتے تھے۔ یہی محبت تھی کہ جب مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا تو انہوں نے اس کی شہریت کے لیے مقدمہ لڑا اور جیتا۔ 16 دسمبر 1971ء سے پہلے وہ پاکستانی تھے۔ پھر وہ بنگلہ دیشی ہو گئے۔ مسلمان وہ پہلے تھے اور بعد میں بھی رہے، یہاں تک کہ جاں جان آفریں کے سپرد کر دی۔ جب وہ پاکستانی تھے تو انہوں نے بنگالیوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ ان حقوق کے لیے ان کی جماعت حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ کی اتحادی رہی اور شیخ مجیب الرحمٰن کا بھی ساتھ دیا۔ لیاقت علی خان نے سہروردی کو غدار کہا تو مولانا مودودی سراپا احتجاج بن گئے۔
شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پیش کیے تو پروفیسر غلام اعظم نے بنگالیوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے آٹھ نکات پیش کیے۔ اس کے لیے کتابچہ لکھا اور شہر شہر تقریریں کیں۔ اقتدار کی باگ سنبھالنے کے بعد یحییٰ خان مشرقی پاکستان گئے تو جماعت اسلامی کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی۔ اس وفد میں پروفیسر غلام اعظم بھی تھے۔ جماعت نے اُن سے مطالبہ کیا کہ1956 ء کا آئین بحال کریں اور اس کے تحت انتخابات کا اہتمام کریں۔ وفد میں شریک خرم مراد صاحب نے کہا: ''آپ دستور کی بحالی کے ساتھ یہ اعلان بھی کریں کہ ہم چھ نکات کو بھی سمو دیں گے، آبادی کی بنیاد پر نمائندگی بھی دیں گے‘‘۔
اس میں شبہ نہیں کہ مغربی پاکستان میں موجود جماعت اسلامی کی قیادت کو حالات کا پوری طرح ادراک نہ ہو سکا، لیکن مشرقی پاکستان کی جماعت حقائق سے پوری طرح آگاہ تھی۔ خرم مراد اُن دنوں جماعت اسلامی ڈھاکہ کے امیر تھے۔ انہوں نے لکھا ہے: ''میں اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بنگالی ہم وطنوں کے حقوق دانستہ طور پر سلب کیے گئے اور ان کے سیاسی مقام و مرتبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا‘‘۔ (لمحات، صفحہ 378) 28 مارچ 1971ء کو میجر جنرل راؤ فرمان علی سے پروفیسر غلام اعظم اور خرم مراد کی ملاقات ہوئی۔ خرم مراد اس کی تفصیل بتاتے ہیں: ''میں نے پہلا سوال کیا: ''کیا آپ کے ہاتھوں اب تک مجیب الرحمٰن زندہ ہیں؟‘‘... کہنے لگے: ''ہم جب چاہیں اس کو ختم کر سکتے ہیں۔ یہ کام مقدمہ چلا کر بھی کر سکتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا: ''یہ آپ کی غلط فہمی ہے، اس لیے کہ جس شخص کو پاکستان کی اکثریتی آبادی نے اور مشرقی پاکستان نے تقریباً سو فی صد اکثریت سے اپنا مینڈیٹ دیا ہے، اپنے نمائندے کے طور پر منتخب کیا ہے۔ جب وہ زندہ آپ کے ہاتھ میں آ گیا ہے تو اب بین الاقوامی رائے عامہ اور ملک کی رائے عامہ کی موجودگی میں آپ اس کو کوئی سزا نہیں دے سکتے‘‘۔
خرم مراد نے پاکستانی جنرل سے مزید جو کچھ کہا، وہ ان کی انصاف پسندی کی دلیل ہے۔ ''میں نے دوسرا سوال کیا کہ ''آپ ہندوئوں کو کیوں مار رہے ہیں؟ اس قضیے میں ان کی بہت بڑی اکثریت بے گناہ لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مزدور ہیں، کارکن ہیں، دکان دار ہیں، وغیرہ وغیرہ؟‘‘ راؤ صاحب نے ذرا تلخ لہجے میں جواب دیا: ''یہ سب انہی کا لایا ہوا فساد ہے‘‘۔ میں نے کہا: ''جنرل صاحب نہیں! آپ کی رائے غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ میرے نزدیک فساد تو ہمارے وہ مقتدر مسلمان بھائی لائے ہیں، جنہوں نے حکومت چلانے میں، فیصلے کرنے میں اور معاملات طے کرنے میں زیادتی کی۔ اصل میں فساد کے ذمہ دار یہ لوگ ہیں۔ اس لیے عام ہندوؤں کے ساتھ آپ جو کر رہے ہیں، یہ اخلاقی طور پر نامناسب اور دینی لحاظ سے بھی غلط ہے۔‘‘ (صفحہ:500 )
جو شخصیت آج جنگی جرائم کے حوالے سے معتوب ہے، اس کا موقف سنیے کہ کیا تھا: ''پروفیسر غلام اعظم صاحب نے ملاقات میں جنرل فرمان علی کے سامنے اس مسئلے (یعنی تشدد) کو بڑی شدت سے اٹھایا اور کہا: ''جو لوگ بھی آگ لگا رہے ہیں، فوج سختی سے ان کا ہاتھ روکے۔ آخر یہ سزا عام شہری آ بادی کو کیوں دی جا رہی ہے؟ آپ ان لوگوں پر گرفت کریں تاکہ لوگ اپنے گھروں میں بے خوفی سے رہ سکیں اور ان میں اعتماد، بھروسہ اور سکون پیدا ہو۔ فرمان صاحب نے مسکرا کر کہا: ''جب امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جائے اور شرپسندی انتہا کو پہنچ جائے تو پھر فوج کا کام آگ بجھانا نہیں، بلکہ شرپسندی کو ختم کرنے کے لیے، آگ لگانا اور شرپسندی کو لڑ کر تباہ کرنا ہوتا ہے۔ آپریشن کے درمیان یہ کمی بیشی ہو جاتی ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے کہا: ''نہیں، آپ کے آپریشن میں تو تقریباً بے گناہ ہی مارے گئے ہیں۔ یہ زیادتی ہے، اس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہو گا‘‘۔
شیخ مجیب الرحمٰن کے خاندان کو فوجی آپریشن سے خطرہ لاحق ہوا تو جماعت اسلامی کے رہنما نے اپنے گھر میں پناہ دینے کی پیش کش کی۔ 1969ء میں شیخ مجیب رہا ہوئے تو خرم صاحب مبارک باد دینے ان کے گھر چلے گئے۔ یہی نہیں، بعد میں بھی1985 ء سے 1991ء تک جماعت اسلامی اور عوامی لیگ ایک سیاسی اتحاد کا حصہ رہے۔ عوامی لیگ برسرِ اقتدار آئی تو اس نے جماعت کو اقتدار میں شراکت کی پیش کش کی‘ جسے جماعت نے قبول نہیں کیا۔ اس سارے عرصے کے دوران میں جماعت اسلامی کے جنگی جرائم سامنے آئے نہ سیاسی۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب موجود نہیں کہ کسی تاریخی پس منظر کے بغیر، آج حسینہ واجد کی آنکھوں میں خون کیوں اتر آیا ہے؟ کیا اس کا تعلق بنگلہ دیش کی داخلی سیاست سے ہے؟ کیا اس کے محرکات بین الاقوامی ہیں؟ وجہ جو بھی ہے، حسینہ واجد کا یہ مقدمہ بہرحال ثابت نہیں کہ جماعت اسلامی بنگالیوں کی قاتل ہے۔ ان کے والد کو بھی پاکستانی فوج یا البدر نے نہیں، کسی اور نے قتل کیا تھا۔ پھر ان کی اس بے کراں نفرت کا سبب کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں