لاریب، اللہ کا دین اس وحشت اور ظلم سے بری ہے‘ جس کا مظاہرہ کوٹ رادھا کشن میں ہوا۔
پاکستان کسی جنگل کا نہیں، ایک منظم ریاست کا نام ہے۔ یہی نہیں، یہ ریاست اپنے اسلامی تشخص پر بھی اصرار کرتی ہے۔ گویا دوسری ریاستوں سے زیادہ مہذب۔ اس میں ایک قانون نافذ ہے۔ محض قانون نہیں، اسلامی قانون۔ قانون اور مذہب، دونوں کسی شہری کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ کسی بھی مقدمے میں، خود مدعی بنے، خود منصف بنے اور خود ہی قوتِ نافذہ ہو۔ رہی آگ میں جلانے کی سزا، تو ہمارے فقہا، یہ سزا دینے کا حق کسی عدالت کو بھی نہیں دیتے۔ یہ حق صرف اس عالم کے پروردگار کا ہے کہ وہ جسے چاہے نارِ جہنم کا سزاوار ٹھہرائے۔ بلاشبہ اللہ کے آ خری دین کو ماننے والا ایسے جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے‘ نہ ہی اپنے رب سے ڈرنے والا۔ اللہ کی کتاب اس کا حکم دیتی ہے‘ نہ اللہ کے آ خری رسولﷺ اس کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ تو رحمت للعالمینؐ ہیں، جن کی شان کریمی کا معاملہ ہے کہ اس دنیا کی وسعتیں، ان کے سامنے سمٹ جاتی ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کفار کے لیے بددعا کیجیے۔ ارشاد فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں آیا، میں تو سراپا رحمت ہوں۔ (ابن کثیر)۔
اس خونِ ناحق کی ذمہ داری پھر کس کے کندھوں پر ہے؟ میرے علم کی حد تک، کسی مذہبی شخصیت نے اس کی تائید نہیں کی۔ سب اس کی مذمت میں یک زبان ہیں۔ ایک ٹی وی شو میں مو لانا عبدالعزیز، خطیب لال مسجد، میرے ساتھ شریکِ گفتگو تھے۔ انہوں نے نہ صرف مذمت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ جن کے ہاتھوں اس جرم کا ارتکاب ہوا، ان کی سزا موت ہے۔ ثروت قادری صاحب نے واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ سب مذمت کر رہے ہیں۔ سوال لیکن پھر بھی باقی ہے کہ اس سانحے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا تعین تو ظاہر ہے کہ اس کی غیر جانب دارانہ تحقیقات ہی سے ممکن ہو سکے گا؛ تاہم اس نوعیت کے واقعات کو جمع کریں تو چند باتیں ایسی ہیں‘ جو ہمیں مشترکہ دکھائی دیتی ہیں۔ ان کو موضوع بنائے بغیر ہم ان کے تدارک میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
1: ایسے واقعات کی تحریک اکثر مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے ہوتی ہے۔ مقامی مولوی صاحب لوگوں کی مذہبی حمیت کو ابھارتے اور انہیں اشتعال دلاتے ہیں۔ کم و بیش ہر واقعے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
2: عوام کا ایک طبقہ بغیر کسی تحقیق کے، ملزموں پر پل پڑتا ہے۔ اس میں وحشت کی انتہا کر دی جاتی ہے۔ یہ رویہ صرف مذہبی معاملات میں نہیں ہوتا۔ سیالکوٹ کے واقعے کی یاد تازہ کر لیجیے‘ جب رمضان میں دو نوجوانوں کو چوری کی الزام میں مار ڈالا گیا تھا۔
3: ایسے واقعات کی تحقیقات ہمیشہ ناقص ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ تحقیقات ہو جائے، تو بھی ملزمان کو سزا نہیں ملتی۔ جوزف کالونی کے ذمہ داران کو کوئی سزا نہیں ملی۔
4: مذہبی طبقات نے اگر وقتی طور پر کسی ردعمل کا اظہار کیا بھی تو مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ نتیجتاً ایسے واقعات کو دہرایا جا رہا ہے۔
5: اکثر ایسے واقعات کا محرک شخصی دشمنی یا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ اس کے لیے مذہب اور مذہبی اداروں کا سوئِ استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ واقعات مفاد پرست طبقات کے مابین ایک اتحاد کا شاخسانہ ہوتے ہیں‘ جس کے شواہد سامنے ہوتے ہیں‘ لیکن انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
6: مذہب کے عمومی اور مقبول عام تصورات بھی اس کا محرک بنتے ہیں۔ جن لوگوں نے کبھی قرآن کو کھول کر نہیں دیکھا ہوتا، وہ بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ تعلق بالقرآن کے لیے یہی بہت ہے کہ حرمت قرآن کے نام پر انسانی جان لے لی جائے۔ بدقسمتی سے سماجی سطح پر دین کے جس تصور کی آبیاری کی جاتی ہے، وہ یہی ہے۔ مبلغین اس جانب بہت کم توجہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو دین پر عمل کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ اعمالِ صالح کے سوا ایمان کی کوئی اور شہادت اللہ کے حضور میں قبول نہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انسانی جان کھیل تماشا نہیں۔ قرآن مجید نے بتایا کہ ایک ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہی نہیں، دین میں انسانی جان کی حرمت بیت اللہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔ اس تصور کو عام کرنا ہو گا۔ لوگوں کو سمجھانا ہو گا کہ جس قرآن کے نام پر وہ محض الزام کی بنیاد پر انسانی جان لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، وہ قرآن انسانی جان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے اس معاملے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لیے میرے نزدیک تین کام ضروری ہیں۔
1:محراب و منبر کو اس باب میں اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہو گی۔ اس بات کا نوٹس خود اہلِ مذہب کو لینا ہو گا کہ ایسے اشتعال انگیز لمحات میں مسجد کا فورم کسی فساد کے لیے استعمال نہ ہو۔ ہمارے ہاں مدارس کی تنظیمیں اور نظم موجود ہیں‘ لیکن مساجد کی نہیں ہیں۔ چونکہ مساجد میں بالعموم ان مدارس کے فارغ التحصیل ہی امامت و خطابت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں، اس لیے مدارس میں اس تربیت کا اہتمام ہو کہ جو لوگ آنے والے دنوں میں یہ ذمہ داری سنبھالیں، انہیں دوران تدریس ہی اس کی تعلیم دی جائے۔
2: اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ ریاست و حکومت سماج میں مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم کو اپنے ہاتھ میں لے۔ مذہب جیسے سنجیدہ معاملات کو عطائیوں کے ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا۔ اس باب میں ہماری تمام حکومتوں نے جس مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، وہ باعثِ حیرت ہے۔ ریاست دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی بے بس ہے۔ مثال کے طور پر حکومت نے دینی مدارس کو ایک نظم کے تابع کر نے کے لیے ایک مدرسہ بورڈ بنایا ہے۔ مدارس کا کوئی وفاق اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ حکومت دھرنا ختم کروا سکتی ہے‘ نہ مدارس کو کسی نظم کے تابع کر سکتی ہے۔ حکومتی رٹ کا معاملہ صرف وزیرستان میں نہیں، پورے پاکستان میں ہے۔
3: ایسے واقعات کا تعلق فساد فی الارض سے ہے۔ قرآنِ مجید اسے اللہ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ کہتا ہے اور ایسے مجرموں کو عبرتناک سزا کا حکم دیتا ہے۔ دہشت گردی بھی ایسا ہی ایک جرم ہے۔ جو لوگ پاکستان میں موت کی سزا ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں، انہیں ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کو عبرتناک سزا دینا کیا عدل کا تقاضا نہیں ہے؟ حکومت اگر سزا اور قانون پر عمل درآمد میں کامیاب نہیں ہوتی تو وہ بالواسطہ جرم میں شریک ہو گی۔ حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ اگر مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا تو وہ قیامت کے دن اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے؟
سماجی تربیت، مذہبی سرگرمیوں اور اداروں کی تنظیم اور قانون کے منصفانہ استعمال کے بغیر ایسے واقعات کا سدِباب ممکن نہیں۔ اگر ہم سب ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے‘ تو ہم سب ان کے بالواسطہ مجرم ہوں گے۔ کیا رائے ساز، علماء، اہلِ سیاست، آخرت میں جوابدہی کا احساس رکھتے ہیں؟ لاریب، اللہ کا دین اس وحشت اور ظلم سے بری ہے۔ یہ معاشرہ اور حکومت ہیں جو ذمہ دار ہیں۔ اے اللہ! ہم پر رحم کر۔ ہم نے اس معاملے میں غفلت کی۔ اگر تو نے رحم نہ کیا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے!!