وزیراعظم کا دورۂ چین، امکان یہی ہے کہ روایتی سیاست و صحافت کی نذر ہو جائے گا۔45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اورانیس معاہدوں کے بعد ،ایک طرف سے سوال اٹھا ہے: ''وزیراعظم بتائیں،چین کیا لینے گئے تھے؟‘‘ دوسری طرف سے یہ تاثردیا جا رہا ہے کہ اب پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ صحافت بھی، الا ماشااللہ، یہی کچھ دکھائے اور پڑھائے گی۔ سادہ دل بندے سوچتے رہیں گے کہ وہ کدھر جائیں ۔کس کی مانیں، کس کو رد کریں؟
میرے نزدیک تواس باب میں ایک فرد کی گواہی معتبر ہے اوروہ ہیں ڈاکٹر ثمر مبارک مند۔ان کا کہنا ہے ''چین کی شراکت سے تھر کے بلاک نمبر 2میں کوئلے کی کان کنی کا جو منصوبہ وزیراعظم نواز شریف اور چینی وزیر اعظم کے مابین طے پا یا ہے،اس منصوبے سے آئندہ دو سال میں تھر سے پہلی بارکوئلے کی سپلائی شروع ہو جا ئے گی۔جس سے تھر میں بجلی کی پیداوار کا آ غاز ہو جا ئے گا اور اس کے علاوہ یہ کوئلہ، پاکستان میںکوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے دوسرے منصوبوں سے زیادہ سستی بجلی پیدا کر نے کا سبب بنے گا۔تھر کول سے بجلی پیدا کر نے کی لاگت دس سے بارہ روپے فی یونٹ ہو گی۔دیگر ذرائع سے ہم جو بجلی حاصل کرتے ہیں، اس کی لاگت 22 سے24 روپے فی یونٹ ہے۔‘‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے اور بھی بہت کچھ کہا جس میں امید ہے اور روشنی بھی۔
بجلی کے درپیش بحران کے بارے میں چند باتیں سب جانتے ہیں۔ایک یہ کہ کوئی حکومت اس پر قادر نہیں ہو سکتی کہ چند ماہ میں اس بحران کا خاتمہ کر دے۔حکومت سے دو باتیں مطلوب ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسے منصوبے تشکیل دے جس سے کم سے کم مدت میں ،یہ بحران اگر ختم نہ ہو تو قابو میں آ جائے۔یہ مدت بھی ظاہر ہے کہ سالوں ہی میں ہو گی۔ دوسرا یہ کہ ان منصوبوں کو ترجیح دی جائے جن سے ہمیں کم قیمت بجلی مل سکتی ہے۔ایسی بجلی پانی سے حاصل ہوسکتی ہے یا کوئلے سے۔اب کالا باغ ڈیم تو بن نہیں سکتا کہ تحریک ِ انصاف سمیت سب قومی سیاسی جماعتیں اس کے خلاف ہیں۔ہمیں متبادل آبی ذخائر تلاش کرنے ہیں۔یہ کام ہو رہا ہے۔کوئلہ بھی فوری طور پر حاصل نہیں ہو سکتا۔ابتدا میں ہمیں در آ مد کر نا پڑے گا۔میرا خیال ہے کہ اس وقت اس معاملے میں یہی ممکن ہے۔ اچھی گورننس کی بہر حال اس شعبے میں بھی ضرورت ہے۔اگر اپوزیشن کے پاس توانائی کے بحران کا کوئی دوسرا اور بہترحل ہے تو وہ سامنے لائے۔ اگر وہ قابلِ عمل ہے تو اس پر ضرور غور ہو نا چاہیے۔
مو جودہ حا لات میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن میں اس معاملے کو کسی اور زاویے سے دیکھ رہا ہوں۔ہماری سیاسی قیادت کی ساری تگ و دو کا حاصل خارجی سہاروں کی تلاش ہے۔ امریکہ نہیں تو چین۔مغرب نہیں تو مشرق۔ہم ایک ملک کے معاشی، تہذیبی اور سیاسی اثرات سے نکلنا چاہتے ہیں تو کسی دوسرے دروازے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔پاکستان میںچین کی سرمایہ کاری ایک یک طرفہ عمل ہے۔پاکستان بدلے میں کچھ نہیں دے رہا۔یہ سرمایہ کاری اگر چہ معاشی میدان میں ہے لیکن دراصل یہ سیاسی سرمایہ کاری ہے۔اس کی قیمت ہمیں،ایک وقت آئے گا کہ سیاسی سکوں میں ادا کر نا پڑے گی۔سادہ لفظوں میں ہم نے افغانستان کی جنگ میں امریکی سرمایہ کاری کی قیمت ادا کی۔ یہ قیمت ڈالروں کی اس ریل پیل سے کہیں زیادہ تھی جس کا مشاہدہ ہم نے 1980ء کی دہائی میں کیا۔ آج بھی لوگ مشرف صاحب کے دوراورمو جودہ عہد کا موازنہ کرتے اور اسے معاشی اعتبار سے بہتر دور قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ڈالروں کے بدلے میں ہم نے جو سیاسی قیمت ادا کی، اس نے اس سماج کو بر باد کرد یا۔آپ چند سال بعد کے دور کا تصور کیجیے جب پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار چین کی سر مایہ کاری پرہو گا۔فرض کیجیے کہ اس مر حلے پر چین اپنی سرمایہ کاری کو سمیٹنے کا فیصلہ کر تا ہے تو اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟یا وہ امریکہ کی طرح اس کی سیاسی قیمت طلب کرتا ہے؟
یہ محض ایک مفروضہ نہیں۔ملائشیااس تجربے سے گزر چکا ہے۔ مہاتر محمد کے عہد میں امریکی اور یورپی سرمایہ کاروں نے بڑی گرم جو شی کے ساتھ ملائشیا کی مارکیٹ کا رخ کیا۔ملائشیاکی معیشت کہاں سے کہاں جا پہنچی۔اس مر حلے پر امریکی سرمایہ کار جارج سورس نے اپنی سرمایہ کاری واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ ملائشیا کی معیشت ایک بڑے بحران کا شکار ہوگئی۔ اسے'جارج سورس سینڈرم‘ کا نام دیا گیا۔یہ مہاتر محمد کی اَن تھک جدو جہد تھی جس نے ملک کو اس بحران سے نکال لیا۔ہمارے پاس کوئی مہاتر نہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہم کسی ایسی صورتِ حال کا شکار ہوئے توہم کیا کریں گے؟ ہمیں اس بارے میں ابھی سے سوچنا ہو گا۔یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہو تا۔کوئی دوستی ہمالیہ سے بلند ہوتی ہے نہ سمندروں جیسی گہرائی رکھتی ہے۔سفارت کاری کی زبان اور شاعری میں وہی فرق ہے جو تجارت اور محبت میں ہے۔ہماری مو جودہ قیادت کو بھی اس فرق کو پیش ِ نظر رکھنا ہوگا۔
بالآخرپاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو نا ہے۔یہ دریوزہ گری اور دوسروں پر انحصار سے نہیں ہو گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں اندرونی سرمایہ کاری کی حو صلہ افزائی کی جائے۔وہ ماحول فراہم کیا جا ئے جس میں پاکستان کا سر مایہ کار مقامی مارکیٹ کو ترجیح دے۔تاہم یہ ایک بڑی تصویر کا محض ایک جزو ہے۔ در اصل قوم کو ایک وژن کی ضرورت ہے۔قومی حمیت اورخود انحصاری کا وژن۔اس کا آ غاز سماجی تعمیر سے ہو گا، سماجی اداروں کی تشکیلِ نو۔اس میں قومی وسائل کی دریافت بھی شامل ہے۔ اس کے لیے بصیرت اور دیانت کی ضرورت ہے۔میں جانتا ہوں کہ یہ اوصاف ارزاں نہیں ہیں۔اس کام میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ قیادت کو پہلے اپنی مثال پیش کر نا پڑتی ہے۔اس لیے حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ جو ہے،اس میں بہتر کا انتخاب کیا جائے۔اس حوالے سے وزیراعظم کا دورۂ چین امکانات کی جس دنیا کی نشان دہی کر رہا ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھا نا چاہیے کہ سرِ دست اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
وزیراعظم اپنے بیرونی دورے میں وزیر اعلیٰ پنجاب ہی کی صحبت کیوں پسند کرتے ہیں؟ترکی ہو یا چین،کسی دوسرے صوبے کا وزیر اعلیٰ کیوں ان کا ہم سفر نہیں ہو تا؟یہ سوال اس تاثر سے متصل ہے جس کے تحت اس عہد میں اختیارات کو ایک خاندان میں مرتکز کر دیا گیا ہے۔مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ کل جب نوازشریف صاحب کے دورِ اقتدار کے بارے میں کوئی فرد ِ جرم مرتب ہو گی، اس میں سر فہرست یہی جریمہ ہوگا:اقربا پروری۔اس تاثر کی سیاسی اہمیت کیاہے، اگر میاں صاحب جاننا چاہیں تو مولانا طارق جمیل ہی سے پوچھ لیں۔