جماعت اسلامی کا اجتماع، سماج پر کوئی قابل ذکراثرمرتب کیے بغیر تمام ہو گیا۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں، اِس برسات سے پہلے کوئی گھٹا اٹھی اور نہ اس کے بعد ہی کوئی روئیدگی پیدا ہوئی۔ روایتی سیاسی جماعتوںکی مسلسل ناکامی، مذہبی انتہا پسندی اور تحریک انصاف کے اخلاقی زوال کے بعد، جماعت اسلامی کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ وہ قوم کی نظری و سیاسی امنگوں کی ترجمانی کرتی۔ جماعت نے یہ موقع گنوا دیا۔ کوئی فکرِ نو ، کوئی ولولۂ تازہ، افسوس کہ ملک بھر سے جمع ہونے والے لاکھوں افرادہی نہیں، یہ سماج بھی تہی دامن رہا۔
سید منور حسن کے ارشادات میرے لیے حیرت سے زیادہ صدمے کا باعث بنے۔ وہ قتال فی سبیل اﷲ کو انتخابی سیاست کے متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور پھر اسی سانس میں یہ ''نتیجۂ فکر‘‘ بھی بیان فرما رہے ہیں کہ جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت مل جائیں تو معاشرہ سنور جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب قتال کی شریعت سے واقف ہیں نہ دعوت کی فقہ سے۔ صدمے کا سبب یہ ہے کہ اس ژولیدہ فکری کے ساتھ، وہ پانچ سال تک مولانا مودودی کی مسند پر تشریف فرما رہے،جن کی اصل پہچان، ان کی علمی وجاہت اورتفقہ فی الدین ہے۔ کیا مولانا مرحوم نے '' الجہاد فی الاسلام‘‘ ایک مسلمان سماج میں انقلاب کی حکمت عملی کے بیان میں لکھی تھی؟
سید صاحب کا ذکر تو خیر بطور جملہ معترضہ درمیان میں آ گیا، برادرم سراج الحق صاحب کو کیا ہوا؟ اس اجتماع کے دوران میں،انہوں نے متعدد تقاریر کیں۔ میں تین دن سے اس کوشش میں ہوں کہ ان میںکوئی ربط تلاش کر سکوں۔ جماعت نئے عہد کے تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ ہو گی؟ ملک کو درپیش مسائل کا اس کے پاس کیا حل ہے؟ نئی نسل کے لیے ان کا پیغام کیاہے؟ سماجی اصلاحات اور سیاسی جد و جہد کیسے ہم آہنگ ہوںگے؟ پھر یہ کہ کیا جماعت کی قیادت عالم اسلام میں آنے والی تبدیلیوں سے کتنی باخبر ہے؟سچ یہ ہے کہ تین دن کی ناکام مساعی کے بعد میرے پاس اعتراف عجز کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان تقاریر کو متفرق اقوال زریں کا مجموعہ تو کہا جا سکتا ہے، شاید ایک سوچی سمجھی رائے نہیں۔
یہ تبصرہ ان لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث نہیں ہو گا جو جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماعات کی تاریخ سے واقف ہیں۔ ایک دور میں ان کی روداد شائع ہوا کرتی تھی۔امیر جماعت کا خطاب، اجتماع میں خاصے کی چیز ہوتا تھا۔ وہ ادب عالیہ کا ایک نمونہ تو ہوتا ہی تھا، اس کے ساتھ ان کو پڑھ اور سن کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ امیر جماعت کا ایک وژن ہے‘ ایک نظر یہ اور اس کے ساتھ ایک واضح حکمت عملی بھی۔ وژن،نظریہ، حکمت عملی‘ سب پر تنقید کا باب ہمیشہ کھلا رہتا تھا لیکن اس میں کہیں ابہام نہیں ہوتا تھا۔ یوں جب شرکاء لوٹتے تو ان کے سامنے ایک واضح لائحہ عمل ہوتا تھا۔ اس اجتماع کو جب میں، اس روایت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے مایوسی ہوتی ہے۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ اجتماع سے قبل سوچ بچار کا عمل نہیں ہوا۔ میں نے جب اس کاتفصیلی پروگرام دیکھا تو اس میں ایک سیشن بھی ایسا نہیں تھا جو میرے لیے باعث کشش ہوتا۔ جماعت کے صوبائی امراء اور مرکزی امیر کی تقاریر سننے، آخر کوئی اتنا طویل سفر کیوں کرے؟ اخوان کے ایک راہنما کے سوا، شاید اس اجتماع میں کوئی بات ایسی نہ تھی جو مجھے اپنی جانب متوجہ کرتی۔ میں اس پروگرام کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکا کہ ایک اسلامی تحریک عہد نو میں پاکستانی قوم کے لیے کوئی لائحہ عمل تجویز کرنے جا رہی ہے۔ پروگرام زبان حال سے پکار پکار کر یہ کہہ رہا تھا کہ جماعت کے فکری سوتے اب خشک ہو چکے۔
سراج الحق صاحب متحرک آدمی ہیں‘ لیکن محض تحرک کسی کام کا نہیں، اگر آپ کا کوئی وژن یا واضح حکمت عملی نہیں۔حرکت سے بعض اوقات آپ گرد اٹھا دیتے ہیں، لیکن قافلہ غبارِراہ میں گم ہوجاتا ہے۔سراج صاحب اگر اس ریاضت کو معنی خیز بنانا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ بنیادی امور کو مخاطب بنانا ہو گا۔ میں بعض کی جانب انہیںمتوجہ کرنا چاہوں گا۔
1۔ جماعت اسلامی کی شناخت کیا ہے؟سماجی وسیاسی اصلاح کی ایک ہمہ گیر تحریک یا اقتدار کی کشمکش میں فریق ایک سیاسی جماعت؟ جماعت کی اپنی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ یہ دو مختلف کام ہیں اور ایک فورم پر نہیں ہو سکتے۔ دونوں کے مطالبات الگ ہیں، اس لیے ان کے لیے رجالِ کار بھی مختلف ہو گے۔ فکری و نظری اصلاح، جو سماجی اصلاح کا پہلا دروازہ ہے، وہ اب قصۂ پارینہ ہے۔ یہ کار تجدید ہے اور رجال کار کے بغیر ممکن نہیں۔ بایں ہمہ عملی سیاست کے مطالبات سے ہم آہنگ بھی نہیں۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب، معلوم ہوتا ہے کہ خرابیٔ صحت کے باعث اجتماع میں شریک نہیں ہو سکے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جماعت کے پاس کوئی ایک فرد ایسا نہیں تھا جو ان کی غیر موجودگی میں دور حاضر میں ایک اسلامی تحریک کو درپیش مسائل پر خطاب کر سکتا۔
2۔اگر میں موجودہ دور کے رجحانات کو سامنے رکھوں تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ جماعت اقتدار کے عمل میں شریک ایک سیاسی جماعت ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کی تمام توجہ ایک سیاسی حکمت عملی کی تشکیل ہونی چاہیے۔ میرا خیال ہے، اس میدان میں جماعت اسلامی اگر اپنا کردار ادا کرنا چاہے تو ایک خلا موجود ہے، جسے وہ ختم کر سکتی ہے۔
3۔ترکی اور تونس میں با لخصوص ایسے تجربات ہوئے ہیں جن میں پاکستان کی اسلامی تحریک کے لیے بہت روشنی ہے۔جماعت اسلامی کو راہنمائی کے لیے اب افغانستان اور ایران کے بجائے،اس سمت میں دیکھنا چاہیے۔جماعت کو ضرورت تھی کہ وہ ان تجربات کا تجزیہ کرتی اور پھر ان کی روشنی میں تبدیلی کاایک مقامی ماڈل تیار کر تی۔سراج صاحب امارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اس پراہلِ علم و دانش کی ایک کمیٹی بناتے۔وہ ایک لائحہ عمل تجویز کرتی اور سالانہ اجتماع میں اس کا اعلان ہو تا۔اجتماع کی سرگرمیاں اس ماڈل کے مختلف اجزا کو نمایاں کرتیں۔ جیسے خواتین کے سیشن سے یہ پیغام جاتا کہ جماعت نئے عہد میں خواتین کے کردار کو کیسے دیکھ رہی ہے۔ اسی طرح نو جوانوں کا سیشن، ان کے حوالے سے اس ماڈل کے خدو خال واضح کر تا۔
4۔اس اجتماع میں 'سٹیٹس کو‘کی قوتوں کے خلاف روایتی للکار غالب رہی۔یہ اب چلا ہوا کارتوس ہے۔اس سے عمران خان فائدہ اٹھا چکے۔جماعت کے لیے اب اس نعرے میں کچھ نہیں۔جماعت اگر امریکہ کو برا بھلا کہہ کر اپنی جگہ بنائے گی تو یہ کام بھی طالبان زیادہ بلند آہنگی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھنا یہ ہے کہ سماج کو کس کی ضرورت ہے اور کہاں خلا ہے۔یہ خلا مو جودہے اوراس کالم میں بھی،اسے کسی حد تک واضح کیاگیاہے۔
5۔یہاںسو دو سو افراد کا اجتماع سودن سے میڈیا کا مرکز ِ نگاہ ہے۔جماعت کا دولاکھ کا اجتماع میڈیا کو متوجہ نہیں کر سکا۔ جماعت کو سوچنا چاہیے، ایسا کیوں ہے؟
غور وفکر کا یہ کام اگر اجتماع سے پہلے ہوتا تو آج یہ سماج میں موضوعِ بحث بنتا۔ایسا نہیں ہو سکا۔اگر کوئی بات موضوع بنی تو وہ سید منور حسن کے ارشادات۔جماعت اسلامی کی قیادت جو تجزیہ پہلے نہیں کر سکی، بعد میں تو کر سکتی ہے۔واضح نقطہ نظر اورمتعین راستے کے بغیر، حرکت تو ہو سکتی ہے،سفر نہیں کٹتا۔