وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ چوبیس سال کا نوجوان سیاسی ہیجان کی آگ میں جل گیا۔
میں مہینوں سے واویلاکر رہا تھا۔ اہلِ نظر پریشان تھے کہ سیاست جس ڈگر پر چل نکلی ہے، اس کا انجام بخیر نہیں ہو سکتا ۔ جذبات کو جس طرح بھڑکایا جا رہا ہے، اس سے لازماً ایسا الاؤ روشن ہوگا جو انسانی لہو ہی سے بجھ سکے گا۔ یہ سب کچھ نوشتہ دیوار تھا۔ '' نفرت کی سیاست ‘‘ کو میں نے چند دن پہلے ہی، ایک بارپھر اپنے کالم کا موضوع بنایا تھا۔اخبارات کے صفحات ہم نے سیاہ کر دیے ، جو کچھ ہم نے لکھا، وہی نوشتۂ دیوار تھا۔ کسی نے کالم پڑھا نہ دیوار۔ اگر کوئی احتجاج حق نوازکو واپس لا سکتا تو میں ضرور اس کی صف اوّل میں شامل ہوتا۔ میں جانتا ہوں کہ اہلِ سیاست کے لیے وہ آج سے قصہ پارینہ ہے۔ اقتدار تک پہنچنے کی صرف ایک سیڑھی۔
مگر یہ ایک انسان کا قتل ہے، اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ جو سماج قتل ناحق کو گوارا کرتا ہے، اس میں ہر جان غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس لیے اﷲ نے اپنی کتابوں میں یہی لکھا کہ قصاص میں زندگی ہے۔ قصاص کا مطلب یہ ہے کہ انسانی قتل گوارا نہیں ہو گا۔ حق نوازکو جس نے مارا، لازم ہے کہ اسے سزا ملے۔ جو اسے مقتل تک لائے انہیں تو سزا نہیں ملے گی کہ قانون اس معاملے میں عام طور پر خاموش رہتا ہے۔ ان کا مقدمہ اُن کے ضمیرکی عدالت میں لگتا ہے۔ وہاں اگرکوئی منصف بیٹھا ہے تو وہ ضرور بتائے گا کہ ایسے لوگ بھی قتل میں شریک ہوتے ہیں جو
جان بوجھ کر بے گناہوںکو مقتل کی طرف دھکیلتے اور پھر ان کی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں۔ لاشوں کی سیاست ایک بے رحم کھیل ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گاکہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
یہ معلوم ہے کہ اس قتل میں حکومت فریق نہیں ہے۔ حق نوازکسی حکومتی ادارے کے ہاتھوں نہیں مارا گیا۔ قاتل نا معلوم ہے۔ تادمِ تحریراس کی شناخت نہیں ہو سکی۔ کیا وہ ن لیگ کا کارکن تھا؟ کیا وہ رانا ثنا اﷲ صاحب کے دامادکا محافظ تھا؟ کیا یہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے، جیسے ایک ٹی وی چینل کے مطابق ضلعی انتظامیہ کا دعویٰ ہے؟ یہ ابھی طے ہونا ہے۔ پولیس کے اس رویے پر بہر حال حیرت ہے کہ جو شخص کیمرے کی آنکھ سے اوجھل نہیںتھا، وہ پولیس کی نظر وں سے چھپا رہا۔ بھرے بازار میںگولیاں چلاتا ہوا فرار ہو گیا اور پولیس گرفتار نہیں کر سکی۔ پولیس قتل میں ملوث نہ سہی، نااہلی کی مجرم تو ہے۔ اس کی سزا تو بہر حال اسے ملنی چاہیے۔
اس حادثے کے دو فریق ہیں۔ ایک تحریک انصاف اور دوسرا ' قاتل ‘۔ اگر اس کا تعلق رانا ثناء اﷲ صاحب کے خاندان سے ثابت ہوتا ہے تو رانا ثناء اﷲ صاحب کو شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔ اگر وہ ن لیگ کا کارکن ہے تو پھر ن لیگ کو بطور جماعت سوچنا ہے کہ وہ ایسے کارکنوں کے بارے میں کیا موقف اختیار
کرتی ہے۔ اگر اس کا محرک کچھ اور ہے تو اسے بھی سامنے لانا چاہیے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت ہی کا کام ہے۔ جرم ہو جائے تو مجرموں کو عدالت کے کٹہرے تک پہنچانا حکومت ہی کی فرائض میں شامل ہے۔ یہ بات بھی سامنے رہے کہ مقتول دو ہیں۔ دوسرے کا ذکر نہیں ہو رہا۔ اگر نہر سے ملنے والی لاش اس احتجاج سے متعلق ہے تو پھر اس کے قاتلوں کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔
اس مرحلے پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان کیا ا پنے اسلوب سیاست میں کسی تبدیلی پر آمادہ ہوںگے؟ انسانی لاشوں کو ، ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے وہ مہمیز سمجھیں گے یا آنے والے دنوں میں ایسے واقعات سے بچنے کی کوشش کریںگے؟ آج جہاں حکومت کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے، وہاں عمران خان کو بھی اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ کیا وہ اپنے بچوں کو لندن بٹھا کر، لوگوں کے بچوں کو اس طرح آگ میں جھونکیں گے؟ کیا وہ اسی طرح '' جلاؤ، گھیراؤ ‘‘ کی سیاست جاری رکھیں گے؟ کیا شیخ رشید ہی ان کے اتالیق رہیں گے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس سیاست سے خیر بر آمد ہو گا؟
عمران خان کو عوامی پزیرائی حاصل ہے ۔ یہ واقعہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایک عالمی ادارے کا سروے بتاتا ہے کہ پاکستان ایشیا کی مایوس ترین قوم ہے ، بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ۔ یہی مایوسی عمران خان کی طاقت ہے۔ وہ چاہیں تو اسے خیر کی قوت میں بدل ڈالیں اور چاہیں تو عوام کے جان و مال کو خطرات کے حوالے کر دیں۔ یہ سمجھنے کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیں کہ سیاسی اعتبار سے غیر مستحکم سماج میں صرف مایوسی کاشت کی جا سکتی ہے۔ اس وقت حقیقی رہنما وہی ہے جو اس مایوسی کو امید میں بدل دے۔ جو عوام کو بتائے کہ اس مایوسی سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ؟ یہ راستہ تشدد نہیں ہے ، یہ سیاسی انتہا پسندی سے ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو پھر ایک پر امن معاشرہ ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔سماج کے لیے سیاسی استحکام ایسے ہی لازم ہے جیسے فرد کی حیات کے لیے آکسیجن ۔ مسئلہ نواز شریف نہیں، بد امنی اور فساد ہے ، جہالت اور مایوسی ہے۔ قوم کو اس سے نکالا جا سکتا ہے، ایک متبادل دے کر۔ یہ کام لاشیں گرائے بغیربھی ممکن ہے۔
عمران خان کواب یہاں رک جانا چاہیے اور حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے۔دیگر سیاسی جماعتوں کو متحرک ہونا چاہیے۔ نکتہ ایک ہی ہو: سماج ، ریاست اور عوام کے جان و مال کو خطرات میں ڈالے بغیر، بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ اس کا آسان جواب ہے: قانون کی حکمرانی۔ اس جانب سفرکا آغاز ہو چکا۔ الیکشن ٹریبونل، عمران خان کے حسب خواہش فیصلے دینے لگے ہیں۔ انہیں یہاں ٹھہرکر اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ انصاف کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ان کی ہر بات پر یقین کر لیا جائے ۔ ان کا سچ ضروری نہیں کہ عدالت کے لیے بھی سچ ہو۔ انہیں اب اس ذہنی کیفیت سے نکلتے ہوئے یہ یقین کرنا چاہیے کہ عدالتوں کا فیصلہ ان کی مرضی کے بر خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے کا نام ہی قانون کی حکمرانی ہے۔ اسی طرح آنے والے دنوں میں انتخابی اصلاحات کے لیے کام کا آغاز ہو چکا۔ نئے الیکشن کمشنر کا تقرر ہو چکا۔ تحریکِ انصاف کا وفد ان سے مل چکا اور اُن پر اعتماد کا بھی اظہارکر چکا۔ آج سماج کے استحکام کے لیے نا گزیر ہے کہ قانون کا راستہ اختیارکیا جائے ، اسی میں سب کی سلامتی ہے ، اس میں خیر ہے۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو قوم کو فساد سے امن کی طرف لاتا ہے ، جو مایوسی کو امید میں بدل دیتا ہے۔
قانون کی حکمرانی کا یہ تصور بے معنی ہو گا اگر حق نواز کے قاتل انجام تک نہ پہنچے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عوام کو انصاف ہوتا دکھائی دینا چاہیے۔ اگر بھرے بازار میں دندناتے قاتل، سماج کی گلیوں میں گم ہو جائیںتو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر گلی کو قاتلوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔