خبر یہ ہے کہ ایک سپاہی ریٹائر ہو گیا۔ تجزیہ یہ ہے کہ مجاہد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ سرکاری افسر چلے جاتے ہیں، مصلح مگر باقی رہتے ہیں۔ جن کا رشتہ حکومت سے ہوتا ہے، وہ ماہ و سال کے پیمانے میں سوچتے ہیں۔ جو خود کو سماج کا حصہ سمجھتے ہیں، وہ شب و روز کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں:
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں، جن کا نہیں کوئی نام
ذوالفقار چیمہ صاحب کے کالموں کا مجموعہ کئی روز سے میرے سرہانے رکھا ہے۔ خبر پڑھی تو ایک بار پھر اٹھا لیا۔ کالم نہیں یہ رنگ ہیں جو کاغذ پر بکھر گئے ہیں۔ سفید، نیلا، سبز، سرخ۔ یہ تو اصل رنگ ہیں۔ رنگوں کی آمیزش سے جو رنگ وجود میں آتے ہیں، وہ بھی کم نہیں۔ اسلوب کو دیکھ لیجیے! یہ جذبات کا رنگ ہے۔ رسالت مآبﷺ کی ذات والا صفات کا طواف کرتا وہ رنگ جو عقیدت و محبت کے جلو میں بکھرتا اور لکھنے والے ہی کو نہیں، پڑھنے والے کو بھی اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ یوں وہ بھی محو عبادت ہو جاتا ہے۔ طواف کوئے جاناں۔ یہ دوسرا رنگ بھی جذبات کا ہے مگر اس کا مرکز ماں ہے۔ یہ نور کے آغوش میں ایک سفر ہے۔ روشنی ہی روشنی۔ قاری یہاں بھی کالم نگار سے الگ نہیں ہوتا۔ وہ بھی اس نور میں راستہ تلاش کرتا ہے، یہاں تک کہ جنت تک جا پہنچتا ہے۔ آپ جانتے ہیں ناں کہ جنت کہاں ہے؟ ماں کے قدموں میں۔
پھر یہ معلومات کا رنگ ہے۔ رسالت مآبﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کیسے تھے؟ زار کے روس سے لے کر پیوٹن
کے روس تک، تاریخ نے کیا کیا کروٹیں لیں؟ یہ ترکی کی جادو نگری کیسی ہے؟ تہذیب کیسے فطری رنگ میں آگے بڑھتی اور مصنوعی تبدیلیوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے؟ برطانوی جمہوریت کا ارتقا کیسے ہوا؟ وسطی ایشیا کی ریاستیں کیا سوچ رہی ہیں؟ یہ کالم ان سب سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ یوں کہیے کہ شرق و غرب کی تاریخ کو سمیٹ دیتے ہیں۔ معلومات کے ساتھ ایک رنگ تجزیے کا بھی ہے۔ دنیا میں تبدیلیاں کیسے آتی ہیں؟ قوموں کے بناؤ اور بگاڑ میںکون کون سے عوامل کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر ہم پولیس کی اصلاح چاہتے ہیں تو یہ کیسے ہو گی؟ قانون کا موثر نفاذ کیسے ممکن ہے؟چیمہ صاحب یہ سب سوالات اٹھاتے ہیں۔ اپنا تجزیہ ہمارے سامنے رکھتے ہیں اور دعوت فکر بھی دیتے ہیں۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
ان کالموں میں ایک رنگ صفحۂ اوّل سے صفحۂ آخر تک چھایا ہوا ہے اور وہ پاکستانیت کا رنگ ہے۔ اگر کوئی بات متفرق باتوں میں مشترک ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اسلام کی بات ہو رہی ہے تو وہ یہ بات فراموش نہیں کر رہے کہ پاکستان کی اسلامی ریاست میں عوام کو وہ برکات کیوں میسر نہیں، جو اسلام سے عملی وابستگی کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ وہ بھارت کے پولیس نظام کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کی پولیس کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ ترکی جاتے ہیں تو پاکستان کو یاد کرتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کی عالمگیر شہرت رکھنے والی خوب صورتی انہیں اپنے 'پنڈ‘ کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ وہ شخصیات کو بھی اگر پرکھتے ہیں تو اسی معیار پر کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اگر پاکستان کے ذکر پر کسی 'پاکستانی‘ کا دل اچھلتا نہیں ہے تو اسے یہ کالم ضرور پڑھنے چاہئیں۔
یہ تو خیر ان کے کالموں کا وہ پہلو ہے‘ جو سنجیدگی لیے ہوئے ہے، اسلوب اور نفس مضمون دونوں حوالوں سے۔ ایک اور رنگ شوخی ٔ تحریر کا بھی ہے۔ وہ اس وادی میں قدم رکھتے ہیں تو لبوں پر مسکراہٹوں کے گلاب کھلا دیتے ہیں۔ پولیس کلچر کا ذکر سب سے دلچسپ ہے کہ وہ محرمِ راز ہیں، درون مے خانہ۔ ایک ایس ایچ او اپنے معاملات جس 'خوش اسلوبی‘ سے چلاتا ہے، کوئی جاننا چاہے تو ''معززین علاقہ‘‘ پڑھ لے۔ تھانہ کلچر کی ایسی تصویر انہوں نے کھینچ دی ہے کہ سب کردار ہمیں آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ معززین علاقہ ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ یہ ہم میں سے ہیں بلکہ شاید یہ ہم ہی ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں معززین کہلاتے ہیں۔ اس طرح کے ''معززین‘‘ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سماج کو اپنے روحانی فیوض اور برکات سے مستفید کرتے ہیں۔ ''پیر صاحب کوہستانی‘‘ میں انہوں نے ہمیں ایسی ہی ایک روحانی شخصیت سے ملوایا ہے۔ یہ کالم پڑھنے کے بعد، ہم ارد گرد نگاہ دوڑاتے ہیں اور سب سے نظر یں چرانے لگتے ہیں۔ اسلوب کی دل کشی سے ہم حظ تو اٹھاتے ہیں لیکن کالم تمام ہوتا ہے تو دل سے ایک آہ نکلتی ہے اور ہم اقبال کو یاد کرتے ہیں:
قم باذن اﷲ، کہہ سکتے تھے جو، رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن!
یہ سب رنگ، ایک رنگ کا ظہور ہیں۔ یہ پاکستانی سماج کا رنگ ہے۔ ''صبغۃاﷲ ‘‘۔ اصلاح کی شدید خواہش ہے، جو ایک پاکستانی مسلمان کو کسی لمحہ چین نہیں لینے دیتی۔ ذوالفقار چیمہ صاحب کے ہاں سرکاری نوکری کا مفہوم اپنے حلف سے وفاداری ہے، حاکم ِ وقت سے نہیں۔ اس باب میں بھی وہ قائد اعظم کے اس خطاب کو سامنے رکھتے ہیں، جس میں انہوں نے سرکاری اہل کاروں کو مخاطب کیا تھا۔ سرکاری ملازم کی اصل وفاداری ریاست اور قانون سے ہے۔ ذوالفقار چیمہ صاحب نے اپنے تمام عہد ملازمت میں اسی بات کو پیش نظر رکھا۔ شخصی مفادات کو انہوں نے اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ کسی حکمران سے قربت، ان کے فرض کے راستے میں مزاحم نہیں ہوئی۔ ایک روشن تاریخ چھوڑ کر وہ رخصت ہوئے... ملازمت سے، ہمارے دل سے نہیں، سماج سے نہیں۔
حکومت چاہے تو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اس وقت قوم کو معرکہ درپیش ہے، اس میں ذوالفقار چیمہ جیسے لوگوں ہی کی ضرورت ہے۔ بہادر، محب وطن، حکیم اور پُرعزم۔
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
حکومت اگر انہیں نظر انداز کرے گی تو خود کو نیک نامی اور سماج کو ایک خیر سے محروم کر ے گی۔ نیک نامی حکومت کی ضرورت ہے اور یہ بازار سے نہیں ملتی۔ اسے افراد میں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ یوں اخلاقی ساکھ قائم ہوتی ہے؛ تاہم ذوالفقار چیمہ جیسے لوگ حکومتوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کے اندر موجود خیر، ان کے لیے قوت متحرکہ کا کام کرتا ہے اور وہ ہمیشہ سماج کے لیے اثاثہ بنے رہتے ہیں۔ ان کا جذبہ انہیں تحریک دیتا ہے اور یوں اپنا خیر بانٹتے رہتے ہیں۔ خیر تقسیم کرنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ قلم خود خیر کے ابلاغ کا موثر ذریعہ ہے۔ اگر وہ اسے کام میں لائیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ تذکیر تو کر ہی سکتے ہیں اور اس کی سماج کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ایسا آدمی ریٹائر ہو سکتا ہے؟ سپاہی ریٹائر ہوتا ہے، مجاہد نہیں۔ سرکاری ملازمت ختم ہوتی ہے، اصلاح کی خواہش نہیں۔ اب مجاہد اور مصلح ہمارے درمیان موجود رہے گا، جب تک عالم کا پروردگار چاہے گا۔ اس کا نظام ایسا ہے کہ لوگ پسِ مرگ بھی زندہ رہتے ہیں اور متحرک بھی۔ ملازمت تو خیر بہت کم حیثیت رکھتی ہے۔