'چارلی ایبڈو‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے شمارے کے سرورق پر رسالت مآبﷺ کاخاکہ شائع کرے گا۔اس ہفت روزے کا وکیل کہتا ہے:'' ہم ہار نہیں مانیں گے۔'میں چارلی ہوں‘ کا مطلب ہے:توہین کی آزادی۔‘‘ یہ کہا گیا کہ اس بار طلب بڑھنے پر یہ شمارہ تیس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوگا۔معمول میں یہ کبھی ساٹھ ہزار سے زیادہ نہیں چھپا۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے؟
دوباتیں بڑی واضح ہیں۔ایک یہ کہ مغربی اور اسلامی تہذیبوں میں ایک جوہری فرق ہے۔مغربی تہذیب کاالہامی روایت سے کوئی تعلق اب باقی نہیں رہا۔ یہ اس وقت لبرل ازم کا دوسرا نام ہے۔ مغرب انسانی آزادی کے ایسے تصور پر کھڑا ہے، جس پر مذہب یا قانون کی کوئی پابندی اسے گوارا نہیں۔تقدس کے کسی احساس کے لیے اس تہذیب میں کوئی جگہ نہیں۔اسلامی تہذیب جن اقدار پر کھڑی ہے، اس میں حفظِ مراتب ایک بنیادی قدر ہے۔یہ الہام کو اپنی ا ساس مانتی اور اس سے وابستہ ہر تصورکو مقدس سمجھتی ہے۔ الہ، رسول، کتاب اللہ، یہ سب الہامی تصورات ہیں۔ وہ حسبِ مراتب ان کو محترم جانتی اور ان کی توہین کے لیے، اس کی تہذیب میں کوئی جگہ نہیں۔اسلام اس دائرہ کو ان تصورات تک محدود نہیں رکھتا جن کا تعلق صرف مذہب سے ہے۔وہ اسے سماجی رشتوں تک پھیلادیتا ہے۔یہی نہیں،وہ تواپنے ماننے والوں کو اس سے بھی منع کرتا ہے کہ وہ ان جھوٹے خداؤں کو براکہیں، جنہیں ان کے ماننے والے سچا سمجھتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ مغرب کے نزدیک عالمگیر تہذیب سے مراد مغربی تہذیب ہے۔کثیرالمدنیت (pluralism) سے اس کا مطلب ہے: دوسری تہذیبوں کی ان اقدار کو قبول کر نا جو مغربی تہذیب سے ہم آہنگ ہیں۔ اگر کوئی قدر ایسی ہے جو مغربی تہذیب کے لیے قابل ِ قبول نہیں توکثیر المدنیت کا تقاضا ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔وہ ایسی قدر کو صرف اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ اس کے تہذیبی مزاج سے ہم آہنگ ہو جائے۔توہین آ میز خاکوں کی اشاعت ہی اس بات کو سمجھنے کے لیے کفایت کر تی ہے۔مسلمان آج مغرب کی آ بادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔مو جودہ مغرب کی تہذیبی شناخت میں مسلمان بھی شامل ہیں۔کثیر المدنیت کا لازمی تقاضا ہے کہ وہاں کا میڈیا اور دوسرے ادارے مسلمانوں کی حساسیت کو پیشِ نظر رکھیں۔مسلمانوں کا یہ مطالبہ خوداس تہذیب سے متصادم نہیں ہے کہ وہ جن تصورات یا شخصیات کو مقدس جانتے ہیں، ان کی توہین نہ کی جائے۔لیکن اس مطالبے کو قبول نہیں کیا جا تا اور 'چارلی ایبڈو ‘ کے اس حق کا دفاع کیا جا تا ہے کہ وہ دوسروں کی مقدس شخصیات کی تو ہین کرے۔
یہ دو باتیں،اس وقت مسلمانوں اور مغرب کے مابین خلیج کا باعث بن رہی ہیں۔یہ لازم ہو گیا ہے کہ اس پر مکالمہ ہو۔اگر مغرب کی طرف سے انسانی آزادی کے اس بے مہار تصور کو دوسرے کے جذبات سے مشروط نہ کیا گیا تواس بات کا پورا امکان مو جود ہے کہ دنیا فساد کا گھر بن جائے۔اس دنیا میں ظاہر ہے کہ مغرب بھی شامل ہے۔1989ء میںسلمان رشدی کاواقعہ ہوا۔ مغرب نے اس وقت بھی مسلمانوں کی حساسیت کو محسوس نہیں کیا۔اس حرکت پر،اس کی مذمت کرنے کے بجائے، اسے ایک ہیرو کا درجہ دیا گیا۔اسے اعزازات سے نوازا گیا۔اس سے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے یہ خیال کیاکہ مغرب رسالت مآب ﷺ کی حرمت پر اس ناپاک حملے میں شریک ہے۔اگر اس وقت مغرب اپنے ردِ عمل میں توازن کا مظاہرہ کرتا توپیرس کا یہ واقعہ نہ ہوتا۔اب بھی مغربی حکومتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور مسلمان حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ مغرب سے سنجیدہ مذاکرات کریں۔ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے بین المذاہب مکالمے کا آغاز کیا ہے۔ان جیسی با اثرشخصیت اگر اس باب میں پیش قدمی کرتی ہے تو اس سے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔اسی طرح کی ایک کوشش سول سوسائٹی کی سطح پر بھی کی جا سکتی ہے۔
اس سارے معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہے۔مسلمانوں کوایک ایسے سماج میں کیسے رہنا چاہیے جو کثیر المدنی ہو اور جہاں زمامِ کار ان کے ہاتھ میں نہ ہو؟ہم مغرب سے مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔اگر
مغرب میں رہنے والے مسلمانوں سے ایسا ہی مطالبہ کریں تو کیایہ غلط ہو گا؟ان سوالات کے جواب کے لیے معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی سامنے ہو نا چاہیے۔مسلمان اپنے لیے بطور اقلیت جو آزادی چاہتے ہیں، کیا وہ مسلم اکثریتی معاشروں میں اقلیتوں کو دینے کے لیے آ مادہ ہیں؟ چندمسلمان اہلِ علم ان سوالات کو مخاطب بناتے ہیں۔'فقہ الاقلیات‘تحقیق کا ایک مضمون ہے۔ اس میں اہلِ علم ان مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں جن کا تعلق مسلم اقلیتوں سے ہے۔دنیا بھر کا میڈیا چو نکہ سنجیدہ مو ضوعات کو زیادہ اہمیت نہیںدیتا،اس لیے اس نوعیت کی تحقیقات کم ہی سامنے آتی ہیں۔اس موضوع سے متعلق ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم سماج میں کوئی شخص ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے جو اسلامی تہذیب کے خلاف ہے تو ایک مسلمان کا ردِ عمل کیا ہو نا چاہیے؟یا اگر ایک مسلمان کسی غیر مسلم ملک کا شہری ہے توکیا اس ملک کے قوانین کی پابندی شرعاً اس پر لازم ہے؟
میرا خیال ہے کہ ان سوالات پر نہ صرف ان مسلمانوں کو غور کرنا ہے جو مغرب میں رہتے ہیں بلکہ ہمارے لیے بھی ان کی اہمیت کم نہیں جو مسلم اکثریتی ملک کے شہری ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ ابلاغ کے انقلاب نے فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔مسلم اکثریت، مسلم اقلیت کے اعمال سے متاثر ہوتی ہے اور اسی طرح اقلیت اکثریت کے اثرات سے بچ نہیں سکتی۔فرانس میںہر مسلمان ملک کے شہری آباد ہیں۔یہ شہری وہاں کے حالات سے متاثر ہوں گے۔عامر چیمہ کاواقعہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جو جرمنی میںہواتھا۔پاکستان اس حادثے سے براہ راست متاثر ہوا۔
اس میں ایک کردار پوپ فرانسس کا بھی ہے۔انہوں نے اس واقعے کی مذمت کی۔انہوں نے ایک مذہبی راہنما کی طرح ان لو گوں کی ہدایت کے لیے بھی دعا کی جوایسے واقعے کے ذمہ دار ہیں۔پوپ نے لیکن ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو اشتعال دلاتے اور بار بار اس کا ارتکاب کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔پوپ امن کے داعی ہیں۔ا نہیں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔لبرل معاشرے میں ایک مذہبی راہنما کی پزیرائی کم ہے لیکن وہ اپنے ماننے والوں کو تو مخاطب بنا سکتے ہیں۔آخر جنس پرستی جیسے مسائل پر بھی انہوں نے لبرل طبقے کی ناراضی کو نظر انداز کیا۔یہ معاملہ تو اس سے سنگین تر ہے جس سے اب انسانی جان و مال کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
چارلی ایبڈو کا تازہ اعلان تہذیبوں کے تصادم کو مہمیز دے گا۔میرا مشورہ ہے کہ پاکستان کی حکومت وزارتِ خارجہ کے توسط سے ،اس معاملے کو اقوامِ عالم کے فورمز پر اٹھائے۔اگر مغرب ہولو کاسٹ کے لیے قانون سازی کر سکتا ہے،انسانی حقوق کے لیے حساس ہو نے کا دعویٰ کرتاہے تو وہ مسلمانوں کے معاملے میں بے حس کیوں ہے۔اسی طرح مسلمانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ایک غیر مسلم سماج میں ان کی اخلاقی ذمہ داریاں کیا ہیں؟اگر ان کے مذہبی جذبات اور قوانین میں تصادم ہو تو انہیں کیا کر نا چاہیے۔آج اگر دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچنا ہے توافراد اور معاشروں کومکالمہ کرنا ہوگا۔ ایک تہذیبوں کے مابین اور ایک خود اپنے حلقوں میں۔