طلاق ان مسائل میں سے ہے، قرآن مجیدنے جنہیں جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس احتمال کے پیشِ نظر کہ اس باب میں افراط و تفریط کے امکانات بہت ہیں،اللہ کی رحمت متقاضی ہوئی کہ اس سفر کے ہر موڑپر انسان کا ہاتھ تھاما جائے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جذبات اور اشتعال کی وادی میں اتر جائے اور یوں اپنا نقصان کر بیٹھے۔یہ نقصان دنیاوی اعتبار سے ہے اور اخروی حوالے سے بھی۔ اس لیے جب سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے اس کا طریقہ کار بیان فرمایا تو ساتھ ہی خبردارکیا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں جن کے بارے میں انسان کو ہمیشہ متنبہ رہنا چاہیے۔''یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کریں گے تو(سمجھ لوکہ)انہوں نے اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھایا‘‘ (الطلاق1:65)
ہمارے سماج میں طلاق کے بارے میں عمومی رویہ ایسا ہے جس کا قرآن مجید کے ان احکامات سے دور کاواسطہ نہیں۔طلاق کا جو طریقہ رائج ہے،وہ قرآن مجید کے بتائے ہوئے طریقے سے متصادم ہے۔بہت ضروری ہے کہ اس حوالے سے سماج کو حساس بنایا جائے تاکہ انسان خود کو تماشا بنائے‘ نہ اللہ کے احکام سے کھلواڑ کرے۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت ہیں۔یہ کم از کم اس بات کا اظہار ضرور ہے کہ یہ کونسل مسلم سماج کو درپیش مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہے؛ تاہم ان سفارشات میں جو کچھ بین السطورمو جود ہے،اسے پڑھنا بھی ضروری ہے۔میں نے یہ کوشش کی ہے۔ میری خواہش ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذمہ داران بھی اس بارے میں غور فرمائیں۔
1۔ کونسل کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت سے براہ راست استنباط کرتے ہوئے، مو جود قوانین پر نظرثانی کرے۔ظاہر ہے کہ وہ اِس باب میں امت کی علمی روایت سے بھی استفادہ کرے گی۔براہ راست استنباط کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے سے قائم شدہ ہر رائے کو رد کر دیا جائے۔اس قابلِ قدر ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے،قرآن مجید کی حاکمیت کو بہر حال پیش نظر رہنا چاہیے۔ان سفارشات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے بارے میں ایسی کوئی مشقت نہیں اٹھائی گئی۔فقہ حنفی کو حاکم مانتے ہوئے،ایک قدیم موقف کو نئے لبادے میں پیش کر دیا گیا۔اہلِ سنت میںاہل حدیث اور احناف کا یہ اختلاف معروف ہے کہ اول الذکر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک مانتے ہیں اورحنفی تین۔کونسل کی سفارش فقہ حنفی کے ماننے والوں کے لیے ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان بھی کر دیا ہے:''اس کا اطلاق ان مسالک پر نہیں ہو گا جن کے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ آئینی طور پر یہ کونسل کسی خاص فقہ کی نہیں،قرآن وسنت کی پابند ہے۔کونسل اگر سمجھتی ہے کہ یہی رائے قرآن وسنت کا منشا ہے تو پھر کسی مسلک کا استثنا کیوں؟اس کے آئینی کردار کا تقاضا ہے وہ جس رائے کو قرآن و سنت کے مطابق سمجھتی ہے،اسے اپنی رائے کے طور پر بیان کردے۔وہ کسی فقہ کے موافق ہوسکتی ہے اور نہیں بھی۔
2۔کونسل کا کہنا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ شریعت اور قابلِ تعزیر جرم ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ طلاق اس کے باوجود واقع ہو جائے گی۔سوال یہ ہے کہ ایک خلافِ شریعت فعل واقع کیسے ہوگا؟اگر طلاق کا تعلق شریعت سے ہے تو اس کے وقوع اورعدمِ وقوع کا فیصلہ بھی شریعت ہی کرے گی۔ سیدنا عمر ؓ نے اگر ایک نشست کی تین طلاقوں کونافذقراردیا تو ایک رائے یہ ہے کہ خلیفہ راشد نے یہ حکم تعزیراً دیاتھا۔کونسل نے یہاں بھی صرف فقہ حنفی کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
3۔ طلاق کے باب میں قرآ ن مجید نے دیگر بہت سی باتوں کا ذکر کیا ہے۔مثلاً طلاق کے گواہ ہونے چاہئیں۔ یا مرد جب خاتون کو رخصت کرے تو بھلے طریقے سے۔کونسل کو اس بارے میں سفارش کرنی چاہیے کہ جو شخص قرآن مجید کے ان احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ بھی خلافِ شریعت ہونے کے باعث قابلِ تعزیر ہے۔ طلاق کے معاملے میںگواہوں کی مو جودگی کتنی اہم ہے،اس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہے جو اس سماج سے کسی حد تک واقف ہے۔ میری تجویز ہے کہ سورہ طلاق کی آیات ایک تاسات کی روشنی میں قوانین بنائے جائیں۔ قرآن نے جن باتوں کا ایجابی طور پر حکم دیاہے،ان کی خلاف ورزی قابلِ تعزیر جرم ہو نا چاہیے۔خود کونسل نے 2008ء میں ایک نکاح کی رجسٹریشن کی طرز پرطلاق کی رجسٹریشن کے لیے ایک فارم تجویزکیا۔میرا خیال ہے کہ اس کی پابندی کو لازم کر دینا چاہیے۔
4۔کونسل کی سفارش ہے کہ ایک خاتون جج بن سکتی ہے مگر اس کی کم از کم عمر چالیس سا ل ہو نی چاہیے۔یہ بات تو خوش آئند ہے کہ کونسل نے خواتین کو اس قابل سمجھا۔ورنہ ایک ناقص العقل اس قابل کہا ںکہ لوگوں کے مابین فیصلے کرا سکے۔ اس سفارش پر سوال یہ ہے کہ چالیس سال کی قید کا ماخذ کیا ہے؟قرآن مجید کی کوئی آیت؟ اللہ کے آخری رسولؐ کا کوئی حکم؟اگر یہ محض استنباط ہے توظاہر ہے کہ اس سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ میری گزارش ہے کہ اگر علماء نے دل کھلا کر ہی دیا ہے تو عمر کی اس قید کو بھی ختم کریں۔ہمارے قانون کے تحت جو ہورہا ہے،اس کی توثیق کردیں۔جج بننے کے لیے ایک قانونی معیار ہے۔جو اس پر پورا اترتا ہے،وہ جج بن سکتا ہے۔ صنف کا امتیاز، اس باب میں بے معنی ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی امام ابو حنیفہ اور کاشانی جیسے فقہائے احناف کو دینا چاہیے کہ انہوں نے خواتین کے لیے یہ گنجائش پیدا کرد ی۔ بطور جملۂ معترضہ عرض ہے کہ یہ اکابر اگر آج ہوتے تومیرا گمان یہ ہے کہ وہ اسی اجتہادی شان کے ساتھ فیصلے دیتے جس طرح انہوں نے اپنے عہد کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے امت کی راہنمائی کی۔کاش ان کے ماننے والے بھی ان کی رائے کے محض ناقل نہ ہوتے،ان کی اجتہادی بصیرت کے وارث بھی ہوتے۔
5۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ احکام کے نفاذ میں مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کا کردار کیا ہے؟جو معاملات منصوص ہیں، ان میں ریاست کی صواب دیدکیا ہے؟نظریاتی کونسل جب کوئی بات کہتی ہے وہ ریاست ہی کی نمائندگی کرتی ہے کہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے جسے نظمِ اجتماعی نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ احکامِ دین کے باب میں حکومت کی راہنمائی کرے۔اس وقت مسلم دنیا کے دوسرے حصوںمیں مختلف عائلی قوانین نافذ ہیں۔اس اختلاف کا سبب زمان ومکان کا اختلاف ہے۔یہ درست ہے کہ منصوص احکام میں اجتہاد نہیں ہوتا۔تاہم ان کی تعبیرِ نوکا باب تو کبھی بند نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ احکام کا نفاذ حالات کے تابع ہو تا ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ ان کا لحاظ کس حد تک رکھا جا سکتا ہے اور اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ علما یا نظم ِاجتماعی؟
مو لانا محمد خان شیرانی کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ ان کے ساتھ دلیل کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔ان کی رسائی محض فقہا کے اقوال تک نہیں،ان میں پوشیدہ اجتہادی روح تک بھی ہے۔ برادرم حافظ طاہر اشرفی صاحب کو عصری تناظر کا شعور ہے۔دیگر ارکان سے میں براہ راست شناسائی نہیں رکھتامگر میرا حسنِ ظن ہے کہ وہ روایت اور دورِ جدید دونوں کاادراک رکھتے ہوں گے۔ ضرورت ہے کہ کونسل اس دور میں امام ابو حنیفہ کے حلقۂ مشاورت کی طرح مسائل پر غور کی طرح ڈالے۔اس کے لیے ترتیب کو بدلنا ناگزیر ہے۔ سب سے پہلے قرآن مجید کہ وہی میزان بھی ہے اور مہیمن بھی۔