علم و آگہی کا ایک چراغ بجھ گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال رخصت ہوئے۔ صحن وطن میں فکرِ تازہ کی مہک جن کے دم سے ہے، وہ اُن میں سے ایک گلِ سرسبد تھے۔ وہ شخصیات اب انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہیں‘ جنہوں نے مسلم سماج میں روایت اور جدت کو گلے ملتے دیکھا۔ وہ ان میں سے تھے جنہیں اگر اس وصال کے لذت کا احساس تھا‘ تو اس کے مسائل کا ادراک بھی۔
میں بارہا اُن سے ملا۔ اس کی تقریب، اکثر ایک نجی ٹی وی چینل نے پیدا کی۔ یہاں سے میں نے پانچ سال ایک علمی و فکری پروگرام کی میزبانی کی۔ یہ پروگرام لاہور میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ ملک میں ایسے لوگ بہت کم تھے جو اس میں شرکت کا استحقاق رکھتے تھے۔ جس سطح کے مباحث اس پروگرام میں چھیڑے جاتے تھے، ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے لوگ ہی اس کے سزاوار تھے کہ اس میں شریک ہوں۔ ان جیسے کتنے تھے؟ یوں ہم انہیں بار بار زحمت دیتے۔ چونکہ موضوعات اُن کی دلچسپی کے ہوتے، اس لیے وہ شوق سے تشریف لاتے۔ اس طرح، پروگرام سے پہلے یا بعد بھی، ان سے طویل تشستیں رہتیں۔ ان ملاقاتوں میں، جہاں ان سے بہت سیکھا وہاں ان کے بارے میں جاننے کا موقع بھی ملا۔
ان کی شخصیت میں ایک بھولا پن اور معصومیت تھی۔ عمر میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا گیا، یہ پہلو مزید نکھرتا چلا گیا۔ جسٹس ناصرہ اقبال سے ایک بار میں نے ان کے معمولات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک بات یہ بتائی کہ کارٹون بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ اکثر رات کارٹون دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں۔ جسٹس صاحبہ ان کے بارے میں بہت فکرمند رہتیں۔ وہ پروگرام کے لیے آتے تو بارہا فون پر پوچھتیں کہ انہوں نے کیا کھایا، کہیں معمولات سے ہٹ کر کچھ کھا پی نہ لیں۔ ٹی وی کی ضرورت تھی کہ شرکا کا ہلکا سا میک اپ کیا جائے۔ ایک بار میک اپ روم سے مسکراتے ہوئے نکلے اور ازراہ تفنن کہا: ہفتے میں ایک بار تو یہاں آنا چاہیے۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک منفرد شخصیت تھی۔ ایک روایتی مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی اور پھر مغرب کے بہترین تعلیمی ادارے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس طرح دونوں روایات کو قریب سے دیکھا۔ پھر یہ کہ وہ ایک ایسے عہد میں موجود تھے‘ جس میں مسلم سماج فکری تبدیلی کے ایک مشکل عمل سے گزر رہا تھا۔ یہ تبدیلی زیادہ تر سیاسی اداروں کی تشکیل پر نظر انداز ہو رہی تھی۔ جدید قومی ریاست وجود میں آ چکی تھی۔ نئے سیاسی نظام تشکیل پا رہے تھے۔ مسلمانوں کے لیے ایک اہم سوال یہ تھا کہ وہ اسلام کو کس طرح اس عہد سے ہم آہنگ بنائیں۔ ایک طرف وطن اور نظریے کی بحث تھی اور دوسری طرف اسلام کو نظاموں کے پیرائے میں بیان کرنے کا چیلنج تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی ان مباحث سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ پی ایچ ڈی کے مقالے سے لے کر بعد کی تحقیقات تک، انہوں نے زیادہ تر اسلام کے تصور ریاست و حکومت ہی کو موضوع بنایا۔
اقبالیات کے ادب میں بھی انہوں نے گراں قدر اضافہ کیا۔ 'زندہ رود‘ آج تک اقبال کی سب سے مستند سوانح ہے۔ تفہیمِ اقبال کے باب میں بھی انہوں نے وقیع کام کیا۔ خطبات سے لے کر اقبال کی شاعری تک، انہوں نے اقبال کے پورے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے، ان کا افکار کو سمجھا اور انہیں بیان کیا۔ اُن کے فہم سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کی علمی قدر و منزلت سے انکار ممکن نہیں۔ ادب بھی ان کا موضوع رہا۔ انہوں نے ڈرامے لکھے اور اداکاری بھی کی۔ برادرِ محترم سہیل عمر صاحب اور طاہر حمید تنولی صاحب نے 'مقالاتِ اقبال‘ کے نام سے ان کے افکار کا جو مجموعہ مرتب کیا، اس میں ان کی دلچسپی کے ان تینوں میدانوں کے بارے میں، ان کے وقیع مضامین مل جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کچھ وقت 'پسرِِ اقبال‘ کے حصار میں رہے۔ ان کی انفرادی شناخت کے ابھرنے میں یہ تاثر مانع رہا۔ انہیں اس کا احساس بھی تھا لیکن پھر ان کے علمی کام کے باعث، وہ وقت آیا کہ انہیں ان کی اپنی شخصیت کے حوالے سے دیکھا جانے لگا۔ یوں وہ ایک معتبر صاحبِ فکر کے طور پر جانے گئے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ انہوں نے فکرِ اقبال کی تفہیم میں جن پہلوئوں کی طرف اہلِ علم کو متوجہ کیا، ان پر کم توجہ دی گئی ہے۔ شاید دانستہ گریز کیا گیا کیونکہ اس سے اندیشہ تھا کہ اقبال کا وہ عمومی تاثر مجروح ہو سکتا ہے جو انہیں محبوب بنائے ہوئے ہے۔ ''افکارِ اقبال‘‘ کے پیش لفظ میں انہوں نے ان موضوعات کی ایک فہرست دی ہے جو ان کے خیال میں اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کی تحقیق کا مرکز بننے چاہئیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اقبال کی نثر کو شاعری سے زیادہ توجہ کا مستحق سمجھتے تھے۔ انہوں نے فکرِ اقبال سے اختلاف بھی کیا ہے اور وہ سوالات اٹھائے‘ جو ان کے نزدیک ابہام پیدا کرتے ہیں۔ ''اپنا گریباں چاک‘‘ میں انہوں نے ''حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے نام دوسرا خط‘‘ لکھا ہے۔ ابتدا میں وہ لکھتے ہیں: ''میں نے تقریباً سات سال کی عمر میں اپنے والد کو پہلا خط لکھا تھا جب انہیں انگلستان سے گراموفون باجا لانے کی فرمائش کی تھی۔ اتنی مدت گزر جانے کے بعد اب انہیں دوسرا خط تحریرکر رہا ہوں۔ اس مرتبہ وہ اگلے جہاں میں ہیں اور مجھے اپنے قومی تشخص اور ''اسلامی‘‘ ریاست کے بارے میں ان سے راہنمائی لینا مقصود ہے‘‘۔ میرا طالب علمانہ احساس ہے کہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کو لازماً یہ خط پڑھنا چاہیے۔ یہ سوالات ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جاوید اقبال ویسے نہیں بن سکے جیسے اقبال انہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ شاید ویسا بننا بھی نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک جگہ اپنے خاندانی بزرگوں کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے، اقبال، شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کے مزار پر گئے اور وہاں ایک بیٹے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اقبال مجھے سرہند، حضرت مجدد کے مزار پر لے گئے۔ ''اس سفر کے دھندلے سے تصورات میری نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔ میں ان کے ہمراہ مزار میں داخل ہوا تھا۔ گنبد کے تیرہ و تار مگر پُروقار ماحول نے مجھ پر ایک ہیبت سی طاری کر دی تھی۔ میں پھٹی پھٹی سی نگاہوں سے اپنے چاروں طرف گھور رہا تھا‘ جیسے میں اس مقام کے خاموش ویرانے سے کچھ کچھ مانوس ہوں۔ ابا جان نے وہاں مجھے اپنے قریب بٹھایا۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کا ایک سپارہ منگوایا اور اسے دیر تک پڑھتے رہے۔ اُس وقت ہم دونوں ہی مقبرے میں موجود تھے۔ گنبد کی تاریک فضا میں ان کی آواز کی گونج ایک ہیبت ناک ارتعاش پیدا کر رہی تھی، میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔ خیر، دو ایک روز وہاں ٹھہرنے کے بعد، ہم گھر واپس آ گئے مگر مجھ پر اس راز کا انکشاف نہ ہوا کہ آخر اس مزار پر مجھے لے جانے کا کیا مقصد تھا اور وہ آنسو کیوں؟ مجھے یاد ہے، میں بچپن میں اکثر یہی سوچا کرتا تھا‘‘۔
جاوید اقبال پر یہ منکشف نہ ہو سکا کہ اقبال انہیں مزارِ شیخ پر کیوں لے گئے۔ اسی لیے وہ ویسے نہ بن سکے جیسا اقبال چاہتے تھے۔ اقبال نے ان سے کہا: ''تمہاری طبیعت میں امارت کی بو ہے۔ اگر تم نے اپنے یہ انداز نہ چھوڑے تو میں تمہیں کھدر کے کپڑے پہنا دوں گا‘‘۔ ایک مرتبہ قمیص کا ایک کپڑا واپس کر دیا کہ ایک روپیہ گز تھا‘ اور جاویدکو بارہ آنے سے مہنگا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی؛ تاہم انہوں نے اپنے والد کی ایک خواہش ضرور پوری کر دی۔ اپنی زندگی کی آخری شب اقبال بستر پر دراز تھے۔ موت کی آہٹ اقبال سمیت سب کو سنائی دے رہی تھی۔ اقبال کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ اس شب جاوید کمرے میں داخل ہوئے۔ اقبال نے پوچھا: کون؟ جواب ملا: میں جاوید ہوں۔ اقبال ہنس پڑے۔ فرمایا: ''جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں‘‘۔ ہم گواہ ہیں کہ انہوں نے جاوید بن کر دکھا دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے۔