"KNC" (space) message & send to 7575

’سٹیٹس کو‘

کیا ہم جانتے ہیں کہ 'سٹیٹس کو‘بنیادی طور پرسیاسی نہیںایک سماجی عمل ہے؟
'سٹیٹس کو‘ سے مرادایسی کیفیت ہے جو مدت سے تبدیل نہ ہوئی ہو۔اس اصطلاح کے منفی معانی غالب ہیں‘مراد وہ سماجی قوتیں ہیں جو تبدیلی کی راہ میں حائل ہیں۔سیاسی عمل بھی جب جامد ہو جائے اورتبدیلی کا عمل رک جائے تواسے بھی سٹیٹس کو سے موسوم کیا جاتا ہے۔بعض اہلِ سیاست دعویٰ کرتے ہیں کہ سٹیٹس کو کا خاتمہ ان کی منزل ہے۔عوام کاایک طبقہ بھی یہ خیال کر تا ہے کہ وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں اور یوں ان کے ساتھ ہم قدم ہو جا تا ہے۔وہ یہ نہیں جانتے کہ سیاسی عمل سماجی حقائق کے تابع ہو تا ہے۔جب تک سماجی سطح پر سٹیٹس کو موجود ہے، سیاسی عمل سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہو گا۔ 
انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کی سماجی تشکیل میں تین عوامل کا کردار بنیادی ہے۔ایک عامل مادی ہے۔اس کے مادی وجودکی بقا کے لیے،اسے کچھ وسائل کی ضرورت رہی ہے جن میں خوراک ،لباس اوررہائش بنیادی ہیں۔غلبے کی جبلی خواہش کے پیش ِ نظر ایک طبقہ ایسا پیداہوا جس نے ان وسائل پر قبضہ جمایا اوریوں انسانوں کو اپنا دست نگر بنایا۔زرعی معاشرت میں چونکہ ان وسائل کا تعلق زرعی اراضی سے تھا،اس لیے لوگوں نے ایسے زمینوں پر قبضہ کیا جو زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی تھیں۔اس سے جاگیر داروں کا طبقہ پیدا ہوا۔
سیاسی تنظیم بھی سماج کی بنیادی ضرورت ٹھہری۔دوسروں کی تاخت سے بچنے کے لیے لوگوں نے منظم ہونا شروع کیا تو سیاسی قیادت کامنصب پیدا ہوا۔اس کے نتیجے میں بادشاہت کا ادارہ وجود میںآیاجوموروثی اصول پر منظم ہوا۔یوںسیاسی قیادت ایک خاندان تک محدود ہو گئی۔سیاسی قیادت بھی لوگوں پر تسلط قائم کر نے کا ایک موثر ذریعہ تھا،اس لیے لوگوں نے بادشاہت کو بھی بطور ادارہ منظم اور مضبوط بنایا۔
تیسرا عامل مابعد الطبیعیاتی ہے۔انسان نے ابتدا ہی سے خود کو صرف مادی وجود نہیں سمجھا۔اسے ہمیشہ یہ ادراک رہا کہ انسان جسم سے بڑھ کر بھی کچھ ہے۔اس کا ایک وجود اس کے سوا بھی ہے۔اسے آپ روحانی کہہ لیں، نفسیاتی قرار دیں یا مذہبی۔مادی وجود کی طرح، اس وجود کی زندگی اور بقا کے بھی کچھ مطالبات ہیں۔مذہب انہی مطالبات کا جواب ہے۔اس مطالبے نے مذہبی طبقے کو وجود بخشا۔ انسان نے اپنی روحانی ضروریات کے لیے اس طبقے سے رجوع کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ تینوں طبقات منظم ہوئے اور انہوں نے انسانوں کو اپنا غلام بنا لیا۔یہ طبقے قوت کے مرکز بن گئے۔عام آ دمی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ رہا کہ وہ اپنی سیاسی، مذہبی اور معاشی خود مختاری کو ، محض بقا کے لیے،ان کے ہاتھوں میں رہن رکھوا دے۔اسے دو وقت کی روٹی اسی وقت مل سکتی تھی اگر وہ جاگیر دار کا مزارع بن جائے۔اس کا کام یہ ہے کہ وہ جاگیر دار کے لیے اناج کے ذخائرمیں اضافہ کرتا رہے۔مذہبی طبقے نے انسان کو خوف میں مبتلا کیااور اسے سکھایا کہ اس پر بیماریاں اور مسائل اس وقت حملہ آور ہوتے ہیں جب دیویاں اور دیوتا اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔اگر انہیں خوش رکھنا ہے تو اہلِ مذہب کے آستانوں پر چڑھاوے دو۔اسی طرح بادشاہوں نے ا سے باور کرایا کہ ہماری اطاعت نہ کی تو خارجی دشمنوں کا ہدف بن جا ؤ گے یا پھر بادشاہوں کی حکم عدولی کے نتیجے میں سزا کے مستحق ٹھہرو گے۔انبیا نے انسانوں کو مذہبی جبر سے نکالا۔بندے اور رب کا براہ راست تعلق قائم کیا۔قرآن مجید نے فتنے یعنی مذہبی جبر کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔تاہم انسان اہلِ مذہب کی غلامی سے نجات نہ پا سکا۔آج بھی ان کا قیدی ہے۔
اس طرح ان تین قوتوں نے مل کر انسان کو غلام بنا لیا۔ان طبقات کے درمیان ایک اتحاد وجود میں آیااور یوں انسانوں کی معاشی، سیاسی اور مذہبی غلامی کا ایک تکلیف دہ دور شروع ہوا۔یہ عمل یورپ میں ہوا اور دوسرے خطوں میں بھی۔یورپ میں اس کے خلاف تحریک اٹھی اور اس اصول کو قبول کیا گیا کہ انسان فطرتاً آزاد ہے۔اسے غلام نہیں بنایا جا سکتا۔وہاں 'سٹیٹس کو‘ کی ان تینوں علامتوں کے خلاف بغاوت ہوئی۔پہلے فکری ونظری اور پھر سیاسی و معاشی۔یورپ میںایک دور ایساآیا جب معاشرہ زرعی سے صنعتی دور میں داخل ہوا۔اب جاگیردار کی جگہ سرمایہ دار نے لے لی۔اشتراکیت کی تحریک میں یہ ادارہ ہدف بنا جس نے معاشی استحصال کو نیا رنگ دیا۔
مغرب میں اس سٹیٹس کو کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی۔انسانوں کی سیاسی،معاشی اور مذہبی آزادی کو بطور قدر قبول کر لیا گیا۔اب بادشاہت کی جگہ جمہوریت، سرمایہ دارانہ استحصال کی جگہ فلاحی ریاست اور پاپائیت کی جگہ سیکولرزم نے لے لی۔وہاں تبدیلی کا یہ دائرہ مکمل ہو گیا۔ہم یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ہوگیا۔ سرمایہ دار نے نئے حیلے اختیارکر لیے۔معاشی استحصال کی نئی صورتیں تلاش کر لی گئیں۔ تاہم ظلم کا وہ دور تمام ہوا جو سٹیٹس کوسے پیدا ہوا تھا۔اب یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جائے اور اس کی بے بسی کا تماشا دیکھا جائے۔اہلِ سیاست دوسری اقوام کے ساتھ تو ایسا کر تے ہیں مگر اپنے شہریوں کے ساتھ نہیں۔
پاکستان بننے کے بعد جب ہماری تاریخ کا نیا دور شروع ہوا،تو سٹیٹس کو کی یہ قوتیں موجود تھیں۔ہم نے ان کو ہدف نہیں بنایا۔اس کے نتیجے میں یہ مضبوط تر ہوگئیں اور انہوں نے جدید نظام میں بھی اپنی جگہ بنالی۔جاگیر دار ،سرمایہ دار اور مذہبی پیشوا سیاست دان بن گیا۔پیرجاگیر دار بھی بن گیا۔جاگیر دار نے اپنے کارخانے بھی لگالیے۔سٹیٹس کو کی
تینوں علامتوں نے نئے سیاسی نظام کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔ یہ تینوں طبقات بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سیاسی جماعت کے ہاتھ میں اقتدار آئے گا،یہی طبقات حکمران رہیں گے۔ن لیگ کی قیادت براہ راست سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے۔تحریک انصاف کا وائس چیرمین پاکستانی سیاست کی واحدشخصیت ہے جو پیری، جاگیرداری اور روایتی سیاست کا تنہا نمائندہ ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ 
یہ طبقات سیاسی طور پر غالب کیوں ہیں؟اس وجہ سے کہ ہم نے سماجی سطح پر 'سٹیٹس کو‘ کو ختم کر نے کے لیے کوئی جدو جہد نہیں کی۔جب تک معاشرے میں جاگیر دار، روایتی پیر و مذہبی پیشوا اور موروثی سیاست کے علم بردار موجود ہیں،سٹیٹس کو ختم نہیں ہو سکتا۔ ا ن کا خاتمہ کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں، سماجی تبدیلی سے ہو گا۔سماجی تبدیلی کا آغازشعوری تبدیلی سے ہوتا ہے۔جب لوگ اس بات کو جان لیں گے کہ اصل مسئلہ کیاہے،اس کے بعد ہی سٹیٹس کو کے ٹوٹنے کا امکان پیدا ہو گا۔ یورپ میں اسی طرح سٹیٹس کو ختم ہوا۔
آغازاس اعتراف سے ہوگا کہ جب تک سٹیٹس کو کے نمائندوں کا سیاست پر غلبہ ہے، اس کا خاتمہ محض سیاسی تبدیلی سے نہیں ہوگا۔اس کے بعد شعوری سطح پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو یہ معلوم ہو کہ سٹیٹس کو کی نمائندہ قوتیں کون سی ہیں اور انہیں کیسے ختم کیا جا سکتا یا ان کے کردار کی تشکیلِ نو کیسے ممکن ہے۔اس کے ساتھ ہمیں جمہوری کلچر کو مضبوط کرنا ہے کیونکہ اس کے علاوہ ان قوتوں کو کمزور کرنے کی کوئی صورت نہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ شعوری بیداری کی ایک لہر اٹھ چکی ہے۔اگرچہ اس پر 'ٹروتھ‘ سے زیادہ 'پوسٹ ٹروتھ‘ کا غلبہ ہے۔سادہ لفظوں میں جھوٹی باتوں کوسچائی کے نام پرفروغ مل رہا ہے۔جیسے سٹیٹس کو کی نمائندہ قوتوں نے عوام کے ایک طبقے کوباور کرا دیا ہے کہ وہ سٹیٹس کو کو ختم کر یں گی۔ تاہم امید کی جا نی چاہیے کہ عام لوگوں میں جلد سچ جھوٹ کی بھی تمیز پیدا ہوجائے گی۔اگر بات کہنے کا موقع باقی ہے تو پھر سچ بھی خود کو منوا لے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں