بیس سال پہلے، پاکستان کے عوام نے آخری بار مارشل لا کے قدموں کی چاپ سنی تھی۔
گیارہ سال سے ہم جمہوریت کے زیرِ سایہ زندہ ہیں۔ ہمارے عسکری ادارے سیاست سے دور، سرحدوں کی حفاظت کے لیے یک سو ہیں۔ نئی نسل‘ جس نے گزشتہ ایک عشرے میں شعور کی آنکھ کھولی ہے اور جمہوریت کی برکات سے فیض یاب ہو رہی ہے، نہیں جانتی کہ مارشل لا کیا ہوتا ہے۔ اس نسل کی سیاسی تربیت ہماری نسل کی ذمہ داری ہے۔ جسے یہ نہیں معلوم کہ مارشل لا کیا ہوتا ہے، وہ جمہوریت کی اہمیت کیا سمجھے گا؟ اندھیرے کو جانے بغیر، آپ روشنی کے قدر شناس نہیں ہو سکتے۔
یہ کالم اسی نسل کے لیے لکھا گیا ہے؛ تاہم میری نسل کے لوگ بھی اگر چاہیں تو اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ان اداروں اور افراد کا شکر بجا لانے کے لیے جنہوں نے انہیں اس جمہوریت کا تحفہ دیا۔ اب میں نکات کی صورت میں یہ بتاؤں گا کہ مارشل لا کیا ہوتا ہے۔
1۔ فوج جب کسی ملک کا اقتدار سنبھال لیتی ہے تو اسے مارشل لا کہا جاتا ہے۔ جمہوریت میں سیاست دان ریاستی امور کے نگہبان و منتظم ہوتے ہیں۔ مارشل لا میں فوج۔ جمہوریت میں وزیر اعظم سربراہِ حکومت ہوتا ہے، مارشل لا میں چیف آف آرمی سٹاف۔ اس منصب کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کہا جاتا ہے‘ جیسے جنرل ضیاالحق۔
2۔ مارشل لا نافذ ہوتا ہے تو آئین اور بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں۔ جیسے نقل و حرکت یا اظہارِ رائے کی آزادی، شہریوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ آئین ان کا تحفظ کرتا ہے اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز کوئی شخص بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی شہری کو ان حقوق سے محروم کر دے۔ مارشل لا میں آئین کے تعطل کے بعد، ہر شہری ان حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ حکومت جسے چاہے گرفتار کر سکتی ہے۔ کسی عدالت میں اس کا یہ حق چیلنج نہیں ہو سکتا۔
3۔ مارشل لا میں ملک کو ایک پی آر او کے تحت چلایا جاتا ہے جو آرمی چیف جاری کرتا ہے۔ یہ آئین کا متبادل ہوتا ہے۔ آئین ایک عمرانی معاہدے کو کہتے ہیں جس میں ریاست اور عوام دو فریق ہوتے ہیں۔ پی آر او میں صرف ایک فریق ہوتا ہے: ریاست۔ اس میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ریاست عوام سے بہتر سمجھتی ہے کہ ان کے مفادات کا کیسے تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
4۔ مارشل لا میں لوگ داد رسی کے لیے آرمی چیف کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تاجر مشکلات کا شکار ہوں تو ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے راستے نکالیں۔ علما سرپرستی کے لیے آرمی چیف کی طرف دیکھتے ہیں تاکہ مدارس اور دینی اداروں کے مسائل حل کیے جا سکیں۔ پھر آرمی چیف وزارتوں کو احکام جاری کرتے ہیں کہ وہ تاجر، علما اور دوسرے طبقات کو شکایت کا موقع نہ دیں۔
5۔ مارشل لا اس وقت نافذ ہوتا ہے جب فوجی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اہلِ سیاست ملک چلانے کے قابل نہیں رہے اور اگر معاملات مزید ان کے ہاتھ میں رہے تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گویا فوج بادلِ نخواستہ یہ قدم اٹھاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فوج کچھ وقت کے بعد، اپنے خیال کے مطابق اہلِ سیاست میں سے نیک اور دیانت دار سیاست دانوں کا انتخاب کرتی ہے اور ریاستی معاملات ان کے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔ کرپٹ اور نا اہل سیاست دانوں کو عدالت کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ عدالت قانون کے مطابق مجرم سیاست دانوں کو پھانسی کا حکم سنا دیتی ہے یا انہیں جیل بھیج دیتی ہے۔ یوں سیاست کی تطہیر ہو جاتی ہے اور ملک کو صاف ستھری اور اجلی قیادت بھی میسر آ جاتی ہے۔
6۔ سیاسی عمل کی تطہیر چونکہ تسلسل کا تقاضا کرتی ہے، اس لیے آرمی چیف کو اس کے لیے کبھی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنا پڑتی ہے اور کبھی صدر جیسے آئینی منصب کا سہارا لینا پڑتا ہے‘ جیسے ضیاالحق صاحب کو کرنا پڑا یا جنرل مشرف صاحب کو۔ عدالتیں اگر اسے جائز مان لیں تو مارشل لا کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ نئی نسل شاید اس کی حکمت کو نہ سمجھ سکے کہ ایک غیر آئینی اقدام کو آئینی تحفظ کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ ان نوجوانوں کو میرا مشورہ ہو گا کہ اس سوال کے جواب کے لیے وہ اس وقت کا انتظار کریں جب ان کی عمر چالیس سال ہو جائے۔ اس سے کم عمر میں وہ ذہنی بلوغت نصیب نہیں ہو سکتی جس سے ایسے فیصلوں کی تفہیم ممکن ہو۔
7۔ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی، مارشل لا کی ترجیحات میں شامل ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جرائم کا قلع قمع ہو گیا ہے اور عوام سکھ کا سانس لینے لگے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ کرپٹ سیاست دانوں سے نجات ہے۔ یوں مارشل کے خاتمے کے بعد بھی طویل عرصہ معاشرہ اس انصاف کے اثرات سے نکل نہیں پاتا۔
نئی نسل کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آج صورتِ حال بدل چکی۔ ملک میں جمہوریت ہے اور قوم پوری طرح اس کی برکات سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ آج ملک کے معاملات منتخب قیادت کے ہاتھ میں ہیں۔ وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ سب ادارے ان کے ماتحت ہیں اور کسی میں مجال نہیں کہ ان کی حکم عدولی کرے۔ وہ جب چاہیں کسی کو وزیر بنا دیں اور جب چاہیں ہٹا دیں۔ معیشت، مدارس، سب معاملات پر سول قیادت کا مکمل کنٹرول ہے۔
فوج کی قیادت ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے یکسو ہے۔ وہ سیاست میں نہیں الجھتی۔ حکومت جانے اور تاجر۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی یہ ہمت نہیں کہ ہماری طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ ایک دفعہ اس نے یہ حرکت کی جب اس کے طیاروں نے ادھر کا رخ کیا۔ آج تک اپنے زخموں کو چاٹ رہا ہے۔ فوج اور سول انتظامیہ میں مثالی ہم آہنگی ہے۔ سب اپنا اپنا کام آئین کے دائرے میں رہ کر رہے ہیں۔
ملک میں رائے کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں جیسے مارشل لا میں ہوتا ہے۔ آپ جب چاہیں مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بنائیں اور جب چاہیں نواز شریف کی کرپشن کو بے نقاب کریں۔ کسی میں جرأت نہیں کہ آپ کا قلم اور زبان روک سکے۔ اسی طرح طاقت ور آج قانون کے سامنے بے بس ہیں اور ملک میں انصاف کا بول بالا ہے۔ اخبارات، ٹی وی پھل پھول رہے ہیں اور سب کو اپنی بات کہنے کی مکمل آزادی میسر ہے۔
اس کالم سے نئی نسل کو یقیناً اندازہ ہو گیا ہو گا کہ مارشل لا کیا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ بادلِ نخواستہ بارہا یہ قدم اٹھایا گیا لیکن گزشتہ بیس سال سے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اب جمہوریت جڑ پکڑ چکی ہے۔ ادارے مضبوط ہیں۔ ریاستی ادارے بغیر کسی مداخلت کے، ایک طرف کرپٹ سیاست دانوں کو سزا دے رہے ہیں اور دوسری طرف معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں۔
کچھ لوگ اب بھی شور مچانے سے باز نہیں آتے اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے لیے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دراصل کرپٹ سیاست دانوں کے نمک خوار ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پرانا دور لوٹ آئے جب کرپشن کے پیسے سے ان کی جیبیں بھری جاتی تھیں تاکہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کے گیت لکھتے اور گاتے رہیں۔ ان کو وہ یادیں ستاتی ہیں جب یہ حکمرانوں کے ساتھ غیر ملکی دورے کرتے تھے۔ اب یہ عیاشی ختم ہو چکی۔ وزیر اعظم صاحب عام پرواز سے سفر کرتے اور کسی صحافی کو ساتھ نہیں لے جاتے۔ ایسے چند نا قابلِ ذکر عناصر کے شور پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔
مجھے امید ہے کہ اس کالم سے نئی نسل کے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہو گا۔ وہ جمہوریت اور مارشل کا فرق اچھی طرح جان گئی ہو گی اور اس کے دل میں اِس دور کے لیے بے پناہ ہمدردی پیدا ہوئی ہو گی جب عوام جمہوریت کی برکات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آج دور دور تک مارشل کا کوئی امکان نہیں کیونکہ 'سب ایک پیج پر ہیں‘ اور عامۃ الناس کی فلاح و بہبود کے لیے یکسو ہیں۔