پاکستان میرا وطن ہے یا میرا ملک؟ پاکستان کے ساتھ میرا تعلق فطری ہے یا مفاداتی؟ وطن اور ملک میں کیا فرق ہوتا ہے؟
ذیشان ہاشم ہمارے بہت ہونہار دانشور ہیں۔ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں پولیٹیکل اکانومی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ جدید ریاست اوراس سے متعلق نظریات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ چند روز پہلے ان کی ایک مختصر تحریر نظر سے گزری تو وطن اور ریاست کی اس تقسیم کی طرف بطور خاص توجہ مبذول ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ کتنے اہم مباحث ہیں جنہیں ہم نظرانداز کر دیتے ہیں یا ان کے معاملے میں غلط مفروضوں پر کھڑے رہتے ہیں۔ اپنی اس کج فکری کے باعث ہم کبھی درست حکمتِ عملی نہیں بنا سکتے۔ ان میں سے ایک ریاست کے ساتھ ہمارا تعلق بھی ہے۔
وطن سے میرا تعلق فطری ہے‘ ریاست سے مفاداتی۔ وطن کا انتخاب میں نہیں کرتا‘ قدرت کرتی ہے۔ ریاست کا انتخاب میں خود کرتا ہوں۔ وطن سے میرا رشتہ اس دن وجود میں آجاتا ہے‘ جس دن میں اس دنیا میں قدم رکھتا ہوں۔ ریاست سے میرا تعلق اس دن قائم ہوتا ہے جب میں شعوری طورپر اس کی شہریت کو قبول کرتا ہوں۔ وطن سے میری محبت غیرمشروط اور یکطرفہ ہے۔ ریاست سے مشروط ہے اور دوطرفہ۔ دنیا کا کوئی قانون وطن سے میرا رشتہ ختم نہیں ہو سکتا۔ ریاست سے میرا تعلق کسی وقت بھی ختم ہو سکتا ہے۔
جدید ریاست ہم جانتے ہیں کہ ارتقائی عمل کاایک نتیجہ ہے۔ اس کی عمر بھی زیادہ نہیں۔ سلطنتوں کا دور تمام ہواتو قومی ریاستیں وجود میں آئیں۔ سیاسیات کی زبان میں 'قوم‘ ایک ایسے گروہ کو کہتے ہیں جس کے تمام افراد کسی ایک شناخت کواپنی اجتماعی پہچان کی بنیاد مان لیں۔ یہ رنگ‘ نسل‘ جغرافیہ اور مذہب سمیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ جب ایک گروہ کسی ایسی شناخت پر اتفاق کرلیتا ہے توافراد کی دوسری شناختیں ختم نہیں ہو جاتیں‘ لیکن سیاسی مفہوم میں اجتماعی شناخت کے تابع ہوجاتی ہیں۔
جدید ریاست‘ افراد اور سیاسی نظم کے مابین ایک معاہدے سے وجود میں آتی ہے۔ اس میں ریاست کے حقوق و فرائض طے ہوتے ہیں اورفرد کے بھی۔ دونوں معاہدے کی پاسداری کے پابند ہوتے ہیں۔ دونوں کے مفادات متصادم ہو جائیں تواس معاہدے کے تحت وجود میں آنے والی عدالت کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے۔
انسان کا معاملہ مگر یہ ہے کہ کوئی رشتہ اور تعلق اگر صرف قانونی یا سماجی دائرے میں مقیدرہے تو کمزور شمار ہوتا ہے۔ اس کی مضبوطی کی ضمانت اسی وقت ملتی ہے جب وہ قلبی تعلق میں بدل جائے۔ جو تعلق اصلاً فطری ہے‘ اس کو جب ہم قانونی صورت دیتے ہیں تویہ ختم کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں جذبات شامل ہوجاتے ہیں جو اس کے ٹوٹنے کے امکانات تو کم کردیتے ہیں جیسے نکاح۔ اس کی اساس مرد اور عورت میں پائے جانے والی فطری محبت ہے‘ نکاح اس کی قانونی تجسیم۔
ریاست اور شہری کے تعلق کی بنیاد مفاداتی ہے۔ ریاست کی ضرورت ہی اس وقت پیدا ہوئی جب انسان کو جان و مال کے تحفظ کی ضرورت پیش آئی۔ ریاست کی مضبوطی کے لیے اس تعلق کوکوئی جذباتی رخ دینا ضروری تھا۔ قومیت کا تصور اسی لیے وجود میں آیا۔ ریاستی قومیت کو اسی لیے ایک رومانوی رنگ دیاگیا۔ لوگوں کوابھارا گیاکہ ریاست کیلئے جان دینا گویاانسانی عظمت کی ایک بڑی نشانی ہے۔
جہاں وطن اور ریاست ایک ہیں‘ وہاں تواس تصورِ قومیت کوقبول کیاجا سکتا ہے لیکن جہاں ایک نہیں ہیں‘ وہاں محض جذباتی تنفس سے اس رشتہ کو قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے اگر ریاست شہری کے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ انسان وطن سے کوئی مطالبہ نہیں کرتا لیکن ریاست سے مطالبہ کرتاہے اوراگر پورا نہ ہوتو شکوہ بھی کرتا ہے۔بہت سے پاکستانی امریکہ کے شہری ہیں۔ امریکہ ان کی ریاست ہے‘ وطن نہیں۔ وہ امریکہ کو ٹیکس دیتے ہیں اور بدلے میں مراعات پاتے ہیں۔ نہیں ملتی تو شکایت کرتے ہیں۔ کل پاکستان لوٹ جائیں گے تو امریکہ ان کیلئے ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ یہی حال ان سب کا ہے جو باہر سے جاکر امریکہ میں آباد ہوتے ہیں۔ جدید ریاست موروثی یا آبائی تعلق کو نہیں مانتی۔ اس نے شہریت کاایک معیار اور قانون بنادیا ہے۔ جواس پر پورا اترے‘ اس کا شہری بن جاتا ہے۔
پاکستان 1947ء سے پہلے اپنا وجود نہیں رکھتاتھا۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان 14اگست 1947ء کو قائم ہوا۔ متعین تاریخوں کے ساتھ اور کوشش سے وطن نہیں‘ ملک وجود میں آتے ہیں۔ ہم نے اس کا مقدمہ بھی مفاداتی اصول پر اٹھایاکہ برصغیر میں جو لوگ اسلام کواپنی اجتماعی شناخت مانتے ہیں‘ ان کے سیاسی و تہذیبی مفادات‘ متحدہ ہندوستان میں محفوظ نہیں۔ پاکستان ایک ریاست تھا‘ ہم نے چاہاکہ سب اسے اپنا وطن مان لیں۔ اب جو یوپی سے ہجرت کرکے آیا‘ پاکستان سندھ یاپنجاب‘ اس کا وطن کیسے بن سکتے ہیں؟
پاکستان اوراس میں رہنے والوں کے باہمی تعلق کو ہمیں ریاست اوراس کے شہریوں کے باہمی تعلق کی روشنی میں سمجھنا ہوگا اگر ہم پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ریاست شہریوں کے ساتھ اس معاہدے کی پاسداری کرے جو آئینِ پاکستان کہلاتا ہے۔ ریاست نے وعدہ کیا ہے کہ وہ عام شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ ان کے جان و مال‘ عزت وآبروکی حفاظت کرے گی۔جس ملک میں حکمران طبقہ صبح شام لوگوں کو چور ڈاکو کہ کر پکارے۔ جہاں جب حکومت چاہے لوگوں کوگرفتار کرلے۔ جہاں سیاسی مخالفین کو اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کا حق نہ ہو۔ جہاں زندگی کوکوئی تحفظ نہ ہو۔ جہاں مذہبی جنونیت قتلِ عام کا ارتکاب کرے اور ریاست اس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائے بلکہ قاتلوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کا ساتھ دیتی نظرآئے‘ وہاں مصنوعی حب الوطنی اور قومی مفاد کے نام پرفرد اور ریاست کا رشتہ قائم نہیں رہ سکتا۔
پاکستان کے پالیسی ساز آج تک وطن اور ریاست کے باہمی تعلق کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکے۔ ماڈل ریاست کا ہے لیکن شہریوں سے توقع ہے کہ وہ ریاست سے وطن کی طرح غیرمشروط محبت کریں۔ ان کے حقوق پامال ہوں تو اُف تک نہ کریں۔ ان پر ظلم ہو اور وہ خاموش رہیں کہ 'ملکی مفاد کا تقاضا یہی ہے‘ یہ منطق اب مزید چلنے والی نہیں۔ اس پر نظر ثانی لازم ہو چکی۔
میرے آبائواجداد اسی علاقے کے رہنے والے تھے جہاں آج میں آباد ہوں۔ مجھے اس مٹی سے محبت ہے۔ یہ غیرمشروط ہے۔ یہ مٹی اب پاکستان کی مٹی بھی ہے لیکن پاکستان ایک ریاست ہے۔ یہ تعلق ایک معاہدے کا پابند ہے۔ بلوچستان‘ پنجاب‘سندھ‘ خیبر پختونخوا‘ یہ وطن ہیں لیکن یہ اب پاکستان بھی ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ فطری رشتے پر مفاداتی تعلق کو بزور غالب کریں۔ یہیں سے وہ تضادات پیدا ہوتے ہیں جو ستر سال سے حل نہیں ہو سکے۔
ان تضادات کا دائرہ اب پھیلتا جا رہاہے اور آنے والے وقت میں یہ تضادات مزید نمایاں ہوکر سامنے آئیں گے۔ صبح شام چور ڈاکو کا راگ الاپنے والے جانتے ہی نہیں کہ ریاست کے وجود کواصلاً کیا خطرات لاحق ہیں اور ان کی بنیاد کہاں ہے؟ جن کی لغت ہی سہ حرفی ہو... این آر او‘ ان کوکیا معلوم کہ ریاست کے ہجے کیا ہوتے ہیں۔ میں پاکستان کے آئین کو خطرات میں گھرا دیکھ رہا ہوں۔ ابھی وقت ہے کہ اس کی حاکمیت کو تسلیم کرلیا جائے اور سب اپنے اپنے کاموں کی طرف لوٹ جائیں۔
میں بہ اصرار لکھ رہا ہوں کہ وطن اور ملک کے فرق کی تفہیم کلیدی ہے۔ دنیا میں طاقت سے غیرفطری تعلق کو فطری نہیں بنایا جاسکتا۔ پاکستان ایک جدید ریاست ہے‘ اسے جدید ریاست سمجھ کرہی چلایا جا سکتا ہے۔