نوازشریف اورمریم نواز نے جب اس سفر کا آغاز کیا تھاتو یہ جان کر کیا ہوگا کہ انہیں کن راہوں سے گزرنا ہے۔ اگر حوصلہ نہ ہوتا تو کب کے لوٹ چکے ہوتے:؎
یہ قدم قدم بلائیں، یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
نوازشریف تو ملک میں نہیں ہیں مگر مریم نواز یہیں ہیں۔ نوازشریف کا جسم لندن میں ہے مگر جان یہیں ہے۔ باپ بیٹی کی فطری محبت اپنی جگہ، مریم ان کا سیاسی مستقبل بھی ہیں۔ اپنی جان کو خطروں کے حوالے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔ ذات کی آزمائش میں لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں، اولاد کی آزمائش مشکل ترہوتی ہے۔ آج نواز شریف کو ہر طعنہ دیا جا سکتا ہے، بزدلی کا نہیں۔
سیاست ہمیشہ اقتدار کے لیے ہوتی ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہو سکتا کہ سیاست کا محرک اقتدار نہیں ہے۔ فرق محض اتنا ہے کہ اقتدار کا حصول کیوں؟ کوئی شخصی اقتدار کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور کوئی یہ گمان رکھتا ہے کہ وہ ایک نظریے کا اقتدار چاہتا ہے۔ نظریہ ظاہر ہے کہ انسانوں ہی کے ہاتھوں نافذ ہوتا ہے۔ گویا نظریے کی جدوجہد بھی عملاً ایک گروہ کے اقتدار ہی کیلئے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جماعت اسلامی کے کچھ مصلحین یہ سمجھتے رہے کہ وہ توسیعِ دعوت کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے خرم مراد مرحوم کا، جنہوں نے اس غلط فہمی کودور کردیا اور واضح کردیا کہ سیاست اقتدار کیلئے ہوتی ہے، توسیعِ دعوت کیلئے نہیں۔
پی ڈی ایم بھی اقتدار کی سیاست کررہی ہے لیکن اس اتحاد میں شریک سب کاراستہ ایک نہیں۔ جو راستہ مریم نواز نے چنا، کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کے حقیقی مسافر چند ہی ہیں۔ نوازشریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن۔ صفِ دوم میں بھی ہوں گے لیکن میں صفِ اوّل کا ذکرکر رہا ہوں۔ پیپلزپارٹی کا راستہ بالکل دوسرا ہے۔
میں نے پیپلزپارٹی کا نقطہ نظر بہت سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی ہے۔ سیاست سے ان کی مراد ہوتی ہے جوڑ توڑ۔ اس میں اخلاقیات کی اہمیت زیادہ نہیں ہے۔ اس سیاست میں نتیجہ طے کرتا ہے کہ آپ کامیاب ہیں یا ناکام‘ مثلاً نتیجہ یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی سینیٹر بن گئے۔ یہی پی ڈی ایم کی منزل تھی۔ اب یہ بات غیر اہم ہے کہ وہ کیسے بنے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تحریکِ انصاف کی سیاست بھی یہی ہے۔ سنجرانی صاحب کو چیئرمین بنوانا مقصود تھا جو حاصل ہوگیا۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ وہ کیسے بنے؟ ووٹ کیسے لیے گئے؟ کیمرے کس نے لگائے اور کیوں؟
نون لیگ کی آج کی سیاست مختلف ہے۔ اُس کا مقدمہ ہی دوسرا ہے۔ اس کا ہدف کچھ اور ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی حرکیات سے غافل نہیں۔ وہ بھی مثالی نہیں، حقیقت پسندانہ سیاست کرتی ہے تاہم یہ فرق واضح ہے کہ اس کے پیشِ نظر محض اتنا نہیں ہے کہ مریم نواز وزیراعظم بن جائیں‘ منزل اس کی بھی یہی ہے لیکن اس کا راستہ دوسرا ہے۔
آخر کوئی وجہ تو ہے کہ مریم نواز کے ساتھ ایک اور طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ پھر یہ بھی سب جانتے ہیں کہ نون لیگ کے پاس ایک آسان راستہ پہلے دن سے موجود تھا۔ ایک مشکل راستے کا انتخاب بتاتا ہے کہ آج نوازشریف کے سیاسی اہداف مختلف ہیں۔ ان کی سیاست مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی کا امتزاج ہے۔ وہ اقتدار چاہتے ہیں مگر عوام کی تائید کے ساتھ، جوڑ توڑ سے نہیں۔
نون لیگ کا راستہ عوامی جدوجہد کا راستہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اداروں سمیت، اقتدار کے دوسرے کھلاڑیوں سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکتا۔ سیاست میں گفتگو اور مکالمے کا راستہ کبھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ رابطہ کیوں ہے؟ کسی سازباز کیلئے یا ایک شفاف سیاسی عمل کیلئے؟ اقتدار جائز ہو یا ناجائز، اہلِ اقتدار سے بات توکرنا پڑتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ بات کیا کی جارہی ہے؟
میں ایک مدت سے لکھ رہا ہوں کہ اقتدار والوں نے سیاست کا جو نقشہ ترتیب دیا ہے، اس میں نون لیگ کا کوئی کردار نہیں۔ یہ حقیقت دن بدن واضح ہورہی ہے۔ اپنا وجود منوانے کے لیے نون لیگ کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے عوام کی تائید۔ آج نون لیگ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں دوسری سب سے بڑی جماعت ہے۔ یہ قوت اسے عوام کی تائید سے ملی ہے۔ لوگ چاہتے ہوئے بھی اسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ یہی اس کی قوت ہے۔
ضمنی انتخابات نے بھی بتادیا ہے کہ ملک میں متبادل سیاسی قوت نون لیگ ہے۔ اس جماعت کے پاس عوامی تائید کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں ہے جس پر چل کر وہ اپنا وجود منوا سکے۔ یہ اس کی ضرورت ہے اور اسی میں ملک کیلئے بھی خیر ہے۔ جس دن سیاسی جماعتوں نے یہ جان لیا کہ ان کی اصل قوت عوام کی تائید ہے اس دن جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں گی۔
یہ جوڑتوڑ کی سیاست ہے جو غیرسیاسی مداخلت کے دروازے کھولتی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی بھی عوامی تائیدکو اپنی اصل قوت سمجھ لے تو آج بھی پی ڈی ایم کا راستہ روکنا ناممکن ہو جائے۔ پیپلزپارٹی کی اصل قوت یہی ہے کہ اسے ابھی تک سندھ کے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ اس کی حقیقی قوت جوڑتوڑ کی صلاحیت نہیں۔ اس صلاحیت پرانحصار اسے کمزور کر دے گا۔
موجودہ سیاسی بندوبست کی اخلاقی بنیادیں جیسی ہیں، وہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پوری قوم نے دیکھ لیں۔ کیمروں نے کچھ نہیں دکھایا مگران کی موجودگی نے سب کچھ ظاہر کردیا۔ اِس سیاسی نظام کو وہی قوت چیلنج کرسکتی ہے جس کی جڑیں عوام میں ہوں۔ اب کس کی جڑیں عوام میں ہیں، یہ عوامی جدوجہد ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر آج ایک حکومت کو گرا کر دوسری قائم کر دی جائے مگر یہ فیصلہ عوام کے بجائے کوئی اور کرے تو یہ تبدیلی بے معنی ہوگی۔
پیپلزپارٹی نے اگر جوڑتوڑ کی سیاست پر زیادہ اصرار کیا تو یہ پی ڈی ایم کو کمزور کرے گا۔ اس کی اخلاقی پوزیشن کے بارے میں سوالات اٹھیں گے اور یہ بات اس کی عوامی تائید میں کمی کا باعث بنے گی۔ دس بارہ دن کے بعد لانگ مارچ ہونا ہے، اس سے پہلے پی ڈی ایم میں فکری یکسوئی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کا منگل کا سربراہی اجلاس اس لیے بہت اہم ہے۔
نون لیگ کا مخمصہ واضح ہے۔ وہ عوامی جدوجہد کرنا چاہتی ہے مگر اتحادی جماعتوں کے موقف کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ یہی مسئلہ مولانا فضل الرحمن کو بھی درپیش ہے۔ پی ڈی ایم کے پاس سوچنے کا وقت نہیں رہا۔ 26 مارچ کے بعد کسی ایک سیاسی قوت کا زوال شروع ہو جائے گا جو دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں پی ڈی ایم کے لیے سراسر خسارہ ہے۔
سیاسی جماعتوں کے پاس راستہ وہی ہے جس کا انتخاب نوازشریف اور مریم نواز نے کیا ہے۔ اس میں شکست کا کوئی امکان نہیں۔ جوڑتوڑ کی سیاست کو اب ختم ہوجانا چاہیے۔ مکالمہ سب سے ہو مگر اس سوال پر کہ آئین کی بالادستی کیسے ہوگی؟ اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک مشکل انتخاب ہے مگر منزل اسی پر چل کے مل سکتی ہے۔ اقتدار ملے نہ ملے، اب یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اقتدار کا فیصلہ کون کرے گا؟ عوام کا ووٹ یا امپائر کی انگلی؟ جمہوریت کا مستقبل اسی سوال سے جڑا ہوا ہے۔