جس جماعت کے چیئرمین عمران خان ہیں‘ 7مارچ 2023ء سے اس کے صدر چودھری پر ویز الٰہی ہو ں گے۔
دیدۂ عبرت نگا ہ کے لیے یہ محض ایک خبر نہیں‘ مکمل سیاسی بیانیہ ہے۔ چودھری صاحب پارٹی الیکشن کے نتیجے میں صدر نہیں بنے۔ خان صاحب نے بقلم خود انہیں یہ منصب سونپا ہے۔ یہ سو فیصد ان کا اپنا حسنِ انتخاب ہے۔ بدھ کے اخبارات میں جب یہ خبر چھپی تو ساتھ ہی یہ اطلاع بھی شائع ہوئی کہ آج ہی 'نظام بدلو‘ حالات بدلو‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے 'اصلی شیر‘ زمان پارک سے نکلے گا۔ ابہام تو خیر پہلے بھی نہیں تھا مگر اس نعرے کی حقیقت اس طرح شاید پہلے آشکار نہیں ہوئی۔
خوش گمانی کا معاملہ دوسرا ہے۔ 'مکالمہ‘ افتخار عارف کی ایک نظم ہے جو مجھے ان کے کلام میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ یہ حمد ہے۔ اس کے چند مصرعے سنیے جو عالمگیر سچائیوں کا شاندار بیان ہے:
''یہ خوش یقینوں کے‘ خوش گمانوں کے واہمے ہیں‘ جو ہر سوالی سے بیعتِ اعتبار لیتے ہیں اس کو اندر سے مار دیتے ہیں‘‘۔
خوش عقیدگی انسان کو اندر سے مار دیتی ہے۔ وہ دل و دماغ کو دوسرے کے ہاتھوں رہن رکھ دیتا ہے۔ یہ سیاست میں بھی ہوتی ہے۔ خان صاحب کے گرد خوش گمانوں کا حلقہ ہے۔ عقل و بصیرت‘ انہیں مخاطب نہیں بنا سکتے۔ اس لیے انہیں معذور سمجھتے ہوئے‘ انہی سے کلام کیا جا سکتا ہے جو سیاست کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جو کوئی رائے قائم کرتے وقت خان صاحب کو اقتدار کی سیاست کا ایک کھلاڑی سمجھتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی صاحب کو اپنے اعتبار سے نوازتے وقت خان صاحب نے ایک بار پھر اس باب میں کوئی ابہام نہیں رہنے دیا کہ ان کا مسئلہ کرپشن نہیں‘ نواز شریف ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاست میں ان کے اصل حریف وہی ہیں۔ وہی ہیں جو ان کی اقتدار سے دوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کی نظر میں جو ''پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ ہے‘ اگر وہ بھی سیاست کرے اور ان کی پارٹی میں شامل ہونا چاہے تو انہیں نہ صرف اس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اسے اپنی پارٹی میں مقامِ عزت پہ فائز کر سکتے ہیں۔ کل سندھ یا بلوچستان کا بھی کوئی ''ڈاکو‘‘ ان کا ہم سفر بنناچاہے تووہ دیدہ و دل فرشِ راہ کر سکتے ہیں۔
سیاست میں پارٹی بدلنا میرے نزدیک فی نفسہٖ کوئی قابلِ اعتراض فعل نہیں‘ اگر واقعات سے یہ ثابت نہ ہو کہ ایسا فیصلہ کسی ناجائز مفاد کے تابع ہے۔ اس ملک میں دراصل ایک ہی سیاسی جماعت پائی جاتی ہے جس کے کئی دھڑے مختلف ناموں سے متحرک ہیں۔ کسی نے اپنے دھڑے کو مسلم لیگ کا عنوان دے رکھا ہے اور کسی نے تحریکِ انصاف کا۔ جماعت اسلامی جیسی کوئی نظریاتی جماعت‘ کم از کم نظری سطح پر مختلف ہو سکتی ہے ورنہ معروف جماعتوں کا معاملہ یہی ہے۔ اس لیے اگر کوئی ایک دھڑے سے دوسرے میں چلا جاتا ہے تو یہ اچنبھے کی بات نہیں۔
اس طرح پرویز الٰہی صاحب کا تحریکِ انصاف میں شامل ہونا کوئی انوکھی خبر نہیں۔ یہ معمول کا ایک واقعہ ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک طرف چور ہیں اور دوسری طرف دیانت دار۔ یہ فریبِ نظر ہے۔ سیاست کواس سے نکلنا ہوگا۔ اس سے اعتدال آئے گا اور استحکام بھی۔ اس سے سیاست اپنی فطری ڈگر پر چل نکلے گی۔ استحصال و فراڈ کی پگڈنڈیاں ختم ہو جائیں گی اور عوام کو گمراہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
خان صاحب کے اس نئے فیصلے کے بعد ان کی سیاست کے بارے میں دو ہی امکانات ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے جو تحریکِ انصاف 1996ء میں قائم کی تھی‘ وہ ختم ہوئی اور آج سے اس کا نیا دور شروع ہوا۔ اب تحریکِ انصاف اور دوسری جماعتوں کے مابین علامتی فرق بھی باقی نہیں رہا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ آج بھی یہ جماعت وہی ہے جو کل تھی۔ اس سے یہ تسلیم کرنا لازم ہے کہ عمران خان صاحب پہلے ہی دن سے اقتدار کے کھیل میں شامل ایک کھلاڑی تھے جس کی منزل کرپشن کا خاتمہ نہیں‘ ایوانِ اقتدار تھا۔ تیسرا کوئی امکان عقلاً محال ہے۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف‘ جب قائم ہوئی تو اس کے پیشِ نظر ایک نیک مقصد تھا۔2011ء میں مقتدر حلقوں نے اسے اپنا ایک پروجیکٹ بنا لیا۔ عمران خان صاحب نے جانتے بوجھتے نئے کردار کو قبول کر لیا۔ 2014ء میں اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ اگر کوئی خوش گمانی کہیں تھی بھی تو ختم ہو گئی۔ مجھے بھی 2014ء میں ان کے بارے میں مکمل شرحِ صدر ہوا۔ 'لندن پلان‘ کے تین ظاہری کردار تھے: عمران خان‘ علامہ طاہر القادری اور چودھری شجاعت حسین۔ اس وقت جب چودھری شجاعت حسین کا نام لیا جاتا تھا تو مخاطب پر واضح ہوتا تھا کہ پرویز الٰہی اس میں شامل ہیں۔ یہ منصوبہ اس وقت تو خفیہ تھا لیکن جلد ہی خود اس کے کرداروں نے اسے طشت ازبام کر دیا۔ گویا 2011ء کے بعد تحریکِ انصاف اپنی سیاست کے دوسرے دور میں داخل ہو گئی جب اقتدار کا حصول اس کی پہلی اور آخری منز ل بن گیا۔ کوئی خواب‘ کوئی آدرش اب خان صاحب کے پیشِ نظر نہیں تھا۔ اب اگر اس نئی تحریکِ انصاف میں پرویز الٰہی صاحب کو صدارت کا منصب سونپ دیا گیا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
عمران خان صاحب نے اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رکھا کہ وہ اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ 'رجیم چینج‘ جیسا غیر حقیقی بیانیہ بنا سکتے ہیں اور بوقتِ ضرورت اس سے دست بردار بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہہ سکتے ہیں اور پھر اسے اپنی جماعت میں بڑے منصب کی پیش کش بھی کر سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ پرویز الٰہی کا اسلوبِ سیاست عمران خان صاحب کی سرپرستی میں بھی وہی رہا جو پہلے تھا۔ ان کے سب سے قریبی اس کے ناقابل تردید شواہد فراہم کررہے ہیں۔
ایسے حقائق کا انکار جب ممکن نہیں رہتا تو خان صاحب سے خوش گمانی رکھنے والوں کے پاس اپنے دفاع میں ایک ہی ہتھیار ہوتاہے: کیا تمہیں نواز شریف اور زرداری کی کرپشن نظر نہیں آتی؟ یہ اب چلا ہوا کارتوس ہے۔ یہ سوال اٹھانے کا حق صرف اسے حاصل ہے جو خان صاحب کو اقتدار کے کھیل کا ایک کھلاڑی سمجھتا ہے۔ انہیں مسیحا ماننے والے یہ حق نہیں رکھتے کہ ان کا تقابل عام سیاست دانوں سے کریں۔ دیگر سیاستدان تو زبانِ حال سے کب سے فراز کایہ شعر سنا رہے ہیں:
یہ لوگ میری فردِ عمل دیکھتے ہیں کیوں
میں نے فراز خود کو پیمبر نہیں کہا
گیلپ کے جس تازہ ترین سروے میں خان صاحب کو مقبول ترین لیڈر قرار دیا گیا ہے‘ اس میں ایک نکتہ بہت دلچسپ ہے۔ جو خان صاحب کوزیادہ پسند کرتے ہیں‘ وہ انہیں 'بہت اچھا‘ سمجھتے ہیں۔ جو نوازشریف صاحب یا زرداری صاحب کو ترجیح دیتے ہیں‘ وہ انہیں 'اچھا ‘ سمجھتے ہیں۔ گویا خان صاحب کے حامیوں کی اکثریت آج بھی سیاست کا غیرحقیقی یا رومانوی تجزیہ کر رہی ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکن زیادہ حقیقت پسند ہیں۔
مجھے معلوم نہیں کہ چودھری پرویز الٰہی صاحب کی قیادت میں جو لوگ 'نظام بدلو‘ کی تحریک اٹھائیں گے‘ وہ دل و دماغ کے فاصلوں کو کیسے سمیٹیں گے۔ نئی تحریکِ انصاف کو اب نئے نعرے کی ضرورت ہے۔