اسماعیل ہنیہ نے اپنے تین بیٹے اور چار پوتے‘ پوتیاں قربان کر کے اس الزام کو دھو دیا کہ اسلامی تحریکوں کی قیادت اپنے بچوں کو میدانِ کارزار سے دور رکھتی اور دوسروں کے بچوں کے سفرِ شہادت پر روانہ کر دیتی ہے۔ یقینا ایسے بھی ہیں مگر اسماعیل ہنیہ نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ وہ ان میں سے نہیں۔ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ ان کے اہلِ خانہ اس معرکے میں کام آئے۔ ان کے بچے اور بھائی اس سے پہلے بھی فلسطین پر قربان ہو چکے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ خود قطر میں تھے جب یہ حادثہ پیش آیا۔ وہ جس صدمے سے گزرے ہیں‘ اس کا صرف اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین آج دنیا کی واحد رزم گاہ ہے جہاں لیڈر اور عامی‘ دونوں میدان میں کھڑے ہیں۔ مقتل آباد ہے اوردستِ قاتل بلا امتیاز حرکت میں ہے۔ حماس کے لیے اس خطے میں واحد پناہ گاہ قطر ہے۔ اس کا ایک پس منظر ہے جس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
حماس کی حکمتِ عملی کا میں ناقد ہوں۔ اخلاقی یا دینی پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ میرے نزدیک بغیر تیاری کسی ایسے معرکے میں اترنا خودکشی ہے‘ جس کا معلوم انجام صرف جاں کا زیاں ہو۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا کہ حکمتِ عملی کی یہ غلطی اسرائیل مظالم کے لیے کوئی جواز ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست‘ جن میں امریکہ سرِفہرست ہے‘ ایسی بے حسی اور ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں کہ عالمِ انسانیت اس پر ہمیشہ شرمندہ رہے گا۔ اُن ریاستوں کا تہذیب اور انسانیت سے دور دور تک واسطہ نہیں جو ایسے ظلم پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اس ظلم میں دامے درمے سخنے مددگار ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان ریاستوں کے وہ شہری‘ جن کا تہذیب اور انسانیت سے کوئی تعلق ہے‘ اپنی حکومتوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
امریکہ کے رویے سے واضح ہے کہ طاقت کی نفسیات آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ ماضی میں بادشاہ ایک تماشا گاہ میں اپنے غلاموں کو کئی دن کے بھوکے درندوں کے سامنے پھینک دیتے اور اپنے لیے تفریحِ طبع کا سامنا کرتے تھے۔ آج کا فلسطین اس تماشا گاہ سے کسی طرح مختلف نہیں۔ اس تھیٹر میں عالمی قوتوں نے عام فلسطینیوں پر اسرائیلی بھیڑیوں کو چھوڑ دیا ہے اور خود تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی جنگ بندی کی کوشش کرتا ہے تو اس کا ہاتھ روک دیتے ہیں۔ حماس کی غلط حکمتِ عملی کسی طور اس ظلم کے لیے جواز نہیں۔
ایک عام مسلمان‘ ایک عام انسان جو ابھی شرفِ انسانیت سے پوری طرح محروم نہیں ہوا‘ اس صورتِ حال پر دل گرفتہ ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس آتش کدے کو کیسے بجھائے جس کا ایندھن عام انسان ہیں۔ مسلمانوں کا اضطراب دوچند ہے۔ کیا وہ حماس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں؟ حماس اور عام فلسطینی میں کیسے فرق کیا جائے؟ پی ایل او اور یاسر عرفات کے باقیات آج کہاں ہیں؟ مزاحمت کے باب میں ان کا مؤقف کیا ہے؟ آج فلسطینی اتھارٹی کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے؟ یہ سب سوالات جواب طلب ہیں اور سچ پوچھئے تو ان کے واضح اور دوٹوک جواب موجود نہیں؛ تاہم اس ضمن میں تاریخ سے رجوع کر کے کچھ سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
حماس 'سیاسی اسلام‘ کے پہلے عسکری نقوش میں سے ہے۔ الاخوان المسلمون مصر اور مشرقِ وسطیٰ میں برپا ہونے والی اسلامی تحریک تھی جو اصلاً اسلامی کردار اور دینی حساسیت پیدا کرنے کے لیے وجود میں آئی۔ سید قطب جیسے مفکرین نے اسے ایک نیا مقصد دیا اور یہ اس تعبیرِ دین کی نمائندہ قرار پائی جسے 'سیاسی اسلام‘ کہتے ہیں۔ اسلام اور اہلِ اسلام کا سیاسی غلبہ جب مقصد بنا تو حکمتِ عملی بھی اسی حوالے سے اختیار کی گئی۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شکست پر یہ نقطہ نظر پیدا ہوا کہ اسرائیل اور غیر اسلامی طاقتوں کو شکست دینے کے لیے مسلح جدوجہد کرنی چاہیے۔ پی ایل او پہلے ہی اس راستے پر چل رہی تھی جس کی قیادت ان فلسطینیو ں کے ہاتھ میں تھی جو اشتراکی خیالات رکھتے تھے۔ اخوان کے کچھ مخلصین نے متشدد سوچ کی مزاحمت کرنا چاہی مگر حالات کا جبر ان کے راستے کی رکاوٹ بن گیا۔ حماس اس سوچ کا مظہر ہے۔
حماس کی ابتدائی قیادت چونکہ اخوان سے آئی تھی اس لیے اس میں دینی حساسیت زیادہ تھی۔ بعد میں جذباتیت کا غلبہ ہوتا گیا۔ الہجرہ والتکفیر اور پھر القاعدہ کو اس سوچ کا دوسرا اور داعش کو تیسرا نقش سمجھنا چاہیے۔ حماس نے اس ارتقا کے باوصف اپنی وجودی شناخت برقرار رکھنا چاہی اور وہ اس میں ایک حد تک کامیاب رہی۔ القاعدہ اور داعش نے جس طرح مسلم آبادیوں اور غیر محارب لوگوں کو قتل کیا‘ حماس کا دامن اس سے پاک رہا۔ انہوں نے خود کو اسرائیل کی مزاحمت تک محدود رکھا۔ اس دوران بعض اوقات اسرائیل کے عام شہری بھی نشانہ بنے جس کی تائید نہیں کی جا سکتی؛ تاہم نقطہ نظر کی حد تک وہ اس کے قائل رہے کہ انہیں اسرائیلی ریاست ہی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنی ہے۔ اس کے دینی و اخلاقی جواز اور عدم جواز پر بہت کچھ لکھا جا چکا جسے یہاں دہرانا مقصود نہیں۔ میں نے یہ پس منظر اس لیے واضح کیا کہ اس سے شاید ان سوالات کے جواب ملنے کا امکان پیدا ہو جو اس سے پہلے اٹھائے گئے ہیں۔
حماس کی تشکیل کے تناظر میں کچھ سازشی تھیوریز بھی بیان کی جاتی ہیں مگر مجھے ان میں وزن دکھائی نہیں دیتا۔ جو لوگ اس طرح اپنا خاندان قربان کر دیتے ہیں‘ ان کی رائے تو غلط ہو سکتی ہے مگر ان کے بارے میں یہ باور کرنا مشکل ہے کہ وہ کسی کے کہنے پر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ محبت اور دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ان کو اس ظلم سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آج ہمیں مسلم حکمرانوں سے وہ کچھ کہنا چاہیے جو ان کی ذمہ داری کے مطابق ہے اور حماس سے وہ کچھ‘ جو اس کا دائرہ کار ہے۔ او آئی سی سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اسرائیل کے مظالم پر امریکہ جیسے اس کے پشتیبانوں سے سنجیدہ مذاکرات کرے اور اس مقتل کو بند کرائے۔ اس کے ساتھ حماس سے اس کی حکمتِ عملی پر بات کرے۔ اگر امریکہ اور دوسری قوتیں اس ظلم کو رکوانے پر آمادہ نہیں ہوتیں تو مسلم حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسی صورتِ حال میں‘ ان کا دین ان سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ حماس کی قیادت کو یہ باور کرانا چاہیے کہ جب طاقتور دنیا اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہے اور ان کے پیچھے مسلمانوں اور مہذب انسانوں کے احتجاج کے سوا کچھ نہیں تو انہیں عام فلسطینیو ں کی جان و مال کا تحفظ کرنا چاہیے نہ کہ انہیں ہانک کر مقتل لے جانا چاہیے۔ آج کوئی مسلم ملک عملاً اہلِ فلسطین کی مدد نہیں کر رہا۔ کیا مسلم حکمران خدا کے حضور میں اپنے اس طرزِ عمل کا دفاع کر سکیں گے؟ کیا حماس کی قیادت کل قیامت میں اپنی حکمتِ عملی کا جواز پیش کر سکے گی؟ انسانی جان کھیل تماشا نہیں کہ اسے جذبات کی تشکیل کے لیے قربان کر دیا جائے۔
اسماعیل ہنیہ کی قربانی کو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی مثالی صورت تو یہ ہے کہ اہلِ فلسطین کو ان کا گھر مل جائے۔ اور اگراس میں دیر ہے تو اس اثاثے کو بچا کر رکھا جائے جو انسانی جانوں اور اموال کی صورت میں اہلِ فلسطین کے پاس ہے۔ اس وقت ہم سب کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ وقت کا ہم سے ایک ہی سوال ہے: انسانی جانوں کو بچانے اور ظلم کا ہاتھ تھامنے کے لیے ہم نے کیا کیا؟ مسلم حکمرانوں نے کیا کیا؟ حماس جیسی تنظیموں کی قیادت نے کیا کیا؟ اسلامی تحریکوں نے کیا کیا؟ علما نے کیا کیا؟ ہر کوئی اپنے اپنے دائرے میں‘ خدا کے حضور میں مسئول ہے۔