کیا آج پاکستان میں کوئی دوسرا شیخ مجیب الرحمن پیدا ہو سکتا ہے؟
غلط اور صحیح کی بحث میں اُلجھے بغیر ہم اس سوال کو سیاسی حرکیات اور تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تفہیمِ مدعا کے لیے ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ آج ایک مقبول راہنما موجود ہے جس کو بندوق کے زور پر اقتدار سے دور رکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ عوام کے ایک بڑے طبقے میں اضطراب ہے اور وہ گھٹن محسوس کر رہا ہے۔ گویا سیاسی ماحول وہی ہے جس نے 1970ء میں شیخ مجیب الرحمن کو جنم دیا تھا۔ یہ تقابل مگر متقاضی ہے کہ چند دوسرے پہلوؤں کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔
پہلی بات: جب شیخ مجیب الرحمن کا بطور مقبول سیاسی راہنما ظہور ہوا تو اُس وقت پاکستان کے سیاسی و جغرافیائی حالات آج سے یکسر مختلف تھے۔ مجیب الرحمن ملک کے ایک حصے‘ مشرقی پاکستان میں مقبول تھے۔ ملک کا دوسرا حصہ ان سے پوری طرح لاتعلق تھا۔ انتخابات میں مجیب مشرقی پاکستان کے غیر متنازع لیڈر بن کر سامنے آئے۔ جغرافیہ کچھ اس طرح تھا کہ دونوں حصوں کے مابین ایک وسیع سمندر حائل تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی نسبت بھارت سے قریب تر تھا۔
دوسری بات: جب شیخ مجیب الرحمن کے حقِ اقتدار کا انکار کیا گیا تو ان کے پاس دو راستے تھے: ایک یہ کہ وہ اس حق تلفی پر صبر کرتے۔ حالات کے ساز گار ہونے کا انتظار کرتے اور اپنے حق کے لیے جمہوری جدو جہد کرتے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ مخالف قوت سے متصادم ہو جاتے جو اُن کے معاملے میں ریاست تھی۔ اس صورت میں وہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کر دیتے۔ اس میں کامیابی کی واحد صورت یہ تھی کہ پڑوسی ملک بھارت ان کی مدد کرتا۔ صرف مدد نہیں بلکہ اپنی فوج اُتارتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انکا سامنا ایک منظم فوج سے تھا۔
ہم یہاں اس بات سے بھی صرفِ نظر کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن پر بھارت کے ساتھ تعلقات کا الزام تھا اور اُن کے ساتھ ساز باز کے نتیجے میں بھارت نے اپنی افواج مشرقی پاکستان میں اتاریں۔ ہم معروضی تجزیہ کرتے ہیں کہ بھارت کسی ایسے وقت کے انتظار میں تھا جب مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی برپا ہو اور وہ پاکستان کو ایک بڑی ہزیمت سے دوچار کر دے۔ جب یہ صورتحال پیدا ہو گئی تو بھارت نے فائدہ اٹھایا۔ اس کی فوج نے براہِ راست مداخلت کی۔ روس جیسی قوت اس کی پشت پر تھی۔ گویا مجیب الرحمن نے تصادم کا فیصلہ کیا‘ بھارت نے مدد کی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔
تیسری بات: اس وقت مجیب اور ریاست دو قوتیں نہیں تھیں۔ ایک تیسری قوت بھی تھی جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ وہ مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کے راہنما تھے۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ ریاست اور مجیب میں کوئی سمجھوتا نہ ہونے پائے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اس سمجھوتے کا مطلب عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی تھا۔ ریاست جس مشکل میں تھی‘ اس کا بھٹو صاحب نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
آج ان تینوں عوامل میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں ۔ لہٰذا اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہاں کوئی مجیب الرحمن پیدا ہو سکے۔آج کا پاکستان ایک جغرافیائی وحدت ہے۔ اُس وقت جب حالات خراب ہوئے تو بھارت نے ایک طیارے کے اغوا کا ڈرامہ رچایا اور اسے بنیاد بنا کر پاکستان کے لیے اپنے فضائی راستے بند کر دیے۔ زمینی راستہ پہلے ہی موجود نہیں تھا۔ بعد میں پاکستاننے سری لنکا کا راستہ اپنایا اور اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتاریں۔ آج اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ پاکستان میں اگر‘ خاکم بدہن‘ خانہ جنگی کی کیفیت ہو تو کوئی دوسرا ملک اس کا فائدہ اٹھائے۔ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان یا کسی دوسرے صوبے میں اگر علیحدگی کی کوئی تحریک اٹھے اور اسے افغانستان‘ ایران یا بھارت کی طرف سے اسی طرح کی مدد ملے جیسے عوامی لیگ کو بھارت سے مل گئی تھی۔ آج کے حالات ماضی سے مختلف ہیں۔
آج خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کوئی ایسی تحریک موجود نہیں جو عوامی سطح پر اتنی مقبول ہو جیسے عوامی لیگ بنگال میں تھی۔ سندھ میں بھی کوئی علیحدگی پسند نہیں ہے جو ریاست کے لیے چیلنج بن سکے۔ پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے۔ سندھ اور پنجاب کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہماری ان سرحدوں پر کوئی فوج ایسی نہیں جو عسکری اعتبار سے پاکستان پر برتری رکھتی ہو اور نہ افغانستان یا ایران سے ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ تیسری وجہ یہ کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت یا مقبول راہنما ایسا نہیں ہے جس پر بھارت کے ساتھ تعلقات کا الزام ہو اور وہ اس کی مدد پر آمادہ ہو۔ گویا غیر ملکی مداخلت کا سرے سے کوئی امکان نہیں۔
ہم اس مفروضہ منظر نامے پر بات کر رہے ہیں کہ آج پاکستان میں کوئی لیڈر پیدا ہو گیا ہے جس کے حقِ اقتدار کو ریاست نے قبول نہیں کیا‘ اس کے باوجود کہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ اس لیڈر نے اس پر ریاست کے ساتھ تصادم کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگر وہ شیخ مجیب الرحمن نہیں بن سکتا تو اس تصادم کا کیا نتیجہ متوقع ہے؟ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق پسپائی پر آمادہ ہو جائے اور دوسرے فریق کا مطالبہ مان لیا جائے۔ تاریخ یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں ریاست پسپا نہیں ہوتی۔ ریاستکی ایک نفسیات ہے اور وہ قوت کی علامت ہے۔ قوت جب پسپائی پر آمادہ ہو جاتی ہے تو پھر اس کا رعب ختم ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی بھی اس کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ریاست آخری حد تک جا سکتی ہے۔ وہ مارشل لاء بھی نافذ کر سکتی ہے۔ پھر یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ آج کوئی ذوالفقارعلی بھٹو موجود نہیں۔ میں یہاں غلط صحیح کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہہ رہا۔ میرے پیشِ نظر تاریخ اور سیاسی حرکیات کا معلوم پیٹرن ہے۔
اگر مقبول راہنما بھی پسپائی پر آمادہ نہ ہو تو کیا آج کے پاکستان میں ایسی عوامی تحریک اُٹھ سکتی ہے جیسے مشرقی پاکستان میں برپا ہوئی تھی؟ سیاست پر نظر رکھنے والا کوئی ذی شعور اس کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔ اگر کسی ایسی تحریک کا امکان تسلیم کر لیا جائے تو اس کا انجام مارشل لاء ہی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا مقبول راہنما کسی المناک انجام سے دوچار ہو۔
مفروضہ مقبول راہنما اگر شیخ مجیب الرحمن کی داستان سے سبق حاصل کرنے پر آمادہ ہو تو وہ کبھی ریاست کے ساتھ تصادم کا راستہ نہیں اپنائے گا۔ وہ سیاسی عمل کی طرف لوٹے گا اور وہ حالات پیدا کرنا چاہے گا جس میں وہ پُرامن طور پر عوام کی تائید کو اپنے حق میں استعمال کر سکے۔ تصادم کے نتیجے میں ریاست کی فتح یقینی ہے۔ یہ فتح کیا پاکستان کی بھی فتح ہو گی؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ ریاست جب تاریخ سے سبق حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہو اور اسے یہ ادراک نہ ہو کہ سیاسی عصبیت کا مقابلہ عدالتی فیصلوں اور ریاستی جبر سے نہیں ہو سکتا تو ملک بحران میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مسائل کبھی طاقت سے حل نہیں ہوتے۔ اسی طرح مقبول راہنما بھی جب ریاست سے تصادم پر آمادہ ہوں تو وہ نہ صرف خود کو برباد کرتے ہیں‘ ملک کو بھی شدید بحرانوں کی نذر کر جاتے ہیں۔ اس لیے اس بات سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کہ ہماری تاریخ میں کوئی دوسرا شیخ مجیب الرحمن بننے کی کوشش کرے۔