سخن فہمی خدا کی کتنی بڑی نعمت ہے‘ اس کا اندازہ علم کے ایک سچے طالب ہی کو ہو سکتا ہے۔ یہ کام کتنا مشکل ہے‘ یہ بھی صرف ایک طالب علم جانتا ہے۔ بطور کالم نگار میرے لیے یہ سب سے زیادہ قابلِ توجہ مسئلہ ہے۔ ایسا کیوں ہے‘ اس کا جواب میں کالم کے آخری حصے میں دوں گا۔ ابتدا میں ہم سخن فہمی پر عمومی بات کرتے ہیں۔
کہی یا لکھی گئی بات کی جب تک درست تفہیم نہ ہو ہم متکلم یا لکھاری کے مدعا کو نہیں پا سکتے ہیں۔ مدعا تک رسائی کے بغیر اتفاق اور عدم اتفاق بے معنی ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ لوگ اس مرحلے سے گزرے بغیر اپنی رائے کا اظہارکرتے ہیں۔ یہی نہیں‘ اپنا فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ کسی کو بھی مجرم ٹھہرا سکتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم متکلم یا لکھاری کے بارے میں کسی سبب سے ایک رائے قائم کر لیتے ہیں۔ یہ رائے ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتی ہے۔ جب ہم اس کی کوئی بات سنتے یا پڑھتے ہیں تو دراصل ہم گفتگو یا متن کے بجائے اس رائے کو پیشِ نظر رکھتے ہیں جو ہم نے پہلے سے قائم کی ہوتی ہے۔ ہم زیرِ مطالعہ تحریر کو اس مفہوم کا لبادہ پہنا دیتے ہیں جو ہمارے ذہن نے اس کے لیے تیارکیا ہوتا ہے۔ یوں ہم متن سے کبھی وابستہ ہی نہیں ہوتے۔
دنیا کا اکثر مناظرانہ لٹریچر اسی طرح وجود میں آیا ہے۔ لوگ دوسرے مسلک کی کتاب پڑھتے ہیں تو ان کے ذہن میں پہلے سے اس کے بارے میں ایک رائے موجود ہوتی ہے۔ وہ یہی رائے اس کتاب کے متن میں تلاش کر لیتے ہیں۔ جملے کا در و بست‘ سیاق و سباق‘ اسلوبِ کلام‘ نظامِ فکر‘ وہ ہر بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات دوسرا فریق اس مؤقف سے مسلسل انکار کر رہا ہوتا ہے لیکن لوگ متکلم کو اپنی بات کی تاویل کا حق نہیں دیتے۔ اس لیے متن کے مطالعے میں قاری کے کردار کو اہم سمجھا گیا ہے۔
ایک متن کو کیسے پڑھا جائے؟ یہ علم کی دنیا کا ایک اہم سوال ہے۔ اس کی نوعیت اب ایک مضمون (Discipline) کی ہے۔ دورِ جدید میں جب علم‘ مطلق سے خاص کی طرف بڑھا تو اسے ایک باضابطہ 'مضمون ‘ کی صورت دے دی گئی۔ چونکہ اصلاً یہ مسئلہ فلسفے اور ادب سے متعلق ہے‘ اس لیے اس نوعیت کے اکثر مباحث انہی دائروں میں ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس باب میں سب سے وقیع کام ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کیا ہے۔ ان کی تمام کتب ہی اہم ہیں لیکن ''متن‘ سیاق اور تناظر‘‘ کا میں بطورِ خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔
ڈاکٹر نیر نے متن سے مفہوم تک رسائی کے لیے اس سوال کو اہم سمجھا ہے کہ اسے سیاق (Context) میں پڑھا جائے یا تناظر (Perspective) میں؟ ان کا کہنا ہے کہ سیاق کا تعلق متن سے ہے اور تناظر کا قاری سے۔ اس بحث کے فلسفیانہ پہلو سے دانستہ گریز کرتے ہوئے کہ ایک کالم ثقیل مباحث کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ میں یہ بات قدرے سہل الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں۔ ایک لکھنے والا اپنا نظامِ فکر رکھتا ہے اور اس کا مخصوص ثقافتی وجود ہے۔ وہ اسی دائرے میں کلام کرتا ہے۔ اس سے تحریر کا سیاق وجود میں آتا ہے۔ پڑھنے والا بھی انہی خصوصیات کا حامل ہے۔ وہ جب کسی تحریر کو پڑھتا ہے تو اسے وہی معنی دیتا ہے جس تناظر میں وہ اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ قاری جب بدلے گا تو تناظر بدل جائے گا۔ یوں ممکن ہے کہ تحریر یا متن کا ایک نیا مفہوم سامنے آجائے۔
اس بحث میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ معانی کے تعدد سے کیا متکلم کا مدعا غیر واضح نہیں ہو جائے گا؟ اہلِ علم اس لیے سیاق کو اہم تر جانتے ہیں اور اسی مفہوم کو قبول کرتے ہیں جو سیاق کی نفی نہ کرتا ہو۔ اس کے باوجود اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ متکلم کے کلام تک قاری کی رسائی ظنی ہو۔ گویا اس میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے۔ مذہب کی دنیا اس کی ایک مثال ہے۔ ایک متن کو ماننے والے متعدد تعبیرات پر یقین رکھتے ہیں‘ درآں حالیکہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ مذہب ایک صراطِ مستقیم کی طرف بلاتا ہے۔ گویا متکلم کے کلام میں تعدد نہیں ہے۔ اگر تعبیرات میں کثرت ہے تو مسئلہ قاری کے ساتھ ہے۔
معلوم نہیں میں معاملے کو کتنا آسان بنا سکا ہوں مگر میں امیدکرتا ہوں کہ میں جب اسے اپنے مسئلے کے طور پر سامنے رکھوں گا تو شاید اس کا فہم عام قاری کی گرفت میں آ جائے۔ کالم کا مزاج ان مباحث کو قبول نہیں کرتا مگر میں یہ جانتے ہوئے اس کے بیان کو ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ مجھے براہِ راست درپیش ہے۔
میں جب اپنے کالم پر قارئین کے تبصرے پڑھتا ہوں تو اکثر وہ ایک ایسی بات پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں جو کالم کے متن میں موجود نہیں ہوتی۔ کئی مرتبہ تو اس سے بالکل مختلف بات لکھی ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ میں یہ جان سکا ہوں کہ پڑھنے والے کے ذہن میں میری کوئی رائے پہلے سے محفوظ ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اب بھی میں نے جو کچھ لکھا ہے‘ اس کا تناظر وہی ہے۔ اس لیے وہ میرے آج کے کالم میں بھی وہی مفہوم تلاش کرتا ہے جو کل کے کالم میں بیان ہوا تھا۔ وہ اس بات کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ لکھنے والے کا 'سیاق‘ اب دوسرا ہے۔
اس مسئلے کا اصل سبب یہ ہے کہ قاری اپنے 'تناظر‘ سے نکلنا نہیں چاہتا۔ اس وجہ سے وہ میری بات سمجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسے اپنے تناظر پر اتنا اصرار ہے کہ وہ میری نیت پر شبہ کرنا بھی جائز سمجھتا ہے۔ میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ میں عمران خان صاحب کے اسلوبِ سیاست کا ناقد رہا ہوں۔ میں نے اس کی وجوہات کو بارہا بیان کیا ہے۔ نواز شریف صاحب جب ریاستی جبر کا شکار تھے تو میں ان کے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ وہ جب معتوب تھے تو میں نے اس پر کثرت کے ساتھ لکھا کہ جب کسی لیڈر کو عوامی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے مؤقف کے غلط یا صحیح ہونے سے قطع نظر اس کے خلاف ریاستی جبر اور قانون کا استعمال بے معنی ہو جاتے ہیں۔ میں یہی بات آج عمران خان صاحب کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ عمران خان صاحب کے حامی قارئین میرے کالموں میں اس سیاق کی تبدیلی کو تلاش نہیں کر سکے۔ وہ میرے مؤقف کو اپنے ذہن میں قائم ایک تصور کا اسیر بنائے ہوئے ہیں جس کے مطابق میں عمران خان صاحب کا مخالف اور نواز شریف صاحب کا حامی ہوں۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ مؤقف اور کردار کا ہے‘ ان کے نزدیک شخصیت کا۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ میں حالات کی اس تعبیر کو قبول کر لوں جو ان کے خیال میں درست ہے۔
میں آج بھی خان صاحب کے اسلوبِ سیاست کو درست نہیں سمجھتا۔ چونکہ اس اسلوب میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی اس لیے اس باب میں میری رائے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ تبدیلی حالات میں آئی ہے جس نے خان صاحب کے کردار کو تبدیل کر دیا ہے۔ میرا مؤقف چونکہ فرد سے نہیں کردار سے متعلق ہے‘ اس لیے وہ اپنی جگہ قائم ہے‘ صرف اس کا اطلاق تبدیل ہو گیا ہے۔
اس لیے پڑھنے والے اس بات پر ضرور غور کریں کہ ایک متن کو کیسے پڑھا جائے؟ اس میں متن کی نوعیت بھی اہم ہے۔ جس نے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا‘ مذہب‘ سیاست اور سماج سے متعلق اس کے بہت سے عقدے حل ہو جائیں گے۔ پھر اسے معلوم ہو گا کہ مسئلے کا جو حل اسے بہت سادہ دکھائی دیتا ہے‘ وہ سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں ہے۔