سماج کی بُنت میں یہ سرطان اُتر گیا ہے۔ کسی لمحے اس کے تارو پود بکھر سکتے ہیں۔ ایک آدھ واقعہ اور... اور بس!
سوات میں جو کچھ ہوا‘ یہ سلسلہ واقعات کی ایک کڑی ہے۔ دنیا میں خیر کی سب سے بڑی قوت‘ مذہب کے نام پر وحشت اور درندگی کا یہ کھیل بتا رہا ہے کہ انتہا پسندی سماج کے رگ وپے میں‘ دور تک سرایت کر چکی۔ دل کے بہلانے کو یہ 'دلیل‘ دی جا سکتی ہے کہ یہ کسی چھوٹے سے گروہ کا فعل ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ اکثریت کا اقدام ہے اور اعلانیہ۔ یہ کسی مذہبی جماعت کے کارکن نہیں تھے۔ یہ کسی دینی مدرسے کے طالبِ علم بھی نہیں تھے۔ یہ گلی بازار میں چلنے پھرنے والے عام انسان تھے۔ دیکھنے میں انسان۔
ایسے واقعات میں ملوث کرداروں کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ثابت ہو سکتا ہے کہ اِن کی اکثریت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ سرگودھا میں جو کچھ ہوا‘ میں نے جی کڑا کر کے اُس کی وڈیو دیکھی۔ لوگ بے جان جسم کو پاؤں سے ٹھوکریں مار رہے تھے اور ان کی زبان پر ماں بہن کی گالیاں تھیں۔ ایسے لوگوں کا دین سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ جنہوں نے سوات میں ایک مردے کو جلا ڈالا‘ ان کا اسلام جیسے پاکیزہ دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے قانونی اسلام کی شرط شاید پوری ہو جاتی ہو مگر حقیقی اسلام کا مطالبہ اس سے زیادہ ہے۔ زبان سے کہنا بھی بعض اوقات کافی نہیں ہوتا اگر ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار کر دیا جائے یا کسی بڑے جرم کا ارتکاب کیا جائے۔ کلمہ گو بھی دانستہ قتل کر ڈالے تو اس کے لیے جہنم کی وعید ہے۔
آج انتہا پسندی صرف مذہبی معاملات تک محدود نہیں ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں اکثریت کا رویہ انتہا پسندانہ ہے۔ جس دن سوات کی خبر آئی‘ اسی دن ایک اور خبر بھی بریکنگ نیوز تھی جس کے مطابق ایک 'انسان‘ نے اپنی ماں اور تین بہنوں کو قتل کر ڈالا۔ جتنے قتل ہمارے سماج میں ہوتے ہیں‘ شاید ہی کہیں ہوتے ہوں۔ کھیل کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ ناکامی پر لوگ کھلاڑیوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور کامیابی پر سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ دونوں رویے انتہا پسندانہ ہیں۔
سیاست بھی اب پوری طرح انتہا پسندی کے نرغے میں ہے۔ نفرت ہے کہ اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ محبت ہے تو سیاستدان کو مرشد بنا رہی ہے۔ اقتدار کی سیاست کو حق وباطل کے معرکے میں بدل دیا گیا ہے۔ ہیجان ہے اور مسلسل ہیجان۔ مذہب اور سیاست‘ دونوں اس وقت ہیجان کی گرفت میں ہیں۔ جوتقسیم اللہ تعالیٰ کے حکم سے‘ رسول کے مخاطبین میں ہو تی ہے‘ آج ایک لیڈر کے حامیوں اور مخالفین میں اسی طرح کی تقسیم کی جا رہی ہے۔
میں کم وبیش بیس برس سے مذہب کے نام پر برپا ہیجان سے لوگوں کو خبردار کر رہا ہوں۔ دس سال سے سیاسی انتہا پسندی کے خلاف آواز اُٹھا رہا ہوں کہ اس سے پہلے مجھے بھی اس کے مضمرات کا اندازہ نہیں تھا۔ میں تکرار کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ یہ مذہب یا سیاست کا مسئلہ نہیں‘ سماج کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ انتہا پسندی‘ مذہب کے نام پر ہو یا سیاست کے نام پر‘ اس کا نتیجہ ایک ہی ہے: معاشرہ اعتدال کی صفت سے محروم ہو جاتا ہے۔ میری کیا حیثیت ہے کہ مجھ سے علم وعمل اور ابلاغ میں کہیں برتر لوگ آواز لگاتے رہے کہ یہ تباہی کا راستہ ہے اور قوم اس سے بچے۔ افسوس کہ کسی کو قتل کر ڈالا گیا اور کسی کو جلاوطن ہونا پڑا۔ سماج کی روش مگر تبدیل نہیں ہوئی۔ اس نے انتہا پسندوں‘ حتیٰ کہ قاتلوں کو ہیرو بنایا اور اس ہیرو سازی میں ہمارے کچھ سیاسی اور مذہبی راہنما شامل تھے۔
ریاست اور معاشرہ‘ دونوں معاملے کی سنگینی کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ دونوں نے ایسے رجحانات کی سرپرستی کی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ انتہا پسندی اکثریت کا مسلک بن گئی۔ جب محراب ومنبر سے لے کر ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات سے لے کر ریاستی مراکز تک‘ انتہا پسندوں کی تحسین اور میزبانی ہوتی ہو اور گھیرائو جلاؤ کا نعرہ لگانے والوں کو گلیمرائز کیا جاتا ہو‘ تب وہی ہو تا ہے جو آج ہو رہا ہے۔ آج معاشرے پر خوف کی ایک چادر تان دی گئی ہے۔ سوات کے واقعے کے بعد پوری وادی میں سکوت کا راج ہے۔ ہوٹل اور بازار بند ہو چکے۔ اس علاقے کے مکینوں کی معیشت کا انحصار ان چند ماہ کی سرگرمیوں پر ہوتا ہے جب سیاح یہاں آتے ہیں۔ اب مشکل دن ان کے منتظر ہیں اور یہ محرومی ایک اور انتہا پسندی کو جنم دے گی۔
آج لازم ہو گیا ہے کہ ریاست اس مسئلے پر ایمرجنسی کا اعلان کر ے۔ ہم نے اس زہر کا تدارک کرنا ہے جو ہماری رگ رگ میں پھیل چکا۔ یہ مذہب کا معاملہ نہیں‘ سماج کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اسے اسی زاویے سے دیکھنے ضرورت ہے۔ مذہب اس کا ایک جُز ہے‘ کُل نہیں۔ یہ مسئلہ علماء نے نہیں‘ ریاست نے حل کرنا ہے۔ سماج کو خوف سے آزاد کرنا اور عوام میں جان ومال کے تحفظ کا احساس پیدا کرنا ریاست کا کام ہے۔ مجرموں کو یہ پیغام صرف ریاست ہی دے سکتی ہے کہ عوام کے جان ومال کے درپے اور انہیں خوف میں مبتلا کرنے والے کے لیے دردناک سزا ہے اور اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں۔ علما سمیت تمام سماجی طبقات اس معاملے میں ریاست کے مددگار ہو سکتے ہیں۔
اس ضمن میں چند اقدام فوری طور پر اٹھائے جائیں۔
سماجی ونفسیاتی علوم کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن بنایا جائے جو ان اسباب کا جائزہ لے جو اس سماجی خلفشار کا سبب بنے ہیں۔ اسکے ساتھ وہ ایسے اقدامات تجویز کرے جو سماج کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
فساد فی الارض کے مجرموں کی سزا کے لیے الگ عدالتیں بنائی جائیں اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ایک ماہ کے اندر فیصلہ سنائیں۔ فساد فی الارض ہر پہلو سے دہشت گردی ہے۔ اس کے لیے فوری طور پر قانون سازی ہو۔ ایسے قوانین کی بھی ضرورت ہے جو توہینِ مذہب و رسالت کا غلط الزام لگانے والوں کا احتساب کریں۔
منصفوں اور وکلا کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ ایسے مقدمات کا فیصلہ دے سکیں۔
پیمرا اس بات کا اہتمام کرے کہ میڈیا ہاؤسز مذہب اور سیاست میں معروف فسادی کرداروں کے سہولت کار نہ بنیں۔
'پیغامِ پاکستان‘ کی طرح علما کو ایک مؤقف پر جمع کیا جائے جس کا ہدف مذہب کے نام پر فساد پھیلانے والوں سے اعلانِ برأت ہو۔ وہ عوام تک یہ پیغام پہنچائیں کہ جرم جرم ہے‘ چاہے وہ کسی بھی عنوان سے کیا جائے۔ جرم کے لیے مذہب کی پناہ گاہوں کو ختم کیا جائے اور اس کے لیے اگر مگر کا ہر دروازہ بند کیا جائے۔ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ انسانیت کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں اور ان کی چادرِ رحمت عالمین کو اپنی سائے میں لیے ہوئے ہے۔ ان کی ہستی ہر اس اقدام سے بَری ہے جو اللہ اور رسول کی اجازت کے بغیر اور ملکی قانون اور ضابطے کے خلاف اٹھایا جائے۔
یہ چند اقدمات ہیں جو ناگزیر ہو چکے۔ کوئی معاشرہ تادیر خوف کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ ہمیں عوام کو اس سے نکالنا ہے۔ اس لیے ریاست‘ علما‘ میڈیا‘ سول سوسائٹی‘ سب کو ہنگامی بنیادوں ہر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو پہل کرنا ہو گی کہ یہ عوام کے جان ومال کے تحفظ اور ملک کے مستقل کا سوال ہے۔
(پسِ تحریر: مولانا شبیر احمد عثمانی اور تحریکِ پاکستان کے ضمن میں ابھی بہت سے امور پر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس لیے یہ سلسلہ مضامین‘ ان شاء اللہ جاری رہے گا)