"KNC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ

مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل رہا ہے۔ مزاحمت کی تمام علامتیں ختم ہو رہی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ‘ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پی ایل او اور القاعدہ کی طرح ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔ ایران کا مزاحمتی کردار علامتی رہ گیا ہے۔ روس اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا۔ مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ زیرِ غور ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے حسبِ منشا اس کے خدوخال تراشنے کا کام شروع ہو چکا۔
یہ سب نوشتۂ دیوار تھا۔ مشرقِ وسطیٰ سے کوسوں دور بیٹھا یہ لکھاری بھی اسے پڑھ رہا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس 'دیوار‘ کے پاس بیٹھنے والوں کی نظروں سے یہ تحریر اوجھل رہی۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت بھی اسے پڑھ نہ سکی۔ میرا خیال ہے کہ عرب قیادت نے اسے پڑھ لیا تھا۔ اس نے اس تحریر سے مطابقت رکھتے ہوئے‘ اپنی حکمتِ عملی بنائی۔ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے بیک وقت دو نقشے سامنے آ رہے تھے۔ ایک طرف سعودی عرب‘ امارات اور قطر میں بلد وبالا عمارتیں آسمان کو چھو نے لگی تھیں۔ 'ورچوئل شہر‘ بسانے کے منصوبے بن رہے تھے۔ فٹ بال کے عالمی میلے کی میزبانی کی جا رہی تھی۔ دبئی عالمی تجارت کا مرکز بن رہا تھا۔ شارجہ میں عالمی کتاب میلے سج رہے تھے۔ دوسری طرف جنگ کا منظر تھا۔ اسرائیل اور ایران میں کشمکش تھی۔ میزائل کا شور اور بارود کی بُو تھی۔ شام میں خانہ جنگی تھی۔ حزب اللہ کا اعلانِ جہاد تھا۔ یمن میں باضابطہ لڑائی ہو رہی تھی۔ حماس اور داعش کا غلغلہ تھا۔ انتقام کی باتیں تھیں۔
ترکیہ بھی اس منظرنامے کا حصہ ہے لیکن وہ کسی جنگ میں نہیں اُلجھنا چاہتا۔ اس کی پہلی ترجیح داخلی استحکام ہے۔ اس کے ساتھ وہ امتِ مسلمہ کا حصہ ہونے کا بھرم بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اس بھرم کو قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کے خلاف نعرہ بازی جاری ہے۔ دوسری طرف اس کی وحشت و بربریت کے باوجود‘ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور شام کے مستقبل کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ مل کر 'سفارت کاری‘ کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ترکیہ کا نقطۂ نظر بھی وہی ہے جو عربوں کا ہے۔
یہ دو نقطہ ہائے نظر کا تصادم تھا۔ ایک کم و بیش اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اب کوئی فعال مزاحمتی قوت موجود نہیں ہے۔ اسی لیے وہ بڑی دلیری کے ساتھ نئے نقشے کے خدوخال دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ انہیں عربوں کی بھی زیادہ پروا نہیں۔ یہ نیا نقشہ ظاہر ہے کہ ایک دن میں امرِ واقعہ نہیں بنے گا۔ اس کو وقت چاہیے۔ ٹرمپ صاحب نے بھی ابھی بتا دیا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں ان کے جذبات وہی ہیں جو ہر امریکی حکومت کے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے چار برسوں میں امریکہ کی پالیسی کیا ہو گی۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ٹرمپ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کیا اور زبانِ حال سے یہ اعلان کر دیا کہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا حصہ مانتا ہے۔
یہ نیا منظر نامہ کیسے ابھرا؟ اس کا بارہا تجزیہ کیا جا چکا۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی و مذہبی قیادت اس کی ذمہ دار ہے۔ جدید تاریخ میں صدام حسین نے اس کی بنیاد رکھی۔ پہلے بلاوجہ کویت پر چڑھ دوڑے اور پھر ایران کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ 1979ء میں ابھرنے والی نئی ایرانی قیادت نے داخلی استحکام کے بجائے‘ ایرانی انقلاب کو ساری مسلم دنیا میں پھیلانے کو اپنی پہلی ترجیح بنایا۔ اس سے خطے میں غیرضروری کشیدگی پیدا ہوئی اور مشرقِ وسطیٰ ایک مستقل جنگی محاذ بن گیا۔ یہ ایک غیرفطری صورتِ حال تھی جس کے خلاف ردعمل ناگزیر تھا۔ بدقسمتی سے اہلِ فلسطین‘ اس سارے عرصے میں قیادت سے محروم رہے۔ وہ مختلف نظریاتی اور سیاسی گروہوں میں منقسم رہے۔ ایک نے روس کو اپنا مرکز مانا اور مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ دوسرے نے فلسطین کو اسلامی ریاست بنانا چاہا اور جہاد کے نام پر ہتھیار اٹھائے۔ دونوں ناکام رہے۔ ایک نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر لیا اور دوسرے کا انجام ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ فلسطین آج بھی قیادت سے محروم ہے۔
عربوں نے پہلے مرحلے میں لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پے درپے ناکامیوں کے بعد انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ پھر انہوں نے اپنے داخلی معاشی استحکام کو اپنی پہلی ترجیح بنا لیا اور تصادم سے پیچھے ہٹتے گئے۔ امارات نے پہلے یہ قدم اٹھایا اوران کے بعد سعودی عرب نے۔ محمد بن سلمان تک پہنچتے پہنچتے‘ سوچ کا یہ عمل پختہ ہو گیا۔ عرب دنیا اب ایک دوسرے رُخ پر پیش قدمی کر رہی ہے۔ جدید عرب ماضی سے مختلف ہو گا۔ یہ اپنا بین الا قوامی کردار ادا کر رہے ہیں مگر ریاستی مفاد کو سامنے رکھ کر۔ یہ پاکستان کے معاشی و سیاسی استحکام میں بھی ایک خیر خواہ دوست کی طرح شریک ہیں۔
حماس یا حزب اللہ کا قصہ الگ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت گری میں اب کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں۔ ایران کا معاملہ یہ نہیں‘ وہ ایک ریاست ہے۔ اس کا بناؤ اور بگاڑ پورے خطے پر اثر انداز ہو گا۔ ایک مضبوط اور توانا ایران خطے میں توازن پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے ایران کی قیادت کو ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔ وہ بیانیہ جس کی پہلی اور آخری ترجیح داخلی معاشی و سیاسی استحکام ہو۔ اس قیادت کو اب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ داخلی کمزویوں کے سبب اگر روس بین الاقوامی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تو ایران بھی نہیں ہے۔ دونوں مل کر بشار الاسد کو نہیں بچا سکے۔ ایران حزب اللہ کو نہیں بچا سکا۔ اسرائیل نے اس کے اندر گھس کر حملہ کیا اور وہ کچھ نہیں کر سکا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ا یرانی قیادت نے اگر اپنی ترجیحات پر نظر ثانی نہ کی تو اسے دخلی سطح پر اضطراب کا سامنا ہو سکتا ہے۔
نئے مشرقِ وسطیٰ کے خد وخال کیا ہوں گے‘ اس وقت کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ اسرائیل مزید مضبوط ہوگا۔ اس کی سرحدیں پھیل بھی سکتی ہیں۔ یا ہو سکتا کہ امریکہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے مارشل پلان جیسا کوئی منصوبہ پیش کرے جس کی نگرانی اسرائیل کو سونپ دی جائے۔ مجھے حیرت نہیں ہو گی اگر فلسطینیوں میں کوئی نئی قیادت ابھر آئے جو موجودہ قیادت کو مسترد کر دے۔ ایسی قیادت جو سیاسی جدوجہد سے اس مسئلے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے۔ حماس تو شاید اب مؤثر نہ رہے۔ پی ایل او تو پہلے ہی قصہ پارینہ ہے۔
مشرقِ وسطیٰ تاریخ کا عبرت کدہ ہے۔ پروردگارِ عالم نے اس خطے میں اپنے دو مراکز قائم کیے۔ ایک بیت المقدس اور دوسرا کعبۃ اللہ۔ ایک کی ذمہ داری سیدنا اسحاق علیہ السلام کی اولاد کو سونپی اور دوسرے کی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسل کو۔ بنی اسرائیل نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی اور ان کو معزول کر کے‘ بنی اسماعیل کو یہ منصب عطا کر دیا گیا۔ اگر وہ بھی اس کام میں ناکام رہے تو کیا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس خطے کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ تاریخی کا مابعد الطبیعاتی پہلو ہے جو یہاں کے حالات پر اثر انداز ہو گا۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کل یہاں کیا ہو گا۔ یہ البتہ طے ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا کا نقشہ بھی بدلے گا۔ ہمیں لیکن اس سے کیا۔ ہمیں زیادہ ضروری مسائل درپیش ہیں۔ ہم نے ابھی یہ طے کرنا ہے کہ مسلمان عورت غیر محرم سے مصافحہ کر سکتی ہے یا نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں