"KNC" (space) message & send to 7575

مسئلہ فلسطین اور عقل و جذبات کی کشمکش

غزہ میں معصوم شہریوں پر جو بیت رہی ہے‘ کون سی آنکھ ہے جو اس پر نمناک نہیں۔ اسرائیل کی وحشت کا یہ ایک المناک مظاہرہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو اگر امریکہ اور بر طانیہ جیسی مغربی قوتوں کی مکمل تائید میسر نہ آ تی تو ظلم کا یہ سلسلہ اتنا دراز نہ ہوتا۔ یہ اس معاملے کے وہ مسلمات ہیں جن سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔
اختلاف ایک دوسرے دائرے میں ہے اور وہ ہے حماس جیسی تنظیموں کی حکمتِ عملی۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ جب حالات کی باگ آپ کے ہاتھ میں نہ ہو اور ہزیمت نوشتۂ دیوار ہو تو پھر عقل کا تقاضا یہ ہے کہ معرکہ آرائی سے بچا جائے۔ اگر آزادی کی کوئی جنگ لڑنی ہے تو پہلے طاقت کا توازن قائم کیا جائے‘ جس حد تک ممکن ہو۔ ظالم کو کسی جارحیت کا موقع نہ دیا جائے تاکہ کمزور ظلم سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے ساتھ اخلاقی قدروں کا احترام کیا جائے۔ دوسرا مؤقف یہ ہے کہ یہ جنگ مسلط کی گئی ہے جس کا لڑنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ اس لیے حماس جیسی آزادی پسند تنظیموں کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ جو کچھ میسر تھا‘ اس کے ساتھ معرکہ آرا ہو جائیں۔
مجھے اسباب میں کلام نہیں کرنا کہ میرے نزدیک درست مؤقف کیا ہے۔ میں اس پر بارہا لکھ چکا اور اس کو دہرانا تحصیلِ حاصل ہے۔ مجھے آج اس طرف توجہ دلانی ہے کہ یہ اختلاف اب کچھ ایسی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جسے نرم سے نرم الفاظ میں ناخوشگوار ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس میں عقل و استدلال کے ساتھ جذبات کا خون ہو رہا ہے۔ اخلاقی قدریں بھی پامال ہو رہی ہیں اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے پہلے یہ داخلی معرکہ سر کرنا لازم ہے۔ ہمارا بس اسرائیل پر تو چلتا نہیں‘ اس لیے مقامی سطح پر ہی فتح کا جھنڈا لہرا دیا جائے۔
یہ جھگڑا ہماری اجتماعی نفسیات کا ایک مظہر ہے جو افراط و تفریط سے عبارت ہے اور پھر مقصود تو مخالف کا سر پھوڑنا ہوتا ہے‘ اینٹ سے پھوٹے یا روڑے سے۔ مناظرے میں یہی ہوتا ہے۔ علم و فکر کی دنیا میں شاید کسی حادثے کے نتیجے میں کچھ ایسے لوگ در آئے ہیں جن کا اصل پیشہ کوئی اور تھا۔ جیسے سپاہ گری۔ اب ہر کوئی غالب تو ہوتا نہیں کہ شعرو سخن کی دنیا میں آئے تو اس کا آداب آشنا ہو جائے۔ ایسے عناصر نے علم و فکر کی دنیا کو ایک میدانِ کارزار میں بدل دیا ہے جہاں لازم ہے کہ فیصلہ فتح و شکست ہی کی بنیاد پر ہو۔
جو لوگ عقل و حکمت کی بات کر رہے ہیں‘ انہوں نے داخلی عناصر پر تنقید میں شدت برتی۔ اسرائیل کی مذمت میں وہ اس شدت کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ بات یہ نہیں کہ ان کو دکھ نہیں ہے۔ مسئلہ حکمتِ عملی کا ہے۔ جب کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے اس پر دکھ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسباب کی بات کی جاتی ہے اور اگر وجوہات داخلی ہوں تو ان کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ آہنگ دونوں معاملات میں یکساں رہتا ہے۔ اگر کسی گروہ کو پیش آنے والے حادثے میں زیادہ دخل اس کی اپنی کوتاہیوں کا ہو تو خیر خواہی یہی ہے کہ ہر ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے نیاز ہو کر اس پر بات کی جائے۔ پھر دو اور دو چار کی طرح بتایا جائے کہ غزہ میں اگر فلسطینی بچوں کا قتلِ عام ہوا ہے تو وہ لوگ اس میں شریک ہیں جنہوں نے انہیں تر نوالا بنا کر بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا۔
بایں ہمہ‘ اتنی ہی شدت کے ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ظالم کسی رعایت کا مستحق ہے اور نہ اپنوں کی حماقت اس کے ظلم کے لیے جواز بن سکتی ہے۔ اگر مقدمہ اخلاقی ہے تو ظالم کی مذمت بھی اسی شدت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ پھر یہ کہ اس ظلم کا آغاز اکتوبر 2023ء میں نہیں ہوا۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔ بے گناہ فلسطینی بچوں کو مارا ہے۔ ان کی بستیوں کو تاراج کیا ہے۔ وہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے بڑے علاقے پر قابض ہے جو اقدامِ متحدہ کی طے شدہ سرحد سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ پہلو بھی اسی شدت سے زیرِ بحث آتا تو خود احتسابی کا مؤقف زیادہ توجہ سے سنا جا سکتا تھا۔
دوسرے مؤقف کے علمبرداروں نے خود کو پہلے مؤقف کی تردید تک محدود نہیں رکھا بلکہ صاحبانِ رائے کو نشانہ بنایا۔ ان کی ذات پر رکیک حملے کیے۔ طنز و استہزا کا اسلوب اپنایا اور اس ساری بحث کو ایک عامیانہ رنگ دے دیا۔ خود کو بطلِ حریت کے طور پر پیش کیا اور دوسرے کو دشمن کا ایجنٹ ثابت کیا۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے مسئلہ اسرائیل نہیں کوئی 'صاحبِ رائے‘ ہے جس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ مطلوب کوئی پرانا حساب چکانا تھا اور تاثر یہ دیا گیا ہے کہ 'اگر آج بھی اسلام کی حرمت پر غیرت نہ کھائی تو پھر کب کھائیں گے‘۔
اسلام‘ حب الوطنی‘ امتِ مسلمہ اور فلسطین جیسے مسائل پر اجارہ داری دانستہ ہو یا غیردانستہ‘ تشویشناک ہے۔ اس سے لوگ تقسیم ہوتے ہیں اور توانائیاں مثبت مقاصد کے بجائے منفی کاموں پر خرچ ہونے لگتی ہیں۔ اہلِ علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم میں مثبت بحث کو فروغ دیں۔ لوگ اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر یہ تو سیکھیں کہ اختلاف کیسے کیا جاتا ہے۔ کسی کے پیشِ نظر جذبات ہی کو مخاطب بنانا اور داد سمیٹنا ہے تو وہ اس کا حق رکھتا ہے لیکن اگر بحث اخلاقی اعتبار سے پست سطح پر اُتر آئے تو اسے متنبہ ضرور کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عقل کی بات کرتا ہے تو اس کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ اسے فلسطینیوں سے کوئی محبت نہیں‘ حد سے تجاوز ہے۔
پہلے یہ خیال تھا کہ مذہبی طبقات کی نمائندگی علما کے بجائے شعلہ بیان مقررین کے ہاتھ میں آ گئی ہے جس سے دینی قدروں کو شدید نقصان پہنچا۔ سوشل میڈیا نے بتایا کہ یونیورسٹیوں کے فاضل بھی ان سے کم نہیں۔ جدید اسالیبِ کلام سے آگاہی کی وجہ سے شعلہ بیان مقررین کی جگہ اب ان جدید محققین نے لے لی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں جدید و قدیم کا ایک دلچسپ ملغوبہ سامنے آیا ہے۔ مدرسے کے فاضلین اب جدید جامعات سے بھی تعلیم کی اعلیٰ ترین ڈگری لے رہے ہیں۔ اس شتر گربگی کی قیمت اسلام کو ادا کرنا پڑتی ہے‘ جس کے مظاہر سوشل میڈیا پر بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر داخلی محاذ گرم کرنے میں اس طبقے کا بھی بہت حصہ ہے۔ ایک اور طبقہ بھی اس کا ذمہ دارہے جس نے اِدھر اُدھر سے کچھ علم کی باتوں کو سنا ہے اور اب بزعمِ خویش مجتہد کے منصف پر فائز ہے۔
ہمارا مسئلہ رائے نہیں‘ رویہ ہے۔ فلسطین کے باب میں دونوں طبقات افراط و تفریط کا شکار ہوئے۔ ایک نے جذبات کو غیرمتعلق بنا دیا اور دوسرے نے یہ تاثردیا کہ انسان اصلاً ایک غیرعاقل مخلوق ہے۔ اہلِ دانش سے صرف یہ توقع ہے کہ وہ اختلافِ رائے کو ذاتی حوالوں سے محفوظ رکھیں۔ خدا کے ہاں جوابدہی کا احساس بہر حال غالب رہنا چاہیے۔ یہ احساس نہ ہو تو اتہام بھی جائز ہے اور الزام بھی روا ہے۔ اس کیفیت سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ ہماری تہذیبی روایت میں عالم وہی ہے جس کو سن کر‘ پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے۔ اس بحث میں شریک سب لوگ اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک قاری کی نظر سے اپنی تحریریں پڑھیں۔ امید ہے اس سے بہتری آئے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں