"KNC" (space) message & send to 7575

فاتح کون؟

جنگ تمام ہوئی۔ رزم گاہ میں انسانی لاشوں‘ آہوں اور المیوں کا ملبہ جمع ہے۔ اسی ملبے میں عالمِ انسایت کیلئے چند اسباق بھی ہیں۔ ہر جنگ کے اختتام پر مؤرخ اور مدبر واقعات قلم بند کرتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ صرف عالمی جنگ کے بعد‘ اس حادثے پر جو کتب لکھی گئیں‘ اگر انہیں شمار کیا جائے تو یہ ذمہ داری فرد کے بجائے کسی ادارے کو سونپنا پڑے۔ مسلم علمی روایت میں مغازی ایک مستقل موضوع ہے جس پر بے شمار کتابیں ملیں گی۔ اہلِ صحافت اس جنگ کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ سیاسیات کے علما بھی اس کے دیکھے اَن دیکھے گوشے سامنے لائیں گے۔ ہر کسی کا اپنا زاویہ نظر ہے اور ہر زاویے سے اس کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ چند زاویے میرے پیشِ نظر بھی ہیں۔
سب سے اہم زاویہ یہ ہے کہ اسرائیل نے یہ جنگ مذہبی حوالے سے نہیں لڑی۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی ذمہ دار اسرائیلی نے اسے اسلام اور یہودیت کی جنگ بنا کر پیش کیا ہو۔ اسرائیل نے اسے ایک قومی ریاست کے حوالے سے دیکھا اور عالمِ اسلام تک پھیلانے کے بجائے‘ اسے اسرائیل اور ایران کی جنگ تک محدود رکھا۔ ایران نے اسے مذہبی جوش وخروش کے ساتھ لڑا۔ آپ اسے اسرائیل کی چال کہہ سکتے ہیں کہ اس نے پورے عالمِ اسلام کو اپنا دشمن نہیں بنایا۔ اگر وہ اسے اسلام اور یہودیت کی جنگ کہتا تو پھر اس کا سامنا صرف ایران سے نہیں‘ مسلم دنیا سے ہوتا۔ سبب جو بھی ہو‘ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل نے یہ جنگ مذہبی جوش کے ساتھ نہیں لڑی۔ ریاست کی سطح پر ایسا ہوا نہ عوام کی سطح پر۔ ایران نے ہر معرکہ‘ خواہ وہ ایک مسلم ملک عراق کے خلاف ہی کیوں نہ ہو‘ مذہبی جذبے کے ساتھ لڑا۔
عالمِ اسلام میں بھی پاکستان کے علاوہ شاید ہی کہیں اس جنگ کو مذہبی حوالے سے دیکھا گیا ہو۔ پاکستان میں بھی صرف مذہبی جماعتوں نے اسے اسلام کی جنگ کہا مگر ریاست نے اس معرکے کو اس نظر سے دیکھا نہ دوسری بڑی جماعتوں نے۔ پاکستان میں چونکہ امتِ مسلمہ کو ایک سیاسی وجود سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے یہاں عوام نے بھی اسے ایک مذہبی معرکہ سمجھا۔ عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں سے وابستہ لوگوں نے اسے نظریاتی تناظر میں دیکھا مگر عام آدمی اگر اسرائیل کا مخالف تھا تو اس لیے کہ وہ اسے ایک ظالم اور غاصب ریاست سمجھتا ہے۔
عالمی سطح پر بھی یہ جنگ مذہبی نہیں بنی۔ اسرائیل پر اگر تنقید ہوئی یا ایران کی حمایت کی گئی تو اس کا سبب مذہبی نہیں تھا۔ اس قضیے کو لوگوں نے عالمی قوانین اور عام اخلاقیات کے تحت دیکھا۔ اسی طرح اگر کسی نے اسرائیل کی حمایت کی تو وہ بھی غیر مذہبی بنیادوں پر۔ اگر کہیں کوئی مذہبی حوالہ آیا بھی تو ایک اقلیتی گروہ کی طرف سے۔ یہ ایک اہم پہلو ہے کہ دورِ جدید میں تنازعات کو مذہبی بنانے کی کوشش کو زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی۔ عرب دنیا میں مسلم امت کا کوئی احساس نہیں ابھرا۔ اس کی وجہ ایران کا مخصوص مسلکی تشخص نہیں۔ اس سے پہلے بھی جب اسرائیل اور حماس کے مابین معرکہ برپا ہوا‘ جس کی سزا بے گناہ فلسطینیوں کو ملی تو اُس وقت بھی عرب دنیا میں یہ تنازع مذہبی نہیں بن سکا۔
عالمی سطح پر بھی جب فلسطینیوں کے حق میں شرق وغرب میں ایک بڑی لہر اٹھی تو وہ بھی مذہبی نہیں تھی۔ یہ مغرب میں آباد ایک عام انسان کی آواز تھی جو فطرتاً ظلم سے نفرت کرتا ہے۔ وہ فلسطینیوں کے حق میں اس لیے نہیں اٹھا کہ ان کی اکثریت کا تعلق ایک خاص مذہب سے تھا۔ اس حمایت کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ فلسطین مظلوم تھے۔ تاریخی اعتبار سے بائیں بازو کے لوگ‘ یاسر عرفات کی وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ یہی لیفٹ کے لوگ تھے جو آج کل کے لبرل ہیں۔ ان کے ہاں فلسطین کے لیے جو گرم جوشی ہے وہ کشمیر کے لیے نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہی نظریاتی پس منظر ہے۔
دوسرا زاویہ یہ ہے کہ اس جنگ نے اسرائیل فلسطین تنازع کی کوکھ سے جنم لیا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے‘ فلسطین کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا اور یہ دو ملکوں کی جنگ بن گیا۔ جنگ بندی ہوئی تو بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ ثالثوں نے بھی اس پر کوئی بات نہیں کی۔ بظاہر ایران اسرائیل میں کوئی جنگ نہیں تھی۔ ان کے اختلاف کا سبب تو فلسطین کا تنازع تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھاکہ اس جنگ کے نتیجے میں اصل مسئلہ حل ہوتا جس نے اس جنگ کو جنم دیا۔ یہ فلسطینیوں کا فطری حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہیں۔ جب تک اسے موضوع نہیں بنایا جاتا‘ مشرقِ وسطیٰ میں امن نہیں آ سکتا۔ مؤرخ یہ سوال ضرور اٹھائے گا کہ اس مسئلے کو اگر زیرِ بحث نہیں آنا تھا تو یہ جنگ کیوں کی گئی؟ کیا اس کے علاوہ بھی اس کا کوئی محرک ہو سکتا ہے؟
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ ایران کو مستقبل میں اپنی حکمتِ عملی میں جوہری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس جنگ نے اسے موقع دیا ہے کہ وہ تنہائی سے نکلے اور عالمِ اسلام کا ایک حصہ بن کر سوچے۔ اسے ڈاکٹر علی شریعتی کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے‘ صفوی شیعیت سے علوی شیعیت کی طرف رجوع کر نا ہو گا۔ دورِ حاضر کو تاریخ کا اسیر نہیں بنایا جا سکتا۔ اب نہ اموی ہیں نہ عباسی۔ نہ عثمانی ہیں نہ فاطمی۔ یہ قومی ریاستوں کا دور ہے اور ایران کو اسی حوالے سے مسلم ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ اس جنگ میں ایک خوش آئند بات یہ سامنے آئی کہ تمام مسلم ملکوں نے زبانی کلامی ہی سہی‘ ایران کو اپنے وجود کا حصہ مانا۔ اس سمت میں مزید پیش رفت ہونی چاہیے۔
اس جنگ میں چھپے ہوئے یہ اسباق مستقبل کو سمجھنے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ ہمارے فتح وشکست کے تخمینے‘ زیادہ تر خواہشات کے تابع ہوتے ہیں۔ معروضیت اگر ہے بھی تو وہ ہمارے فکری ڈھانچے کے تابع ہے۔ ہمارا مذہبی ذہن اس جنگ کو اپنے زاویے سے دیکھ رہا ہے اور غیر مذہبی اپنے زاویے سے۔ مذہبی ذہن بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو روایتی ہے اور زمین پر ہمیشہ اسلام اور کفر کو معرکہ آرا دیکھتا ہے۔ زمین ان کے خیال میں آج بھی دارالاسلام اور دارالکفر میں منقسم ہے۔ دوسرا مذہبی ذہن وہ ہے جو امورِ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مداخلت کو اس کے خاص قانون کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ تاریخ کی ایک مابعد الطبیعیاتی تعبیر کو درست سمجھتا ہے جس میں خدا نے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کے بارے جو فیصلے کر رکھے ہیں‘ وہ اسی طرح نافذ ہونے ہیں۔
جنگ کے بارے میں یہ بات کم وبیش واضح ہو گئی ہے کہ اس کے اثرات زمین پر پڑیں گے مگر یہ لڑی آسمانوں میں جائے گی۔ پاکستان اور بھارت ہوں یا ایران اور اسرائیل‘ ان کی معرکہ آرائی فضاؤں میں ہوئی۔ گویا عسکری قوت کا انحصار اب ایئر فورس پر ہے۔ فضائی برتری ہی جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہو سکتی ہے۔ اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب عسکری منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ اسی طرح اس جنگ نے اقوامِ متحدہ جیسے فورمز کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بڑی طاقتوں نے اس ادارے کو بنیادی فیصلوں سے لاتعلق کر دیا ہے جو کمزور اقوام کے لیے نیک شگون نہیں۔ ان ملکوں کی طرف سے اب ایک 'تحریک برائے بحالی اقوامِ متحدہ‘ چلائی جانی چاہیے۔
یہ آخری جنگ نہیں تھی۔ جنگ سے پاک کرہِ ارض کا تصور غیر حقیقی ہے۔ جنگ جاری رہے گی اوراس میں کامیاب وہی ہوگا جس نے تاریخ سے سبق سیکھا۔ اس جنگ کے اثرات فیصلہ کریں گے کہ اس کا فاتح کون تھا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں