کوئی نیک بخت ایک بات کو کتنی بار دہرا سکتا ہے؟
مجھے خیال ہوا کہ یہ 'علمی‘ سوال کسی ذی علم ہی سے پوچھنا چاہیے۔ اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو برادرم وجاہت مسعود پر جا کر ٹھیر گئی۔ تاریخ‘ عمرانیات‘ مذہب‘ سیاست‘ کون سا موضوع ہے جس پر انہوں نے علم کے دریا نہیں بہائے۔ اس پر مستزاد ان کا اندازِ ابلاغ: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ میں ان کے خوشہ چینوں میں سے ہوں۔ استفادہ کرتا ہوں اور ان کی درازیٔ عمر کے لیے دعاگو رہتا ہوں۔ ان کی طرف رجوع کا ایک سبب اور بھی ہے۔ جو الجھن مجھے درپیش ہے‘ اس کا سب سے زیادہ تجربہ بھی انہی کو ہے۔ احمد جاوید صاحب نے بے تکلف احباب کی ایک مجلس میں سوال اٹھایا: مشہور ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ میڈیا سے وابستہ ہمارے ایک دوست بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ احمد صاحب نے کچھ توقف کیا۔ پھر ان کی طرف دیکھا اورکہا: 'آپ بتائیے! آپ کو تو مشہور ہونے کا اچھا خاصا تجربہ ہے‘۔
میں اگر اس سوال کو وجاہت صاحب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں بھی اس تقریر پر عبارت آرائی کا اچھا خاصا تجربہ ہو گیا ہے۔ 'قائداعظم نے 11 اگست کی تقریر میں ایک سیکولر ریاست کا تصور پیش کیا‘۔ ہمارے لبرل دوستوں نے اس تقریر سے یہ معانی کشید کرنے کے لیے اتنی بار خامہ فرسائی اور لب کشائی کی ہے کہ آدمی حیرت سے سوچتا ہے: کوئی نیک بخت ایک بات کو کتنی بار دہرا سکتا ہے؟ 11 اگست کی تقریر کو قدرت قوتِ گویائی ارزاں کرے تو وہ بھی اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک پر چیخ اٹھے۔ 'اے بندگانِ خدا! مجھے کتنی بار نوچو گے؟ اس خستہ بدن پر کوئی تارِ قبا تو رہنے دو!‘ متکلم تقریر سے پہلے اور بعد میں اَن گنت بار اپنے کلام کی شرح کر چکا۔ اس کے باوصف‘ اس تقریر کو بار بار دہرایا جا رہا ہے‘ اس تاثر کے ساتھ کہ ایک پیراگراف کے سوا‘ قائد نے عمر بھر اپنے تصورِ ریاست پر کچھ نہیں کہا۔ ہمارے ان دوستوں کا جی اس تکرار سے اچاٹ نہیں ہوتا۔ اگر دعوت واصلاح کا کوئی موضوع ہو تو 'مکرر مکرر‘ کی صدا کا جواز ہے کہ تذکیر اس کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک تاریخی قضیے کو پرانی دلیلوں کے ساتھ دہرانے میں آخر کیا لذت ہو سکتی ہے؟ اس لیے مجھے ضرورت پیش آئی کہ کسی تجربہ کار آدمی سے اس بارے میں رہنمائی لوں۔ برادر محترم سے بہتر شاید ہی کوئی ہو جو اس کا شافی جواب دے سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تقریر کی شرح وضاحت کی ذمہ داری ان دو گروہوں نے اٹھا رکھی ہے جن کا قائداعظم سے بطور گروہ‘ براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ یا یوں کہیے کہ تاریخی حوالے سے کوئی تعلق ثابت نہیں۔ ایک لبرل اور دوسرے اسلام پرست (Islamists)۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ 'اسلام پرست‘ علمِ سیاست کی اصطلاح ہے جو 'مسلمان‘ سے مختلف ہے۔ دونوں11 اگست کی تقریر کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔ اس کی سخت جانی داد کی مستحق ہے ورنہ ان گروہوں نے اس کا تیا پانچا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ چلتے چلتے یہ اعتراف کہ خاکسار بھی اس کارِ خیر میں بقدر جثہ‘ اپنا حصہ ڈالتا رہا ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ کس کام میں عمر گنوا دی۔ افسوس یہ ہے کہ مولانا انور شاہ کاشمیری کی طرح یہ سوال بہت دیر میں اٹھا‘ جب نخلِ عمر پہ خزاں کے آثار نمودار ہونے لگے۔
قائداعظم کا تصورِ ریاست جو بھی تھا‘ میرا خیال ہے انہوں نے اس باب میں کوئی ابہام نہیں رکھا۔ بطور طالب علم مجھے اس پر شرحِ صدر ہے کہ یہ تصور سیکولر تھا اور نہ ویسا تھا جیسا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جماعت اسلامی نے پیش کیا۔ مولانا مودودی نے جس طرح کانگرس کے تصورِ قومیت پر نقد کیا‘ اسی طرح مسلم لیگ کے تصورِ قومیت کو بھی غلط قرار دیا۔ ہم آہنگی محض اتنی تھی کہ دونوں مذہب کو قومیت کی اساس مانتے تھے۔ دونوں کا تصورِ مذ ہب چونکہ ایک نہیں تھا‘ اس لیے یہ مماثلت عملاً غیر اہم تھی۔ یہ اتنی برہنہ تاریخی اور علمی حقیقت ہے کہ اس کے انکار کے لیے عقل وعلم سے بیگانگی لازمی شرط ہے۔ اسی طرح سیکولرازم کا لفظ بھی قائداعظم کی زبان پر کبھی نہیں آیا۔ وہ اسلام کی راہنمائی میں ریاست کی تشکیل چاہتے تھے مگر فہمِ اسلام کے باب میں ان کی رائے روایتی اور اسلام پرست طبقات سے مختلف تھی۔ مسلم لیگ کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ وہ فکری اعتبار سے بانجھ ثابت ہوئی۔ اس کی کوئی حقیقی اولاد نہیں ہے۔ اب اس کی وراثت کے دو دعویدار پیدا ہو گئے جن کا اس کے فکری حسب ونسب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فکر کو قدرت سے کلام کا اذن ملے تو وہ فیض صاحب کے الفاظ میں پکار اٹھے:
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا عَلم ہے
میری گزارش ہے کہ اس تقریر کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے اور قائداعظم کے احترام کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان کے منہ میں اپنی بات نہ ڈالی جائے۔ لبرل ہوں یا اسلام پرست‘ انہیں اپنا تصورِ ریاست بیان کرنا چاہیے۔ یہ بتانا چاہیے کہ ان کے خیال میں ریاست کا فکری وعملی ڈھانچہ کیا ہو؟ قائداعظم کیا چاہتے تھے‘ اس سوال کا جواب دیا جا چکا اوراس باب میں جو مواد جمع ہوا‘ اس میں ان دونوں گروہوں کا قابلِ قدر حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگوں کا فہم ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس بحث کو تاریخ کے طاق پر دھرا رہنے دیں اور اپنی بات کریں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ بندوق اپنے کندھے پر رکھیے قائد کے کندھے پر نہیں۔ یوں بھی دنیا نظریاتی بحثوں سے آگے نکل چکی۔ اب سوال افادیت کا ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کے لیے کس طرح مفید بن سکتی ہے؟ مثال کے طور پر معیشت کی صورت گری کس طرح کی جائے کہ عام شہری کو بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر رہیں؟ دنیا اپنے نظریاتی اختلاف کے باوصف کم وبیش ایک ہی طرح کے حل کو قبول کیے ہوئے ہے۔ مذہبی‘ اشتراکی‘ سرمایہ دار سب اسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں‘ کچھ جزوی ترامیم کے ساتھ۔ آپ کے پاس ا س کے علاوہ کوئی فارمولا ہے؟ 'پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے‘۔
ہم مذہبی ہوں یا لامذہبی‘ ہمارا خمیر ایک ہے۔ ہم تاریخ میں جیتے ہیں۔ تاریخی ہیرو‘ تاریخی حادثے‘ تاریخی کارنامے‘ ہماری دلچسپی کا موضوع یہی کچھ ہے۔ یہی ہماری عصبیت ہے‘ یہی ہمارا تشخص۔ ہمارا تصورِ مذہب تاریخ کی قید میں ہے۔ ہمارا نظریہ تاریخ کی گرفت میں ہے۔ سوشل میڈیا ہماری ایک تصویر پیش کر رہا ہے۔ ماتریدی واشعری علم کلام‘ واقعہ کربلا کے تاریخی بیانیے‘ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ تاریخ کوضرور زیرِ بحث لائیے مگر عبرت کے لیے۔ اور ہاں اگر آپ اس کوہ کنی سے کوئی نئی دریافت کر پائے ہیں تو بسم اللہ۔ ان موضوعات کے ساتھ دلچسپی کے باوجود‘ میں کچھ نیا نہیں تلاش کر سکا۔ پرانی باتیں ہیں جو مسلسل دہرائی جا رہی ہیں اور سب سے زیادہ دہرائی جانے والی ایک بات یہ ہے کہ قائداعظم نے 11 اگست کی تقریر میں سیکولر ریاست کا تصور پیش کیا۔ کیا انہوں نے ساری زندگی اس کے علاوہ کچھ نہیں فرمایا؟ یہ تکرار مجھے الجھن میں ڈالتی ہے۔برادر محترم! کچھ مدد کیجئے۔ آپ کو تو اس کا اچھا خاصا تجربہ ہے۔