آفت زدہ علاقوں کے لوگ جس کرب سے گزر رہے ہیں‘ میں شاید اس کا دس فیصد ہی محسوس کر سکا ہوں۔ سوچتا ہوں دس فیصد کرب کا اگر یہ عالم ہے تو ان کے احساسات کیا ہوں گے جو براہِ راست اس المیے سے دوچار ہوئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی دکھوں کی بھی کوئی حد نہیں۔ سیلاب کی طرح انسانی بستیوں کا رخ کرتے ہیں اور وجودِ انسانی کو تحلیل کر دیتے ہیں۔
اگر کسی گھر میں پندرہ افراد ہوں اور چودہ نہ رہیں تو اس ایک بچ جانے والے کا دکھ کیا ہوگا؟ انسان ایسا پیمانہ ایجاد نہیں کر پایا جو دکھ کی اس شدت کو ماپ سکے۔ آج بونیر‘ دیر‘ سوات‘ مانسہرہ‘ گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر میں اس طرح کی کہانی ہر گھر کی کہانی ہے۔ آفت اتنی شدید تھی کہ اس نے کسی کو سنبھلنے نہیں دیا۔ جو جہاں تھا‘ طوفان نے اسے آ لیا۔ اب مگر ہمیں سنبھلنا ہوگا‘ اس سے پہلے کہ پھر کوئی آفت ہمارے گھر کا راستہ دیکھے۔ پھر بستیاں برباد ہوں اور المیے جنم لیں۔ دکھ کے ان لمحوں میں صبر کے ساتھ ہمیں اپنا جائزہ لے کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ یہ المیہ کس حد تک انسانی کوتاہی کا نتیجہ ہے اور کس حد تک ماورائے اسباب حادثہ ہے‘ ہم جسے روکنے پر قادر نہ تھے۔ دونوں پہلو اہم اور ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔
میں ایک مذہبی آدمی ہوں۔ میرے تصورِ حیات کے مطابق ایسا ہر حادثہ قیامت کا اِنذار ہے۔ پہاڑ کیسے روئی کی گالوں کی طرح اڑیں گے‘ بستیاں کیسے چٹیل میدانوں میں بدل جائیں گی‘ زندگی کا اجتماعی سفر کیسے اپنے اختتام کو پہنچے گا‘ یہ حادثہ ان سوالات کا جواب ہے۔ اسی طرح ایک دن صور پھونکا جائے گا اور اس زمین وآسمان کو ایک نئے زمین وآسمان کے ساتھ بدل دیا جائے گا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ محض لمحوں میں منظر بدل سکتا ہے۔ علم کی دنیا میں یہ بحث جاری رہے گی کہ قیامت اس عالمِ امکان میں موجود اسباب ہی کے ذریعے برپا ہو گی یا غیب سے نمودار ہونے والا دستِ قدرت اس کو واقعہ بنائے گا‘ یہ بہرحال ہو کر رہے گی۔ دنیا میں آنے والی موسمی تبدیلیاں بتا رہی ہیں کہ اس کائنات کا نظام بھی اس قیامت کے حق میں دلیل ہے جس کے مناظر کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے اور اللہ کے رسول جس کی یاد دہانی کراتے رہے ہیں۔ قیامت کا یہ انذار چند بستیوں میں ہوتا ہے لیکن درحقیقت عالمِ انسانیت کو سوچنے کا موقع دیتا ہے۔ ہم چاہیں تو ان واقعات کو دنیا کے موسمی تغیر سے وابستہ دیگر واقعات کے ساتھ جوڑ کر ایک نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔
اسے اللہ تعالیٰ کا عذاب کہنا ایک جسارت ہے۔ عذاب کا تصور چونکہ مذہبی ہے‘ اس لیے اسے مذہبی پیراڈائم ہی میں سمجھنا چاہیے۔ اہلِ علم کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ قرآن مجید اور دیگر قدیم صحیفوں کے مطابق عذاب کے لیے اتمامِ حجت ضروری ہے اور یہ رسولوں کے انذار ہی سے ممکن ہے۔ وہ حق کو اس طرح ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے مخاطبین کے لیے انکارکا امکان باقی نہیں رہتا۔ ختمِ نبوت کے بعد اس عذاب کا دروازہ بند ہو گیا۔ تاہم نافرمانی کی سزا باقی ہے جسے اصطلاحی مفہوم میں عذاب نہیں کہا جا سکتا۔ ماضی میں جب کوئی بستی یا قوم اجتماعی سطح پر خدا کے احکام سے باغی ہو جاتی تھی تو اس دنیا ہی میں اسے سزا دی جاتی تھی۔ یہ اجتماعی جرم کی سزا ہے۔ قیامت میں معاملہ چونکہ انفرادی سطح پر ہونا ہے‘ اس لیے اجتماعی سطح پر معاملات یہاں طے ہو جاتے ہیں۔ ایسی بستیوں کی اطلاع ہمیں قرآن مجید نے دی اور یہ دعوت بھی کہ ان اقوام کے موجود آثار اور تاریخ سے عبرت حاصل کی جائے۔
بونیر اور دیگر علاقوں میں آنے والی اس مصیبت کو دونوں حوالوں سے عذاب یا سزا نہیں کہا جا سکتا۔ ختمِ نبوت کے بعد تو کسی پر 'عذاب‘ نہیں آئے گا۔ رہی نافرمانی تو اس خطے کے لوگ اللہ پر ایمان لانے والے ہیں اور ان کی اخلاقی حالت ملک کے دیگر علاقوں سے اگر بہتر نہیں تو کم کسی طرح نہیں۔ اس لیے اس مقدمے کے حق میں کوئی شہادت موجود نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے۔ مذہبی حوالے سے ایک امکان باقی ہے اور وہ ہے آزمائش۔ یہ نیک لوگوں پر بھی آتی ہے اوراس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قانونِ آزمائش کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان جان اور مال سے آزمائے جائیں گے اور اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوگا کہ کون شکر گزار ہے اور کون انکار کرنے والا۔ اس لیے اگر اس حادثے کی کوئی مذہبی تعبیر ہو سکتی ہے تو اس کا دائرہ یہی قانونِ آزمائش ہے۔ ہم انفرادی سطح پر آزمائے جاتے ہیں اور اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ انذار ہی کی ایک صورت ہے۔
غیر مذہبی حوالے سے دیکھیں تو یہ آفات فطرت کے قوانین سے انحراف کا ایک ناگزیر نتیجہ ہیں۔ انسان نے اس باب میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ کبھی صنعتی ترقی کے نام پر اور کبھی مفادات کے لیے قانونِ قدرت کو پامال کیا گیا۔ اس سے ان عناصر کا توازن برباد ہوا جن کے باہمی اشتراک سے کائنات کا یہ نظم قائم ہے۔ صنعتیں لگیں تو فضا آلودہ ہوئی۔ درخت کاٹے گئے تو زمین کا توازن خراب ہوا۔ دریائوں کے راستوں کو روکا گیا تو اس سے پانی کا فطری بہائو متاثر ہوا۔ جہاں جہاں انسان نے قوانینِ فطرت سے انحراف کیا یا آفات سے بچائو کی تیاری نہیں کی‘ وہاں وہاں اس کا نتیجہ بربادی کی صورت میں بھگتا۔
ان حادثات میں ہمارے لیے دو اسباق ہیں۔ ایک یہ کہ جہاں انسانی تدبیر اور رویے کا معاملہ ہے‘ وہاں ہم اپنی اصلاح کریں۔ قوانینِ فطرت کا احترام کریں۔ اجتماعی مفادات کو شخصی مفاد پر ترجیح دیں۔ درخت کاٹنے سے گریز کریں۔ پہاڑوں کی حفاظت کریں۔ حکومتیں ان ہائوسنگ سوسائٹیز پر پابندی لگائیں جو پہاڑ کاٹ رہی ہیں اور جنگل برباد کر رہی ہیں۔ رائے ساز ادارے اور افراد عوامی سطح پر شعور پیدا کریں۔ اس کے ساتھ بحیثیت مسلمان اس تذکیر پر دھیان دیں جو ہمیں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ یہ واقعات زبانِ حال سے آواز لگا رہے ہیں کہ اس نظمِ کائنات کو ایک دن ختم ہونا اور ہمیں اپنے پروردگار کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں وہی کامیاب ہو گا جس نے اپنا تزکیہ کیا ہو گا۔ یہ تزکیہ اخلاق کی تعمیر ہے اور اس کا کامل ترین نمونہ اسوہِ پیغمبرﷺ ہے۔ ہم اس سے جتنے قریب تر ہوں گے‘ اتنا ہی پاکیزہ ہوں گے۔
بونیر ہو یا گلگت‘ یہ سب پاکستان کا حصہ ہیں۔ یہ کسی صوبے کا معاملہ نہیں۔ ایک آفت ہے جو پاکستان کے شہریوں پر آئی ہے۔ ہمیں سیاسی اور دوسری عصبیتوں سے بلند تر ہو کر اس کا سامنا کرنا اور اسے اپنا مسئلہ سمجھنا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ نے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور صاحب سے رابطہ کیا ہے جو نیک شگون ہے۔ ہمیں مل کر اپنے مسائل حل کر نے ہیں۔ الخدمت جیسے سماجی ادارے حسبِ روایت ہر عصبیت سے بالاتر ہو کر خدمت کر رہے ہیں اور ہمیں ان اداروں کی خدمت کرنی ہے تاکہ ان کے پاس وسائل کی کمی نہ ہو۔ مرکزی حکومت کو بھی اسی جذبے کے ساتھ دینا چاہیے۔ دکھ بعض اوقات ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آتے ہیں۔ یہ قربت‘ خوشی کی قربت سے زیادہ توانا اور دیرپا ہوتی ہے۔ جانے والوں کا متبادل تو ہمارے پاس نہیں لیکن بچ جانے والوں کے لیے بہتر اسبابِ زندگی کی فراہمی اب ہم سب کی ذمہ داری ہے۔