چند امور ماورائے سیاست ہوتے ہیں‘ سیاست سے میری مراد اقتدار کی سیاست ہے‘ جیسے ماحولیات۔
یہ دنیا بھر کا چلن ہے جہاں مہذب انسان رہتے ہیں۔ باہمی جھگڑوں کے باوجود عالمی طاقتیں بھی ان امور پر بظاہر متحد ہو جاتی ہیں‘ جیسے بنیادی انسانی حقوق۔ جیسے جنگ کے قوانین۔ ان میں ایک ماحول بھی ہے۔ سب نے جان لیا ہے کہ زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے‘ جو ہمارے آج کے علم کی حد تک‘ اس کائنات میں انسان کا واحد ٹھکانہ ہے‘ ہمیں مل کر جدوجہد کرنی ہے۔ ہم جہاں اپنا اقتدار اور تسلط قائم رکھنا چاہتے ہیں‘ اگر اس کا وجود ہی باقی نہ رہے تو یہ اقتدار کہاں قائم ہو گا۔ زمین کی سلامتی ابنِ آدم کی بقا کے لیے ضروری ہے تاکہ انسان کی جستجو کے لیے کوئی میدانِ عمل موجود رہے۔
اگر دنیا ان امور پر اتفاق کر سکتی ہے تو کیا پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایسے امور پر متحد نہیں ہو سکتیں جو پاکستان کی سلامتی کے لیے ضروری ہیں؟ ریاستی ادارے میدانِ سیاست میں اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کر سکتے ہیں تو کیا ان امور کے لیے اس قوت کو استعمال نہیں کر سکتے؟ کسی کو جیل میں ڈالنا ہو‘ کسی کو مسندِ اقتدار پر بٹھانا ہو‘ ہم ان کے دستِ ہنر کے معجزے دیکھتے ہیں۔ یہ معجزے ماحولیات میں کیوں برپا نہیں ہوتے؟ ماحول کی حفاظت کیا قومی سلامتی کا میدان نہیں ہے؟
یہاں درخت بے رحمی سے کٹتے ہیں۔ کے پی کے پہاڑوں پر اُگنے والے درخت کی لکڑی غیر قانونی طور پر کراچی تک پہنچ جاتی ہے۔ کیا راستے میں ایسا خلا ہے ریاست وحکومت کا اقتدار جہاں قائم نہیں؟ سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگوں کے نام لیے جاتے ہیں جو اس غیر قانونی تجارت میں ملوث ہیں۔ کیا سیاسی جماعتوں نے ان کے ا حتساب کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے؟ بلوچستان کے پہاڑوں کا پتھر اسلام آباد اور کراچی میں فروخت ہوتا ہے۔ کتنا قانونی ہے اور کتنا غیر قانونی؟ کیا ہم جانتے ہیں؟ اور تو اور اسلام آباد کے پہاڑوں کو ہماری نظروں کے سامنے ہائوسنگ سکیمیں کھا گئیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
سیاسی جما عتوں کی مجبوریاں ہم سب جانتے ہیں۔ اگر ایک سیاسی جماعت ایک بااثر آدمی کو ساتھ نہیں ملاتی تو دوسری جماعت اس کا خیر مقدم کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ یہی بااثر ہیں جو درخت کاٹتے ہیں‘ جو غیر قانونی کاروبار کرتے ہیں۔ اور تو اور‘ اب تو مذہبی جماعتوں نے بھی سب پردے اٹھا دیے ہیں۔ جو بااثرہے‘ قطع نظر کہ اس کی شہرت کیا ہے‘ اسلام کے نفاذ کے لیے ان کا ساتھی بن سکتا ہے۔ کیا تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس طرح کے تمام افراد کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کر سکتیں؟ کیا میثاقِ جمہوریت میں ایک نئی شق کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا؟ گزشتہ ہفتے جو قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی‘ کیا اس کے بعد یہ لازم نہیں ہو گیا کہ ہماری سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور ماحول کی حفاظت کے لیے ایک لائحہ عمل اختیار کریں؟
میری تجویز ہو گی کہ اس موضوع پر ایک کُل جماعتی کانفرنس بلا ئی جائے۔ اس میں چند امور کو طے کر دیا جائے۔ بہتر ہو گا اگر میثاقِ جمہوریت ہی کے ایک نئے مسودے پر اتفاق کر لیا جائے جس میں سیاسی ماحول کے ساتھ قدرتی ماحول کی صحت کے لیے بھی مشترکہ مؤقف سامنے آ سکے۔ ریاست بھی اس کی پشت پر کھڑی ہو جائے تاکہ اس کے دستِ ہنر کے معجزات اس میدان میں دیکھے جا سکیں۔ چند اقدامات پر اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر؛
1۔ جس شخص پر جنگل کاٹنے کا الزام ہے‘ اسے کوئی سیاسی جماعت‘ اس وقت تک اپنی صفوں میں جگہ نہیں دے گی جب تک عدالت اس کی بریت کی سند نہ دے۔2۔ عدالتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسے مقدمات کا فیصلہ ایک مقرر مدت میں کریں۔ اس کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے۔3۔ قانون بنا دیا جائے کہ آئندہ کوئی پہاڑ نہیں کاٹا جائے گا۔ اگر اجتماعی مفاد میں حکومت اس کی ضرورت محسوس کرے تو اس کیلئے عدالت سے اجازت کو لازمی قرار دیا جائے۔ 4۔ درخت لگانے کی حو صلہ افزائی کی جائے۔
اس فہرست میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اصل نکتہ پہلا ہی ہے۔ ان لوگوں کا اثر ختم کرنا لازم ہے جو درخت کاٹنے کو اپنا کاروبار بنائے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نظام ایسے عناصر کا مددگار نہ ہو۔ اس نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام اہلِ سیاست اور ان ریاستی اداروں کا ہے جنہوں نے یہ ذمہ داری‘ اپنی مرضی سے اٹھائی ہے۔
مغرب کے نظام کی کامیابی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ریاست نے مجموعی طور پر چند امور پر اتفاق پیدا کر رکھا ہے۔ ان میں سے ایک سیکولرازم ہے۔ کوئی ایک جماعت اقتدار کی سیاست میں مذہب کے استعمال کی قائل نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاست میں اخلاقی ضابطوں کو نہیں مانتے۔ ان کا سیکولرازم ہی نہیں‘ کرپشن کے خاتمے پر بھی اتفاق ہے۔ کوئی جماعت اپنے کسی رکن کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتی اگر اس پر کرپشن کا کوئی الزام ہو۔ اس وجہ سے وہاں سیاسی تائید کے ساتھ کرپشن کم وبیش ناممکن ہے۔
پاکستان میں بھی اب اس کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں بھی چند امور اور اقدار پر اتفاق پیدا ہو جائے۔ ہم نے اس پر اتفاق کر لیا کہ پاکستان 'اسلامی جمہوریہ‘ ہے۔ ہم عمل کریں یا نہ کریں‘ کوئی سیاسی جماعت اس سے انحراف نہیں کر سکتی۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے بھی اس نوعیت کا اتفاقِ رائے لازم ہے۔ برسات ہر سال ہو گی۔دریا بپھریں گے۔ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہو گا۔ یہ بقا کے ساتھ معیشت کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر ہمارے شمالی علاقے محفوظ نہیں ہوں گے‘ جہاں قدرت کی رعنائیاں دیکھنے کیلئے ملک بھر سے لوگ آتے ہیں تو اس خطے کی معیشت متاثر ہو گی۔ اس لیے یہ مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہماری سیاست مزید بالغ نظری کا مطالبہ کرتی ہے۔ اقتدار کی سیاست کے ساتھ ہمیں اقدار کی سیاست بھی کرنی چاہیے۔ ہر قدر کو اقتدار کی سیاست کے بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ ان امور کی ایک فہرست ابھی سے بن جانی چاہیے جو ماورائے سیاست ہیں۔ ہر سیاسی جماعت ان کی پابندی کرے تاکہ روز مرہ سیاست قومی معاملات پر اثر انداز نہ ہو۔ اس باب میں ہمیں معاصر دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایک سطح پر‘ ہر معاشرے میں بحث جاری رہتی ہے۔ مغرب میں جدیدیت کا غلبہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ روایت یا پس جدیدیت کو ماننے والے ختم ہو گئے۔ وہ موجود ہیں اور اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ ہمیں اس اختلافِ رائے کی گنجائش رکھتے ہوئے‘ بنیادی اقدار پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہے۔ اسی میں ہماری بقا اور سلامتی ہے۔
اس کا آغاز اب ماحولیات سے کر دینا چاہیے۔ اس برسات میں ہم جس عذاب سے گزرے ہیں‘ اس نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یہ مناسب ترین وقت ہے جب ایسے عناصر کے خلاف قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جو زمین کی میخیں اکھاڑ رہے ہیں اور ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔ جو انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ آج اگر ان کے خلاف اقدام ہو گا تو کوئی ان کے حق میں بولنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کی ابتدا کُل جماعتی کانفرنس سے ہو نی چاہیے جس کا واحد موضوع ماحول کا تحفظ ہو۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک میثاق پر متفق ہو جائیں اور اپنی صفوں کو ان عناصر سے پاک کر دیں جو غیر قانونی طور پر درخت کاٹ کر ہماری بستیاں ویران کر رہے ہیں۔