"KNC" (space) message & send to 7575

سیرت اور ہمارا رویہ

مسلمان اور اہانتِ پیغمبر... استغفر اللہ۔ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ‘ ہم کن بحثوں میں الجھ گئے؟
عالم کے پروردگار نے اپنے آخری صحیفے میں اَن مٹ الفاظ میں لکھ دیا کہ میں اپنے آخری رسول اور نبی‘ سیدنا محمدﷺ کو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیج رہا ہوں۔ رحمت کی یہ چادر اب قیامت کی صبح تک‘ اس کائنات پر سایہ فگن رہے گی۔ اس رحمت کا ظہور اَن گنت اسالیب میں ہوا۔ یہ خدا کی ہدایت کا واحد راستہ ہے۔ یہ مکارمِ اخلاق کی تکمیل ہے۔ یہ آدابِ زندگی کا آخری باب ہے۔ عہدِ جاہلیت کے بعد‘ یہ انسانی تاریخ کے نئے دور کا نقطہ آغاز ہے جس میں ظلم اور استحصال کی ہر صورت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سود کی شکل میں ہو یا بے رحم غلامی کے کلچر کی صورت میں‘ اس عالمگیر رحمت کے سائے میں ان کے لیے جگہ نہیں۔
قرآن مجید نے بتایا ہے کہ چونکہ آپﷺ آخری نبی اور رسول ہیں‘ اس لیے آپ کے بعد شہادتِ حق کی ذمہ داری اس امت کو سونپی جا رہی ہے جس کا مخاطبِ اول اور مصداقِ اول صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم رحمت کے اس پیغام کو عام کریں۔ ہم مگر کس کام میں الجھ گئے؟ ایک دوسرے پر توہینِ قرآن اور اہانتِ پیغمبر کے الزامات دھرنے لگے۔ استغفراللہ۔
علما کرام کو آگے بڑھ کراس معاملے کی باگ اپنے ہاتھ میں لینا ہو گی۔ 'پیغامِ پاکستان‘ کے ہوتے ہوئے‘ مجھے افسوس ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا باب بند نہیں ہو سکا۔ 'پیغامِ پاکستان‘ میں ان امور کو مخاطب بنایا گیا ہے جو مذہب کے نام پر فساد پیدا کرنے کی نفی کرتے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اس پیغام پر دستخط کرنے والوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ ربیع الاول کے آتے ہی ایسی فضا کا بن جانا جو طے شدہ معاملات کو مشتبہ بنا دے‘ علما کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ جو محرم میں ہوتا تھا‘ اب ربیع الاول میں ہونے لگا۔
یہ سال رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کا پندرہ سو سالہ یومِ ولادت ہے۔ او آئی سی کی سطح پر اس کو زیادہ اہتمام کے ساتھ منانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس فیصلے کی ایک فرع ہے کہ ہم نے آپﷺ کا تعارف اور پیغام عالمِ انسانیت تک پہنچانا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ملت کی سطح پر ہم اس کی حکمتِ عملی بناتے۔ مذہبی جماعتیں اور علما اس حوالے سے اپنے خیالات سامنے لاتے اور پاکستان کی سطح پر ملتِ اسلامیہ اسی ایک مرکز کے گرد گھومتی دکھائی دیتی۔ ابھی تک مجھے ایک گروہ متحرک دکھائی دیا اور وہ ہے دعوتِ اسلامی۔
دعوتِ اسلامی کے عبدالوہاب عطاری صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ وہ عالمی شعبۂ تعلیم کے نگران ہیں۔ انہوں نے مجھے چند کتب کا تحفہ دیا۔ ان میں سے ایک کا عنوان ہے: 'آخری نبیﷺ کی پیاری سیرت‘۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کیسے عالمی سطح پر وہ مختلف زبانوں میں رسالت مآبﷺ کا تعارف اور پیغام پہنچا رہے ہیں۔ ان سے جو گفتگو ہوئی‘ وہ اسی دائرے میں گھومتی رہی۔ انہوں نے کوئی منفی بات نہیں کی۔ ہم میں سے کسی کو دعوتِ اسلامی سے‘ ممکن ہے پوری طرح اتفاق نہ ہو مگر یہ سوچ مبارک اور قابلِ تحسین ہے۔
اللہ کی توفیق کے ساتھ کتاب اور اہلِ علم کی صحبت سے جو حاصل ہوا‘ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اسلام کی دعوت کا سب سے مؤثر ذریعہ رسالت مآبﷺ کی سیرت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قرآن انذار کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہی ہدایت فرمائی کہ آپ اس قرآن سے انذار کریں۔ اس لیے قرآن ہی کو دعوت کی بنیاد بنانا چاہیے۔ وہ اپنی صداقت پر خود گواہ ہے۔ تاہم یہ بات بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ کتاب تو بلاشبہ‘ لاریب ہے لیکن صاحبِ کتاب بھی انسانیت کے گلِ سرسبد ہیں۔ نبیﷺ نے جب اعلانِ نبوت کیا تو اس وقت قرآن کے نزول کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس وقت اسلام کا اثاثہ آپﷺکا ماضی تھا۔ آپﷺ نے اس کی بنیاد پر لوگوں کو رجوع الیٰ اللہ کی دعوت دی۔
یہ سیرت آج بھی اسلام کا اثاثہ ہے۔ اب تو اس میں دورِ نبوت بھی شامل ہے۔ پندرہ سو سالہ یومِ ولادت ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہم آپﷺ کی سیرت کو عام کریں۔ ہم عالمِ انسانیت کو بتائیں کہ نبیﷺ کن معنوں میں سب کے لیے رحمت ہیں۔ قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی میں 'رحمۃ للعالمین اقلیتی کلب‘ بنایا گیا ہے۔ اس میں غیر مسلم پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کی سب سے زیادہ حفاظت کا اہتمام رسالت مآبﷺ کی تعلیمات میں ہے۔ اگر اس پر عمل ہو تو کسی کو جان کا خوف ہو نہ مال کا‘ نہ آبرو کا۔ میں نے پاکستان کے مسیحی راہنمائوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمیں یہاں وہی حقوق دیے جائیں جو نبیﷺ نے نجران کے مسیحیوں کو دیے تھے۔ پھر خطبہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ نے ایک نئے عالمی نظام کے بنیادی خدوخال واضح فرمائے۔ اس سیرت کے ہوتے ہوئے‘ اگر اسلام میں اقلیتوں کے حقوق پر لوگ سوال اٹھاتے ہیں تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ ہم دنیا کو آپﷺ کی عالمگیر رحمت کی طرف متوجہ نہیں کر سکے۔
آج ربیع الاول کی نسبت سے ہمیں اس پیغام کو عام کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی بنانی چاہیے تھی مگر ہم ایک ایسی بحث میں الجھ گئے جس نے ہمیں اصل ہدف سے ہٹا دیا۔ ہم ایک دوسرے کو گستاخ قرار دینے لگے۔ ہم نے کبھی اس سوال پر غور نہیں کیا کہ جو نبیﷺ پر ایمان لایا‘ وہ گستاخی کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے؟ وہ احمق ہو سکتا ہے‘ گفتگو کے آداب سے غیر واقف ہو سکتا ہے لیکن نبیﷺ کی بارگاہ میں گستاخی کا ارتکاب تو دور کی بات‘ اس بارے میں سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔
اب ضروری ہو گیا کہ پاکستان کے علما اس بارے میں کوئی مؤقف اختیار کریں۔ دوسرے الفاظ میں 'پیغامِ پاکستان‘ کے ساتھ عملی وابستگی کا ثبوت دیں۔ اس کی کئی عملی صورتیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر علما اور سکالرز کا ایک بورڈ بنایا جا سکتا ہے‘ جہاں اس نوعیت کے معاملات کو زیرِ بحث لایا جائے۔ اس بورڈ میں یہ فیصلہ ہو کہ فلاں معاملہ اس سطح کا ہے کہ اسے عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔ یا فلاں بات حماقت یا جہالت کا نتیجہ ہے۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ ایسے معاملات میں ہمارے اسلاف کا طرزِ عمل کیا تھا۔ ایسے مقدمات میں فقہا نیت کو کیا حیثیت دیتے ہیں؟
اس کے ساتھ اس بات کو بھی موضوع بننا چاہیے کہ سوشل میڈیا میں کسے گفتگو کا حق ہے؟ یہ مشکل سوال ہے مگر ہمیں اسے بھی مخاطب بنانا ہوگا۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پہ ایسے لوگ بھی دینی مباحث چھیڑ رہے ہیں جو اس کے آداب سے واقف نہیں۔ وہ تنقید‘ تنقیص اور بے توقیری کے فرق سے آشنا نہیں۔ فتنے کا سبب اکثر نقطہ نظر نہیں ہوتا‘ اسلوبِ بیان ہوتا ہے۔ ان تمام مسائل پر اس سے پہلے بھی لوگ لکھتے آئے ہیں۔ ان پر کبھی اس طرح فتنہ پیدا نہیں ہوا۔ اگر آج لوگ دین کے نام پر فتنہ پھیلا رہے ہیں تو اس کا سبب اسلوبِ بیان ہے۔ یہ اسلوب دعوت کے بنیادی آداب کے بھی خلاف ہے۔ دعوت خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ معلوم نہیں ان لوگوں کا ہدف کیا ہے؟
ربیع الاول کے آغاز ہی میں ہم جن بحثوں میں الجھ گئے‘ یہ منزل کھوٹی کرنے والی حرکت ہے۔ ہم رحمۃ للعالمینﷺ کی امت ہیں۔ اگر ہم اپنے اس مقام سے واقف ہوں تو ہمیں اس طرزِ عمل سے اعلانِ برأت کرنا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں