"KNC" (space) message & send to 7575

تیس روپے اور ’پولیس جسٹس‘

محض تیس روپے کی خاطر دو سگے بھائیوں کے قتل کی خبر سنی تو خون کھول اٹھا۔ دل نے چاہا کہ صبح ہونے سے پہلے انصاف ہو اور مجرم اپنے انجام تک پہنچیں۔ ایک دن کے بعد خبر آئی کہ 'مجرم‘ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
ایک اور ہولناک خبر نے بھی شدید اضطراب میں مبتلا کیا۔ کھیل کے دوران میں 'اوور‘ نہ دینے پر مشتعل نوجوان اور اس کے ساتھیوں نے اپنی ہی ٹیم کے کپتان‘ اس کے بھائی اور ماموں کو قتل کر ڈالا۔ دل نے پھر چاہا کہ انصاف ہو اور ان مقتولین کا قصاص لیا جائے۔ ابھی تک کسی پولیس مقابلے کی خبر نہیں آئی۔
کچھ عرصے سے متواتر 'پولیس جسٹس‘ کی خبریں آ رہی ہیں۔ ڈیڑھ دو ماہ پہلے‘ خاوند کی موجود گی میں ایک خاتون کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ کچھ دنوں بعد خبر ملی کی تمام مجرم پولیس مقابلے میں مار ڈالے گئے۔ ہر بار یہ بتایا گیا کہ ملزمان کے ساتھیوں نے انہیں پولیس حراست سے چھڑانے کی کوشش کی۔ ان خبروں نے مجھے ہمیشہ مخمصے میں ڈالا۔ خبر سن کر‘ پہلے تو اطمینان ہوا کہ شتابی سے انصاف ہوا۔ مگر جیسے جیسے میں غور کرتا گیا‘ معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا۔ میں ابھی تک اسے حل نہیں کر سکا۔
قانون یہ کہتا ہے کہ پولیس کا کام ملزموں کو گرفتار کرنا‘ شواہد جمع کرنا اور انہیں عدالت میں پیش کر دینا ہے۔ سزا کا فیصلہ کرنا پولیس کا نہیں‘ عدالت کا کام ہے۔ عدالت بھی ملزم کو صفائی کا موقع دے گی جو اس کا قانونی حق ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا فیصلہ سنائے گی۔ مشاہدہ مگر یہ ہے کہ عدالت سالہا سال بعد فیصلہ سناتی ہے اور قیاس یہ ہے کہ نوے فیصد مجرم قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھا کر بچ جاتے ہیں جو تجربہ کار وکیل فراہم کرتا اور ظاہر ہے کہ اس کا معاوضہ لیتا ہے۔ اس کی پیشہ ورانہ اخلاقیات اسے یہ سکھاتی ہیں کہ اسے اپنے موکل کا دفاع کرنا ہے۔ یہ کیسے کرنا ہے‘ اس کے لیے وہ خود اپنی حکمتِ عملی وضع کرتا اور اسی بات کے پیسے لیتا ہے۔
یہ عدالتی نظا م ایک عام آدمی کو مضطرب کرتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ عدالتیں فیصلہ کرنے میں غیر معمولی تاخیر کرتی ہیں اور تاخیر کے بعد‘ اگر فیصلہ ہو جائے تو وہ اکثر مجرموں کے حق میں ہوتا ہے تو نظامِ عدل سے اس کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ وہ اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھیراتا ہے۔ تنقید کا سب سے بڑا ہدف پولیس ہوتی ہے۔ پولیس کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ مقدمہ درست طور پر تیار نہیں کرتی۔ اس میں رہ جانے والا خلا ہمیشہ مجرموں کے کام آتا ہے‘ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ تاثریہ ہے کہ اس تنقید سے بچنے کے لیے حکومت نے عدالت کے اختیارات بھی غیر اعلانیہ طور پر پولیس کو دے دیے ہیں۔ جہاں جرم سنگین ہو اور مجرموں کا تعین آسان ہو‘ وہاں مجرم پولیس مقابلے میں اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے فوری 'انصاف‘ مل جاتا ہے۔ کیا انصاف کے حصول کا یہ طریقہ درست ہے؟
قانون کی نظر میں تو یقینا نہیں۔ یہ شرعی قانون ہو یا انسان کا بنایا ہوا‘ سب ملزم کو صفائی کا موقع دیتے ہیں۔ قانون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ بعد میں سامنے آنے والے شواہد ابتدائی تاثر کی نفی کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس باب میں تو دو آرا نہیں ہیں کہ ملزم کو صفائی پیش کرنے کا موقع ملے۔ اس کے ساتھ مگر یہ بھی لازم ہے کہ مظلوم کو انصاف ملے اور اس میں تاخیر نہ ہو۔ اس کو یقینی بنانا بھی عدالت کا کام ہے۔ عدالت کو جہاں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملزم کے ساتھ ناانصافی نہ ہو وہاں یہ تاثر بھی قائم رکھنا ہے کہ عدالت سے مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے۔ ایک قتل ہو گیا‘ مقتول کے ورثا بدرجہ اولیٰ مستحق ہیں کہ انہیں انصاف ملے۔ اگر عدالتی نظام کا سقم تاخیر کا باعث بنے یا مجرم کو ہمیشہ فائدہ پہنچتا رہے تو منصف خدا کے ہاں جوابدہ ہے اور عوام کے سامنے بھی۔
ہم جانتے ہیں کہ انصاف نہیں ملتا اور تاخیر بھی ہوتی ہے۔ عوام کو یہ ناانصافی اور تاخیر مضطرب کرتی ہے۔ کبھی جرم کھلے آسمان تلے بے شمار افراد کی موجودگی میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بھرے میلے میں قتل ہوتا ہے۔ بے شمار لوگ قاتل کو دیکھتے ہیں۔ وڈیو سمیت کئی واقعاتی شواہد بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ عوام اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں‘ اس کے لیے یہ شہادت کافی ہے کہ فلموں میں وہ کردار مقبول ہوتے ہیں جو ماورائے عدالت خود فیصلہ کرتے ہیں۔ سلطان راہی کا ایک جج کے ساتھ مشہور فلمی مکالمہ ہے کہ: 'جج صاحب! جرم چوبیس گھنٹے اور عدالت آٹھ گھنٹے‘ یہ انصاف تو نہیں‘۔ پھر جو انصاف ہوتا ہے‘ وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
ماورائے عدالت فیصلوں کی تائید نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ یقینا ہے مگر اس کا حل تفتیش اور عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیاں ہیں۔ اس کے لیے بنیادی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اگر تفتیش میں بے قاعدگی پائی جائے تو متعلقہ پولیس اہلکار کی کم از کم سزا ملازمت سے برخاستگی ہو۔ اسی طرح عدالت کو پابند بنا دیا جائے کہ تمام مقدمات کا ایک مقرر وقت میں فیصلہ کرنا لازم ہے۔ جو جج یہ نہ کر سکے‘ وہ بھی سزا کا مستحق ہو۔ قصاص میں تو بطورِ خاص جلدی کرنی چاہیے کہ اسی میں زندگی ہے۔ قتل غیر معمولی جرم ہے جس کے مجرم کو ایک لمحے کے لیے اس زمین پر گوارا نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کا فیصلہ مگر عدالت کرے۔ اگر ہم پولیس کو یہ حق دے دیں گے تو پھر مولا جٹ کو بھی دینا پڑے گا۔ پھر اس نوجوان کو بھی دینا پڑے گا جو باپ کے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے سالہا سال عدالتوں میں رُلتا اور ایک دن مایوس ہو کر خود مجرموں کو سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ 'پولیس جسٹس‘ اگر درست ہے تو 'سٹریٹ جسٹس‘ غلط کیوں ہے؟
پنجاب کی حکمران جماعت کو میرا مشورہ ہو گا کہ وہ اس حوالے سے فوری طور پر قانو ن سازی کا اہتمام کرے۔ صوبے کو جرم سے پاک کرنے کا ارادہ بلاشبہ نیک اور لائقِ تحسین ہے۔ اس کا یہ طریقہ کار مگر درست نہیں ہو گا کہ پولیس کو عدالت کے اختیارات دے دیے جائیں۔ اس سے انارکی پھیلے گی۔ انصاف قانون کی حکمرانی ہی سے مل سکتا ہے۔ اگر کوئی غیر آئینی طور پر حکمران بن کر یہ چاہے کہ وہ ملک کو لاقانونیت سے پاک کر دے گا تو حسنِ نیت کے باجود‘ یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ ایسا ممکن ہوتا تو جنرل ضیا الحق پاکستان کے کامیاب ترین حکمران ہوتے جن کے شخصی کردار کی سب تعریف کرتے ہیں۔
دو بھائیوں اور ان کے ماموں کا قتل اب پولیس اور عدالت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پولیس مقدمہ کیسے تیار کرتی ہے اور عدالت کتنے عرصے میں فیصلہ سناتی ہے۔ دونوں کو اپنی ساکھ کا کتنا احساس ہے؟ یا پھر یہ فیصلہ بھی پولیس مقابلے ہی میں ہو گا؟ ہم انتظار کرتے ہیں‘ پنجاب حکومت کو مگر انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لیے فوری طور پر قانون سازی کا آغاز کر دینا چاہیے۔ وہ سماج اور قانون کے ماہرین کی مشاورت سے ایک مسودۂ قانون تیار کرے۔ اس کے لیے میڈیا میں بھی بحث ہو کہ صوبے کو جرم سے کیسے پاک کیا جائے۔ جرم کا سو فیصد خاتمہ ممکن نہیں۔ مقصد مجرم کے دل میں یہ خوف بٹھانا ہے کہ وہ سزا سے بچ نہیں پائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں