"KNC" (space) message & send to 7575

عمران خان کے ’اقوالِ زریں‘

عمران خان صاحب سے منسوب اقوالِ زریں سے سوشل میڈیا پر رونق لگی رہتی ہے۔
یکے از عشاق‘ اپنی وال پہ ان کا ایک قول نقل کرتا ہے۔ اس میں وہ کسی صاحبِ اختیار کو للکارتے ہوئے سنائی دیتے ہیں: ''فلاں ابن فلاں! سن لو۔ تم میرے پورے خاندان کو بھی جیل بھیج دو‘ میں پیچھے ہٹنے والا نہیں‘‘۔ اس پوسٹ کو دیگر عشاق اپنی تائید سے نوازتے ہیں۔ بات سوشل میڈیا نکلی اور کوٹھوں چڑھی۔ آناً فاناً زبانِ خلق پہ اس کا چرچا ہوتا ہے۔ ان اقوال پر مستزاد‘ ان عشاق کے اپنے تبصرے ہیں۔ 'خان جان دے سکتا ہے مگر پیچھے نہیں ہٹے گا‘۔ 'خان نے بتا دیا ہے کہ وہ اقتدار کے لیے نہیں‘ حقیقی آزادی کے لیے لڑ رہا ہے‘۔ 'یہ الٹے لٹک جائیں‘خان کو نہیں جھکا سکتے‘۔ کوئی قیاس کرتا ہے 'خان تہجد کے بعد‘ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت‘ پاکستان کے بارے میں سوچ رہا ہوگا‘۔
پہلے ان اقوال کی سند کو دیکھتے ہیں۔ انہیں کس نے روایت کیا؟ کیا محترمہ علیمہ خان صاحبہ نے‘ جن کی عمران خان صاحب سے ملاقاتیں ہوتی ہیں؟ کیا کوئی وکیل جو اُن کے ساتھ کثرت سے ملتاہے؟ معلوم ہوتا ہے ان اقوال کا راوی نہ تو وکیل ہے نہ ان کی ہمشیرہ۔ تو پھر کون ہے جس کے سامنے انہوں نے یہ باتیں کہیں؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ ایسی روایات کو علم کی زبان میں مجہول کہا جاتا ہے جن کے راوی کی کوئی خبر نہ ہو۔ انہیں بالاتفاق ناقابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے۔
یہ روایات اکثر موضوع ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے 'گھڑی ہوئی‘، 'بناوٹی‘۔ کچھ تحقیق کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خالق وہی ہیں جن کے تبصرے میں نے نقل کیے۔ وہی پہلے ان اقوال کی تشہیر کرتے اور پھر ان پر اپنی عقیدت کا رنگ چڑھا کر‘ خان صاحب کو بانس پر چڑھا دیتے ہیں۔ پیشِ نظر کچھ اور نہیں‘ شکم ہے۔ ایک طبقہ دوسری طرف بھی صف آرا ہوتا ہے۔ وہ للکاتا ہے: 'اچھا! اتنے بہادر ہو تو کر کے دکھاو‘۔ کبھی استہزا کے لہجے میں بھی مخاطب کرتا ہے۔ اب دونوں اطراف رونق لگ جاتی ہے۔ اس کا فائدہ دونوں کو ہوتا ہے۔ اس سے بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ سوشل میڈیا کے مجاہدوں کی نورا کشتی ہے۔ صفِ مخالف میں کھڑے مجاہد ہوں یا صفِ دوستاں میں‘ سب اپنی غرض کے بندے ہیں۔ عمران خان کی رہائی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں معلوم ہے وہ جب تک جیل میں ہیں‘ تب تک ہی ان کی دکان چلے گی۔ اس لیے دونوں کی مشترکہ جدوجہد کا مقصد یہ ہے کہ وہ باہر نہ آنے پائیں۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں۔ کاروباری دنیا ایسی ہی ہے۔ چند دہائیاں پہلے‘ ملک کے دو مقبول کالم نگاروں نے مل کر ایک اخبار کا اجرا کیا۔ دونوں اس میں کالم لکھتے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے۔ ایک کی زبانِ حق ترجمان سے میں نے سناکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ مقصود اخبار بیچنا ہے۔
یہ اقتدار کی سیاست ہے‘ حق وباطل کا کوئی معرکہ نہیں۔ ہر کوئی اقتدار تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مجھے اس میں شبہ نہیں کہ کوئی اچھے جذبے سے بھی اقتدارکی خواہش رکھ سکتا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ قوتِ محرکہ جو بھی ہو‘ منزل اقتدار ہے جس کا راستہ معلوم گھاٹیوں سے ہوکر نکلتا ہے۔ اس راستے میں آپ کا زادِ راہ وہی ہو گا جو دوسروں کا ہے۔ اگر یہ راستہ خچرگھوڑے کے لیے سازگار ہے تو اس پر موٹر نہیں چل سکتی۔ آپ جس نظام سے اقتدار کی باگ لینا چاہتے ہیں‘ اس کے ساتھ تصادم سے یہ آپ کے ہاتھ نہیں آئے گی۔ اس کے لیے وہ لب ولہجہ مفید نہیں جو آپ نے اپنا رکھا ہے۔ مزید ظلم یہ ہے کہ اسے عمران خان صاحب سے منسوب کر کے بیچا جا رہا ہے۔ یہ باتیں اگرچہ خان صاحب کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہیں مگر مجہول روایت کی بنیاد پر ان اقوال کو ان سے نسبت نہیں دی جا سکتی۔
سوشل میڈیا پر تصادم پسندوں کا زور ہے۔ پارٹی خان صاحب کا متبادل تلاش نہیں کر سکی۔ خود خان صاحب بھی اس باب میں واضح نہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں کون ہے جس کی بات کو پارٹی کا مؤقف سمجھا جائے۔ اس ابہام نے تصادم پسند گروہوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اس ہیجان سے فائدہ اٹھائیں جو بدقسمتی سے خود خان صاحب نے پیدا کیا تھا۔ اس ہیجان نے دوست دشمن کی تمیز بھی اٹھا دی ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب ہمیشہ تحریک انصاف کے سیاسی کردار کی تائید کرتے آئے ہیں۔ وہ یہ لکھتے رہے کہ پارٹی کو دیوار سے نہیں لگانا چاہیے۔ اسی طرح انصار عباسی صاحب بھی ایک خیر خواہ کی طرح تصادم سے گریز کا مشورہ دیتے رہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ دونوں بدترین تنقید بلکہ تنقیص کا نشانہ بنے۔
تحریک انصاف کی قیادت کو یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ سیاست‘ سیاسی انداز ہی میں کی جا سکتی ہے۔ درجہ حرارت کو مسلسل بڑھاتے رہنا آپ کی توانائی کو ضائع کر دیتا ہے۔ اقتدار کی سیاست میں اصول نہیں‘ مقاصد پیشِ نظر ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے مقصد کو درست سمجھتا ہے اور اس کے حصول کے لیے راستہ تلاش کرتا ہے۔ عمران خان صاحب پر جس طرح اقتدار کے دروازے کھلے‘ اسی طرح بند ہو گئے۔ یہ دوبارہ کیسے کھلیں گے‘ خان صاحب کو اس سوال کا جواب معلوم ہونا چاہیے۔ وہ اسی کو سامنے رکھ کر کوئی حکمتِ عملی بنائیں۔ یہ طے ہے کہ تصادم سے یہ تالا کھلنے والا نہیں۔
عمران خان صاحب کو اس وقت دو کام کرنے چاہئیں۔ پہلا کام سیاسی وتنظیمی فیصلے ہیں۔ وہ ایک ٹیم بنا دیں جو عدالتی معاملات کی نگرانی کرے اور وکلا تک محدود رہے۔ دوسری ٹیم سیاسی معاملات کو دیکھے۔ یہ خودمختار ہو جو اقتدار کے ایوانوں میں موجود قوتوں سے مکالمہ کرے۔ یہ قوت ایک نہیں‘ ایک سے زیادہ ہیں۔ اسی ٹیم کا ایک رکن میڈیا اور عوام کے سامنے پارٹی پالیسی کا ابلاغ کرے۔ اسی کی بات کو پارٹی پالیسی سمجھا جائے۔ وہ دوسرا کام یہ کریں کہ سوشل میڈیا کے ان لوگوں سے اعلانِ برأت کریں جو اُن سے محبت کی آڑ میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو مسلسل اضطراب اور تصادم کی کیفیت میں رکھتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ کوئی مکالمہ نہ ہونے پائے۔ یہ دانستہ مخالفین کی اس طرح توہین کرتے ہیں کہ مذاکرات کے امکانات برباد ہو جائیں۔ پست اخلاقیات کے مظاہر‘ اسی طرز کے جواب کا جواز پیدا کرتے ہیں اور یوں فضا مزید مکدر ہوتی ہے اور مکالمے کا باب کھلتا ہی نہیں۔
عمران خان صاحب سے منسوب یہ اقوالِ زریں‘ اس آگ کے لیے ایندھن ہیں۔ سطحی ذہن اسے بہادری سمجھتا ہے‘ یہ جانے بغیر کہ سیاست میں یہ اسلوب روا نہیں رکھا جاتا۔ یہ سیاست ہے‘ میدانِ کارزار نہیں۔ سیاست تو معاملہ فہمی کا نام ہے۔ یہ بند دروازوں کو کھولنا ہے‘ انہیں زنگ آلود کرنا نہیں۔ یہاں جذبات نہیں‘ بصیرت کام آتی ہے۔ اس کے لیے اخلاقیات کی قربانی دینا ضروری نہیں۔ اسی سیاست میں رہ کر مولانا مودودی اور نواب زادہ نصر اللہ خان جیسوں نے اپنا وجود باقی رکھا۔ مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔ اُن کی جماعت پر پابندی لگی۔ جماعت اسلامی بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں بھی زیرِ عتاب رہی مگر انہوں نے کسی دور میں مکالمے کا دروازہ بند نہیں کیا۔ ان کے لہجے میں اگر تلخی آئی بھی تو کچھ دیر کے لیے۔ انہوں نے اسے اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں بننے دیا۔ جماعت اسلامی نے ان کی قیادت میں عورت کی حکمرانی کا قبول کیا درآں حالیکہ وہ اسے شرعاً درست نہیں سمجھتے تھے۔ یہ وقت کا جبر ہے جسے سامنے رکھ کر سیاسی حکمتِ عملی بنتی ہے۔ یہ ہمیں سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ سے سیکھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے شہ سواروں کے کہنے پر بطلِ حریت بننے میں دیر نہیں لگتی اور ان کی بات مان کر تاریخ کی دھول بننے میں بھی وقت نہیں لگتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں