اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کی سیرت نگاری ایک ایسا موضوع ہے صدیاں گزر جانے کے باوجود جس کے شباب پر کوئی فرق نہیں آیا۔ اس میں ندرت کے ساتھ بے پناہ کشش ہے۔ پچاس ہزار سے زیادہ کتب لکھی جا چکیں لیکن ہنوز چشمۂ فیض ہے کہ رواں ہے۔ فکر ہے کہ اس کا تجسس ختم نہیں ہو رہا۔
تاریخ میں جو عظیم الشان شخصیات پیدا ہوئیں انہیں زمان ومکان کی گرفت میں لانے کی سازش کی گئی۔ انسانی فکر نے چاہا کہ ان کی شخصیت اور فکر کو پوری طرح سے جان لے۔معلوم ہوا کہ بعض شخصیات تاریخ سے بڑی ہوتی ہیں۔ زمان اور مکان کی وسعت ان کی تمام جہتوں کو سمیٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بالعموم یہ شخصیات پیغمبروں کی ہیں۔ چونکہ اکثر کا تعلق قبل از تاریخ عہد سے ہے اس لیے ان کے حالات ہمیں پوری طرح معلوم نہیں۔ اس میں صرف ایک شخصیت کا استثنا ہے اور وہ سیدنا محمدﷺ ہیں۔ وہ تاریخ کی مستند شخصیت ہیں جن کا انکار عقلاً محال ہے۔ اس پہ مستزاد قدرت نے ان کی سیرت کو محفوظ کرنے کا غیر معمولی اہتمام کیا۔ اسے اوراق پر لکھا نہیں گیا کہ اس کے مٹ جانے کا امکان ہوتا۔ اس سیرت کو سماج کا چلتا پھرتا عمل بنا دیا گیا‘ جسے تواتر کہتے ہیں۔ اس سیرت کے نقوش نسل در نسل اس طرح منتقل ہوتے گئے کہ ان کی ہر ادا محفوظ ہو گئی۔ قلم نے بھی حسبِ توفیق اس کی حفاظت اور فہم کے لیے اپنی خدمت سرانجام دی۔ سیرت نگاری کی تاریخ اس کی مثال ہے۔
انسان اپنی محدودیت کے باعث سیرت کے کسی ایک پہلو کو ایک حد تک سمجھ سکا۔ اس نے سیرت نگاری میں مختلف اسالیب کا دروازہ کھولا۔ مغازی سے سیرت نگاری شروع ہوئی اور پھر زمانے کے تقاضوں اور افراد کی افتادِ طبع کے تحت سیرت نگاری میں کئی مکاتب وجود میں آئے۔ کسی نے آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں پیش آنے والے واقعات کو زمانی ترتیب سے بیان کیا۔ کسی نے موضوعاتی مطالعہ کیا۔ کسی نے فقہ کے پہلو سے سیرت کو دیکھا‘ کسی نے اعتراضات کا جواب دیا۔ ادیب نے اسے ادبی اسلوب میں بیان کیا۔ سماجی علوم کے ماہرین نے اس سے علوم کے لیے ہدایت اور راہنمائی کشید کی۔ اہلِ تفسیر نے سیرت سے قرآن مجید کو سمجھا۔ آپﷺ کے اقوال وافعال کا ریکارڈ مرتب کیا گیا‘ جس سے علمِ حدیث نے جنم لیا۔ میں اپنے محدود علم کے باوجود اس داستان کو دراز کر سکتا ہوں۔ اس سے آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس عنوان کی وسعت کا کیا عالم ہوگا۔ مضمون کی یہ وسعت دراصل اس ہستی کی وسعت کو بیان کرتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قیامت کی صبح تک آسمانی ہدایت کا واحد ماخذ بنایا ہے۔ یہ اس کا بدیہی تقاضا ہے کہ ہر عمر کے لوگ اس سے روشنی پائیں۔ ایک پھول کے مضمون کے سو رنگ سے باز رہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں صرف اردو اور انگریزی زبان میں شائع ہونے والی سیرت کی بہت سی کتابیں میری نظر سے گزریں۔ جبار مرزا صاحب کی ''محمد‘‘ شائع ہوئی۔ عکسی مفتی صاحب کی ''محمدﷺ: دورِ جدید میں‘‘ لکھی گئی۔ یہ انگریزی اور اردو‘ دونوں زبانوں میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے انگریزی زبان میں سیرت کے اُس لٹریچر کا تعارف کرایا جو اردو میں لکھا گیا۔ ڈاکٹر طاہر صدیق کی ''معاشیاتِ نبوی‘‘ لکھی گئی۔ ڈاکٹر محمد ریاض محمود صاحب نے‘ جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ قدرتی آفات سے نمٹنے کے نبوی منہج کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ انگریزی زبان میں شائع ہونے والی یہ کتاب اس سال حکومتِ پاکستان کی طرف سے اول انعام کی مستحق ٹھہری ہے۔ ان تینوں کتابوں کی اشاعت کا اہتمام قومی رحمت للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی نے کیا ہے۔
سیرت نگاری کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس نے صرف علومِ اسلامیہ کے ماہرین ہی کو اپنی جانب متوجہ نہیں کیا بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اسے اپنے لیے سعادت سمجھا کہ وہ سیرت کو موضوع بنائیں۔ اس کے عمومی اسباب دو ہیں: ایک تو یہ بعض افراد کا اپنا ذوق ہے۔ دوسرا‘ اپنے شعبے میں مہارت کے سبب‘ وہ زندگی کے بعض ایسے پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں جن کے بارے میں انہیں خیال ہوتا ہے کہ اگر سیرتِ پیغمبر کی روشنی میں انہیں سمجھا جائے تو انسانیت کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا۔ ایسی ہی ایک شاندار کتاب ''بشرِ کامل‘‘ بھی حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے مصنف ڈاکٹر اشفاق احمد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر یونیورسٹی آف ٹیکساس‘ امریکہ میں کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ پاکستانی ہیں مگر اپنے شعبے میں بین الاقوامی سطح پر شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب اصلاً انگریزی زبان میں ہے۔ ''بشرِ کامل‘‘ اس کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ پہلے حصے میں ڈاکٹر صاحب نے نبی کریم حضرت محمدﷺ کی حیاتِ مبارکہ کو زمانی ترتیب کے ساتھ بالکل جدید اور منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ دوسرے حصے میں سیرت میں موجود سو ایسی انسانی خوبیوں کا ذکر کیا ہے‘ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبیﷺ کیسے ''بشرِ کامل‘‘ تھے۔ یہ کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ڈاکٹر صاحب کو رسالت مآبﷺ سے جیسی عقیدت ہونی چاہیے وہی اس کتاب کو لکھنے کا محرک ہے اور کتاب کے مطالعے سے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ کتاب ان لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہے جو جدید انسان سے واقف ہیں اور اس میں چند خصوصیات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے دلائل سے بتایا ہے کہ نہ صرف یہ تمام خوبیاں نبیﷺ کی سیرت میں بدرجہ اُتم موجود ہیں بلکہ اس سے کہیں آگے جہاں تک انسان سوچ سکتا ہے‘ آپﷺ کی ذات والا صفات ان کا بھی مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ نبیوں کی بعثت اس لیے ہوتی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ اس لیے لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے عہد کے ''بشرِ کامل‘‘ ہوں جن کی اتباع‘ ایک بشر کے لیے قابلِ حصول آئیڈیل بنے اور وہ اس کے لیے کوشش کرتا رہے۔ اس راہ میں وہ جتنا کامیاب ہو گا‘ اتنا ہی ''اچھا انسان‘‘ بنتا جائے گا۔ وہ اچھا انسان‘ جس کی کامل تصویر انبیائے کرام ہوتے ہیں۔ نبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اس لیے آپ کا عہدِ رسالت آنے والے تمام زمانوں پر محیط ہے۔ آپﷺ تاابد انسانوں کے لیے وہ آئیڈل ہیں جن کی اطاعت سے ہر انسان کمال حاصل کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد نے یہ کتاب دورِ حاضر کے اسی انسان کے لیے لکھی ہے جو اپنے لیے کس کامل نمونے کی تلاش میں ہے۔ کتاب کا اسلوب ایسا ہے جو جدید انسان کے لیے اجنبی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب سے حاصل ہونے والی آمدن کو بھی سبیل اللہ خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جب عالمِ اسلام نبی کریمﷺ کا پندرہ سو سالہ جشن ولادت منا رہا ہے ایسی کتب کی اشاعت بتا رہی ہے سیرت ایک تازہ‘ جدید اور سدا بہار موضوع ہے جس کی روشنی قیامت تک ماند نہیں پڑے گی۔ یہ محض عقیدت کی زبان نہیں‘ وہ امرِ واقعہ ہے جو لوحِ وقت پر رقم ہے۔