"KNC" (space) message & send to 7575

رحمتِ زمین کے لیے… دوسرا سیرت فیسٹیول

آسمان کبھی یوں برستا ہے کہ زمین پر زندگی محال ہو جاتی ہے۔ کرہ ارض کبھی اس طرح توازن کھو دیتا ہے کہ فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ آفات کیوں آتی ہیں؟ اگر کبھی ایسی صورتِ حال کا سامنا ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا الہامی ہدایت اس باب میں ہماری کوئی راہنمائی کرتی ہے؟
بطور علمی مقدمہ‘ ان سوالات کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر محمد ریاض محمود صاحب کی انگریزی کتاب میں زیرِ بحث لایا گیا ہے جو اس سال 12 ربیع الاول کو پہلے انعام کی مستحق قرار پائی ہے اور جس کی اشاعت کا اہتمام 'قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النّبیین اتھارٹی‘ نے کیا ہے۔ بطور تدبیر یہ دوسرے سیرت فیسٹیول کا موضوع ہے جو 16 سے 18ستمبر تک اسلام آباد میں منعقد ہو گا۔ کتاب کی اشاعت کے ساتھ اس فیسٹیول سے ان شاء اللہ یہ بات مستحکم ہو گی کہ ایسے معاملات میں درست‘ قابلِ عمل اور متوازن راہنمائی اسلام ہی فراہم کرتا ہے۔
ایسے معاملات میں اسلام کا مقدمہ دو ماخذات پر قائم ہے۔ ایک عقل جو انسان کو پیدائش کے ساتھ ودیعت کی گئی ہے۔ دوسرا ماخذ وحی ہے۔ یہ خدا کا انسان سے خطاب ہے۔ اس کا ظہور اس ہدایت کی صورت میں ہوتا ہے جو پیغمبروں کی وساطت سے ملتی ہے۔ ختمِ نبوت کے بعد‘ یہ ماخذ آفات کے معاملے میں دو نکاتی لائحہ عمل دیتے ہیں: یہ واقعات اس حقیقت کی تذکیر ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور اس پر اُسے مکمل تصرف حاصل ہے۔ وہی خدا انسانوں کا بھی خالق ہے جنہیں اپنے نامہ اعمال کے ساتھ‘ ایک دن اس کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ایسی کوئی آفت آ جائے تو عقل کو استعمال کرتے ہوئے ان آفات سے بچنے اور ان سے نمٹنے کی تدبیر کی جائے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے یہ دونوں باتیں بتائی ہیں۔ انہوں نے ہمیں جو دین دیا ہے‘ اس میں یہ دونوں متشکل ہو گئی ہیں۔
سیرت فیسٹیول کے موقع پر جو دو روزہ عالمی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اس کا موضوع یہی ہے: ''رحمتِ زمین کے لیے: ماحولیاتی اخلاقیات‘ اسوہِ پیغمبرﷺ کی روشنی میں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو عالمین کے لیے رحمت بنایا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ اس زمین کے لیے بھی رحمت ہیں۔ آپﷺ نے ہمیں ماحولیات کے تحفظ کے لیے جو راہنمائی دی ہے‘ اس میں بتایا کہ ہوا کو کیسے صاف رکھنا ہے۔ اس میں درخت لگانے کی ترغیب ہے۔ پانی کو محفوظ بنانے کی تلقین ہے۔ زمین کو مضبوط بنانے کے لیے درختوں کے ساتھ پہاڑوں اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی نصیحت ہے۔ کانفرنس میں ساٹھ کے قریب مقالات پڑھے جائیں گے۔ ان میں جہاں ماحولیات کی حفاظت کے لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے‘ وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دوسرے الہامی مذاہب کی تعلیم کیا ہے اور کیسے وہ ان معاملات میں اسلام سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کے ساتھ وہ عملی تجاویز بھی دی گئی ہیں جنہیں اختیار کر کے ہم اپنے ماحول کی حفاظت کر سکتے اور ان قدرتی آفات سے ممکن حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس کانفرنس میں عذاب‘ مکافاتِ عمل اور آزمائش جیسے تصورات پر بھی بات ہو گی جو ان آفات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اکثر غلط فہمیوں کا باعث بنتے ہیں۔
سیرت فیسٹیول ایک نیا تصور ہے جسے پچھلے سال ربیع الاول میں 'قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النّبیین اتھارٹی‘ نے متعارف کرایا ہے۔ یہ ادارہ نبیﷺ کی سیرت وتعلیمات پر تحقیق اور اس کی روشنی میں شخصیت اور ادارہ سازی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ کام تحقیق‘ تعاون اور ابلاغ کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ اس فیسٹیو ل میں سیرت کتاب میلہ ہوتا ہے۔ نبیﷺ کے اسمائے گرامی اور ارشادات پر خطاطی کا مقابلہ اور فن پاروں کی نمائش ہوتی ہے۔ محفلِ نعت کے ساتھ سیرت مشاعرہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے بطورِ خاص 'سیرت یوتھ کنونشن‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ سیرت پر شائع ہونے والی نئی کتب کی راہنمائی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پوری قوم اور بالخصوص نئی نسل کو سیرت کی طرف متوجہ کیا جائے۔ یہ کام 'رحمۃ للعالمین یوتھ کلب‘ بھی کرتا ہے جو ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان میں نوجوانوں کو سیرت کے مطالعہ اور اس پر عمل کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے‘ اس وقت پاکستان کے عوام جس مشکل سے دوچار ہیں‘ اس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اگر ہم نبیﷺ کی تعلیمات کو سامنے رکھیں۔ مسلم علمی روایت میں ان تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے جو راہنمائی دی گئی ہے‘ وہ ہمارے فقہا کی بصیرت کا اظہار تو ہے ہی‘ اس کے ساتھ اس کا بھی اعلان ہے کہ اسلام بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں کتنا حساس ہے۔ مثال کے طور پر فقہا نے ہوا میں ایسے تصرف سے منع کیا ہے جس سے دوسروں کو نقصان ہوتا ہو۔ اس سے واضح ہے کہ فضائی آلودگی پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بات کو پڑوسی کے حقوق کے ذیل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ہم گھر میں کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے فضا آلودہ ہو اور ہمسائے کے لیے تکلیف کا باعث بنے۔ اسی سے استنباط کرتے ہوئے عالمی سطح پر ایسی پالیسی بنائی جا سکتی ہے جو کسی ملک کو ایسے منصوبے بنانے سے روک دے جس سے دوسرے ممالک کی فضا متاثر ہوتی ہو۔
یہ انسانی عقل کا وہ کردار ہے جو مذہبی روایت میں ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے۔ فقہ تو ہے ہی انسانی عقل کا مظہر۔ اس روایت میں وحی میں پوشیدہ حکمتوں کو انسانی عقل کی مدد سے بیان کیا گیا ہے اور پھر اسی عقل کے استعمال سے استنباطِ احکام کی روایت کو مہمیز دی گئی ہے۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ اس عقلی روایت کی موجودگی میں تقلیدِ جامد کا غیر عقلی رویہ کیسے اس روایت کا حصہ بن گیا اور عقل کو وحی سے غیر متعلق کر دیا گیا۔
ہماری علمی روایت عقیدہ ختمِ نبوت کا بدیہی نتیجہ ہے۔ نبیﷺ کے بعد چو نکہ کوئی نبی اور رسول نہیں آنا‘ اس لیے ہمیں اپنے عہد کے مسائل کو آپﷺ کے لائے ہوئے دین کی روشنی میں سمجھنا اور ان کے حل کے لیے اس دین سے راہنمائی لینا ہے۔ ہمارے فقہا نے اپنے اپنے ادوار میں یہ کام کیا۔ دورِ جدید کے فقہا وعلما نے آج کے دور میں یہ کام کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں جہاں اس روایت سے مدد لینا ہے وہاں اسی وحی اور عقل کی مدد سے نئی آرا بھی قائم کرنی ہیں جس طرح ان فقہا نے اپنے دور میں نئی آرا اختیار کیں۔ ماحولیات کے لیے ہم قدیم سے راہنمائی لے سکتے اور نئے حل بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
معاشرے کی بُنت اگر مذہبی ہو تو دنیاوی معاملات میں بھی مذہب سے راہنمائی لینا ناگزیر ہوتا ہے۔ مذہب کسی ایسے حل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ نبیﷺ نے تو علمِ نافع ہی کے لیے دعا فرمائی ہے۔ آپﷺ نے دنیا اور آخرت میں خیر کی تمنا کی ہے۔ اگر ہم دینی تعلیمات کی روشنی میں اپنے عہد کے مسائل کا حل تلاش نہ کر سکیں تو یہ دین کا مسئلہ نہیں‘ ہماری کوتاہی کا اظہار ہے۔ قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النّبیین اتھارٹی کی یہ کانفرنس اس کا علمی اور عملی مظہر ہو گی کہ ماحولیات جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے اسلام کی راہنمائی میں ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کیا جا سکتا ہے جو ایک طرف تعلق باللہ کو مضبوط کرے اور دوسری طرف ہمیں ان آفات سے وابستہ نقصانات سے بھی بڑی حد تک محفوظ بنائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں