"KNC" (space) message & send to 7575

فلک بوس عمارت یا دو منزلہ مکان؟

بلاشبہ یہ ایک خوشی کی خبر ہے۔ اس کی بنیاد پر مگر کیا توقعات کی کوئی فلک بوس عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے‘ یا دل کو ایک دو منزلہ مکان پر مطمئن ہو جانا چاہیے؟
یہ دو ممالک کا باہمی معاہدہ ہے۔ اس کا کسی تیسرے ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ خواجہ آصف صاحب کا کہنا ہے کہ اس طرز پر دوسرے ممالک کے ساتھ بھی معاہدے ہو سکتے ہیں۔ اگر بات اتنی ہے تو حسبِ خواہش ہم اس بنیاد پر امتِ مسلمہ کی عظیم الشان عمارت کھڑی کر سکتے ہیں اور دو ملکی باہمی معاہدہ سمجھ کر دو کمروں کا مکان بھی بنا سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بڑی عمارت کی خواہش اپنے اندر امرِ واقعہ بننے کے کتنے امکانات لیے ہوئے ہے۔
عالمِ اسلام کے کچھ ممالک ایسے ہیں جن کی روایتی عسکری قوت پاکستان سے زیادہ ہے۔ پاکستان کا امتیاز مگر یہ ہے کہ وہ ایک ایٹمی قوت ہے۔ اس کے ساتھ اس کی فوجی مہارت کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اس کا ایک فطری نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اگر کسی ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرتا ہے اور اس پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور کرتا ہے تو یہ دوسرے ملک کی دفاعی قوت اور اطمینان میں یکدم غیر معمولی اضافہ کر دیتا ہے۔ اس لیے اگر سعودی عرب میں آج خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے تو یہ قابلِ فہم ہے۔
اس کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ ایٹمی پروگرام ایک ایسا منصوبہ تھا‘ پاکستان کی معیشت جس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ بھٹو صاحب نے اگر یہ کہا تھا کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے تو یہ شاعرانہ مبالغہ نہیں تھا۔ اس موقع پر کچھ دوستوں نے پاکستان کو معاشی بحران سے محفوظ رکھا۔ سعودی عرب ان میں سرِفہرست ہے۔ دوستی جب اس سطح پر ہو تو پھر دوستوں میں ایک خاموش معاہدہ ہوتا ہے جسے لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دونوں ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ آج وہ موقع آ گیا ہے جب خاموشی کی اس چادر کو اتارا جا سکتا ہے۔ اسے اتار دیا گیا ہے۔ جو لوگ سیاست کو جانتے ہیں‘ انہیں اندازہ ہے کہ بعض اوقات قومی مفاد متقاضی ہوتا ہے کہ خاموش رہا جائے۔ یہ خاموشی کئی برس پر محیط ہو سکتی ہے۔ اسی لیے جو صبر نہیں کر سکتا اور ہیجان میں مبتلا رہتا یا رکھتا ہے‘ سیاست اس کا میدان نہیں۔
اسرائیل کو اچھی طرح خبر ہے کہ اُس کیلئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی معنویت کیا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے جب پاکستان کی دفاعی قوت کو کمزور کیا جا سکے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں اسے موقع ملا تو اس نے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی۔ اللہ نے اپنے فضل سے پاکستانی فوج کو قوت بخشی اور یہ کوشش ناکام رہی۔ یہ بات امریکہ کو بھی معلوم ہے۔ قادرِ مطلق مگر اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ امریکہ کے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس مسلسل عمل کو روک نہیں سکا جو اَب ایک اور سنگِ میل عبور کر رہا ہے۔
کیا یہ دو طرفہ معاہدہ عالمِ اسلام کے تمام ممالک کے درمیان معاہدے میں بدل سکتا ہے؟ سرِدست تو اس کا امکان نہیں مگر مستقبل میں کسی وقت ایسا ہو جائے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہو گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج جس سفر کا آغاز ہوا ہے‘ وہ درست سمت میں ہے۔ اب عملی صورت وہی ہے جس کی طرف خواجہ آصف صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ اس طرز پر مزید دو یا سہ طرفہ معاہدے ہو سکتے ہیں۔ یہ معاہدے بوقتِ ضرورت وہی کام کریں گے جو عالمِ اسلام کی سطح پر ہو نے والا کوئی معاہدہ کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان عالمِ عرب کے تمام ممالک کے ساتھ اس نوعیت کے باہمی معاہدے کرتا ہے تو کسی مشکل وقت میں عملاً یہ ایک معاہدہ بن جائے گا۔
یہ پیش قدمی علامہ اقبال کے تصور کے عین مطابق ہے۔ ان کی بصیرت نے یہ دیکھ لیا تھا کہ قومی ریاست کے قائم ہونے کے بعد‘ عالمگیر خلافت کا تصور واقعہ نہیں بن سکتا۔ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کی واحد صورت یہی ہو سکتی ہے کہ سب ممالک اپنی سطح پر مضبوط ہوں اور پھر ان کے درمیان لیگ آف نیشنز کی طرز پر کوئی اتحاد وجود میں آئے۔ یہ قومی ریاست کی موجودگی میں نظریاتی وحدت کو باقی رکھنے کی ایک عملی صورت ہے۔ تحریکِ خلافت سے اگر اقبال اور قائداعظم‘ دونوں الگ رہے تو انہیں معلوم تھا کہ یہ سعی لاحاصل ہے۔ مولانا مودودی نوجوان ہونے کے باوجود مخمصے کا شکار رہے کہ جس خلافت کی عبا کو خود ترکوں نے چاک کر دیا‘ ہم اسے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ آج بھی دنیا میں اس کے امکانات پیدا نہیں ہوئے کہ عالمگیر خلافت کو حقیقت بنایا جا سکے۔ اس لیے یہ پیش رفت‘ کہا جا سکتا ہے کہ اس سمت میں ایک درست قدم ہے۔
مضمرات کے حوالے سے تین باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کو یہ معاہدہ‘ کیا اقتصادی بحران سے نکالنے میں مددگار ہو گا؟ راحیل شریف صاحب کو سعودی عرب بھیجنے کا انہیں تو یقینا فائدہ ہوا لیکن پاکستان کو کیا ملا‘ میرے علم میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر سوچا گیا ہو گا۔ اگر پاکستان میں قابلِ ذکر سرمایہ کاری ہو اور سعودی عرب میں پاکستانیوں کیلئے ملازمت کے مواقع ارزاں ہوں تو عام آدمی کی معیشت میں فوری بہتری آ سکتی ہے‘ جو آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ معاشی پالیسیوں کے فوائد ابھی عام آدمی تک نہیں پہنچے۔ اس سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقع پیدا ہونے سے یہ ممکن ہو جائے گا۔ دوسری اہم بات ان مسلم ممالک کا ردِعمل ہے‘ مشرقِ وسطیٰ میں جن کے مفادات سعودی مفادات سے متصادم ہیں۔ تیسرا امریکہ کا ردِعمل ہے۔ میرا خیال ہے اس معاملے میں ان سب ممالک کو اعتماد میں لیا گیا ہو گا۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ کے دروازے پر پاکستان کی عسکری دستک کو آسانی سے نظر انداز کرنا امریکہ کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔ امید ہے کہ پاکستان کے قائدین ان مضمرات سے آگاہ ہوں گے ا ور اس باب میں ضروری تیاری کی جا چکی ہو گی۔
گزشتہ چند ماہ میں عالمی منظرنامے پر جو تبدیلیاں آئی ہیں‘ میں انہیں تاریخ کے مابعد الطبیعیاتی حوالے سے دیکھ رہا ہوں۔ طبیعیا تی زندگی میں چند ماہ پہلے تک‘ اس بات کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا کہ پاکستان اچانک عالمی امور میں اتنا اہم ہو جائے گا اور بھارت ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو جائے گا‘ جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا نہیں ہو گا۔ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی فتح‘ امریکہ کا پاکستان کے لیے التفات اور وہ بھی صدرٹرمپ کے ہوتے ہوئے‘ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلیاں‘ ایران پاکستان تعلقات میں گرم جوشی‘ پاک سعودی معاہدہ‘ ان سب کا ایک ساتھ ہونا کوئی طبیعی امر دکھائی نہیں دیتا۔
اس سے انسانی کوششوں کی نفی مطلوب نہیں۔ پاکستان کی عسکری مہارت نہ ہوتی تو بھارت کے خلاف میدانِ جنگ میں فتح نصیب نہیں ہو سکتی تھی۔ خارجہ پالیسی کی سمت درست نہ ہوتی تو دنیا ہماری طرف متوجہ نہ ہوتی۔ بنگلہ دیش میں تبدیلی مگر پاکستان کی وجہ سے نہیں آئی۔ صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کے مابین دوری میں ہمارا کوئی کردار نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہونے واقعات بھی ظاہر ہے کہ ہمارے دائرہِ عمل میں نہیں آتے۔ ان واقعات کا اجتماع اگردنیا کو ایک نتیجے تک پہنچا رہا ہے تو یقینا یہ تاریخ کا وہ پہلو ہے جس کی کوئی توجیہ علمِ تاریخ کی روشنی میں مشکل ہے۔ تاہم طبیعیات اور مابعد الطبیعیات میں ایک تعلق ہے جو انسان کو اپنی کوشش سے قائم کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ نتائج کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں