اگر مذہب کو بچانا ہے تو اسے اقتدار کی سیاست سے دور رکھیے۔ یہی بات سیاست کے لیے بھی درست ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھے اقبال کا یہ مصرع سنائیں 'جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ میری درخواست ہے کہ کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کالم کو آخری سطرتک پڑھ لیاجائے۔
سیاست اور مذہب کا تعلق دو طرح سے استوار کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ سیاست اُن اخلاقی قدروں کے تابع ہو جائے جو فطرت اور انبیاء کے توسط سے انسانوں کو عطا کی گئی ہیں۔ اقتدار کی امانت اہل افراد کے سپرد ہو۔ صاحبانِ اقتدار کا انتخاب عوام کی مرضی سے ہو۔ لوگوں سے ایفائے عہد ہو۔ جھوٹ نہ بولا جائے۔ اختلاف کرتے وقت شائستگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اہلِ سیاست اپنے اعمال کے لیے خود کو عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ سمجھیں۔ اقدار کی اس فہرست کو ہم مزید طویل کر سکتے ہیں۔
سیاست اور مذہب کا یہ تعلق نہ صرف لازم‘ بلکہ مطلوب ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اخلاقیات کے لیے مذہب ہی کیوں؟ یہ سب خواص تو سیکولر سیاست میں بھی ہو سکتے ہیں۔ میں اس وقت اتنی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ ہماری سماجی بُنت مذہبی ہے۔ ہماری اخلاقی قدریں مذہب ہی سے ماخوذ ہیں۔ اس کے بجائے کہ سماج کے لیے نیا اخلاقی چولا تیار کیا جائے‘ جس کے لیے سماجی ڈھانچے کو نیا قالب دینا ضروری ہے تاکہ نیا لباس اس کی قامت کے لیے موزوں ہو‘ ہمیں اس کی موجودہ ساخت کو سامنے رکھتے ہوئے‘ اس کے لیے قبا تجویز کرنی چاہیے اور وہ مذہب ہی کی ہو سکتی ہے۔ مذہب کو‘ اس وقت سماج سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا ‘ اس لیے ہمیں سیاست اور مذہب کے باہمی تعلق میں وہی ربط تلاش کرنا چاہیے جو حقیقی ہو‘ عملی ہو اور مفید بھی۔
سیاست اور مذہب کے باہمی تعلق کی دوسری صورت یہ ہے کہ عوام کے مذہبی جذبات کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ جرم ہے‘ عوام کی نظر میں بھی اور خدا کے حضور میں بھی۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ سیاسی تحریک‘ انتخابی دھاندلی کے خلاف ہو اور اسے 'تحریکِ نظامِ مصطفی‘ بنا دیا جائے۔ انتخابی نشان کتاب ہو اور اسے 'الکتاب‘ کے طور پر پیش کیا جائے۔ ہم خیال لوگوں کی جماعت بنائی جائے اور اسے 'الجماعۃ‘ قرار دے دیا جائے۔ اقتدار کی حریفانہ کشمکش کو حق وباطل کا معرکہ بنا دیا جائے۔ یہ مذہب کا سوئے استعمال ہے جو بدترین گناہ ہے اور میں مذہب وسیاست کے اس تعلق کی نفی کر رہا ہوں۔
خدا کے ہاں تو یہ جرم ہے ہی کہ اس کی آیات کو سستے داموں بیچا جائے‘ یہ سماج اور مذہب‘ دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ایک مذہب کے ماننے والوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ لوگ اپنے ہم مذہبوں کے خلاف‘ مذہب کے نام پر صف آرا ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو اہلِ مذہب‘ مسلک اور فرقے کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اگر یہ وہاں گناہ ہے تو سیاست میں ثواب کیسے ہو گیا؟ دوسرا یہ کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کے ساتھ اس نوعیت کی حساسیت وابستہ ہو گئی ہے کہ کوئی کسی وقت مذہبی جذبات کو بھڑکا کر‘ کسی کی جان لے سکتا ہے۔ مذہب کے نام پر‘ اس ملک میں جو خطرناک کھیل کھیلے جا رہے ہیں‘ ہم ان سے واقف ہیں۔ اگر ہم سیاست کے لیے بھی مذہب کو استعمال کریں گے تو یہ اس آگ پر مزید تیل ڈالنا ہو گا۔
تحریک انصاف نے اپنی نئی سیاسی مہم کو ایک عنوان دیا۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ عنوان سب سے پہلے کس کو سوجھا‘ لیکن میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تحریک انصاف سے وابستہ عام آدمی‘ اس اصطلاح کے تاریخی پس منظر سے بے خبر ہے۔ وہ ختمِ نبوت پر اُسی طرح ایمان رکھتا ہے جس طرح (ن) لیگ‘ پیپلز پارٹی یا کسی بھی جماعت سے وابستہ کوئی مسلمان رکھتا ہے۔ سب کا عقیدہ ایک ہے۔ اب ایک حماقت نے پوری جماعت کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ وہ اس کو اُگل سکتی ہے نہ نگل سکتی ہے۔ اس حرکت نے ان لوگوں کے لیے موقع پیدا کر دیا جو مذہب کے نام پر فتنہ اٹھانے کے ماہر ہیں۔ اس سے بچا جا سکتا تھا اگر ایک سیاسی مہم کے لیے کوئی سیاسی اصطلاح اختیار کی جاتی۔تحریک انصاف کے مخالفین اگر اس حماقت کو مذہبی رنگ دے کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے تو وہ بھی بدترین جرم اور گناہ کے مرتکب ہوں گے۔ (ن) لیگ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کی قیادت اسی طرح کے حساس موضوع پر ایک بڑی آزمائش سے گزر چکی۔ احسن اقبال صاحب کے جسم میں وہ گولی آج بھی موجود ہے جو ایک مذہبی جنونی نے چلائی تھی۔ پیپلز پارٹی بھی سلمان تاثیر کو کھو چکی۔ اس لیے اگر ایک حماقت تحریک انصاف نے کی تو دوسری سیاسی جماعتوں کو جوابی حماقت نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں اس آگ پر پانی ڈالنا چاہیے۔ ختمِ نبوت ایک اجماعی عقیدہ ہے۔ اسے کسی بحث کا موضوع بننا ہی نہیں چاہیے۔ تحریک انصاف کے وہ راہنما تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے بروقت اقدام کرتے ہوئے‘ اس اصطلاح سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
سیاست عوام کے لیے کی جاتی ہے اور مناسب یہی ہے کہ عوام اور ریاست کے مسائل ہی اس کا موضوع بنیں۔ مذہب وسیاست کے باب میں‘ ہمارے آئین نے بنیادی امور طے کر دیے ہیں۔ اہلِ سیاست کو اپنی توجہ روز مرہ کے عوامی مسائل پر مرتکز رکھنا چاہیے۔ اگر وہ مذہب کو سیاسی اغراض کے لیے استعمال کریں گے تو اپنے مسائل میں اضافہ کریں گے۔ یہ رویہ مذہب کے لیے بھی نقصان دہ ہے کہ سطحی سوچ مذہب کو اس فتنہ انگیزی کا سبب قرار دیتی ہے‘ درآں حالیکہ یہ انسان ہیں جن کے رویے فتنہ پیدا کرتے ہیں‘ جب وہ مذہب کو دنیاوی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے اس فرق کو ملحوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ آسانی سے غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ اسلام اور سیکولر ازم کی علمی بحث نہیں ہے۔ اس کا تعلق مسلم اکثریتی معاشرے میں مذہب کے کردار سے ہے۔ سیکولر ازم نے جب اجتماعی معاملات میں مذہب کے کردار کی مطلق نفی کی تو ردِعمل میں نفاذِ اسلام پر غیر معمولی زور دیا گیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ مخلص اور سنجیدہ لوگوں کے ساتھ‘ کچھ ایسے لوگ بھی اس مہم کا حصہ بن گئے جنہوں نے نفاذِ اسلام کے نعرے سے دنیاوی مفادات کشید کرنے کی سعی کی۔ اس سے مذہب کے سوئے استعمال کا وہ دروازہ کھلا ہے جسے اب ہم بند کرنا چاہتے ہیں مگرہو نہیں رہا۔
یہ نواز شریف صاحب ہوں یا عمران خان صاحب‘ انہیں کسی مذہبی نعرے نے مقبول نہیں بنایا۔ یہی معاملہ بھٹو صاحب کا بھی تھا۔ بات صرف اتنی نہیں۔ تاریخ کا سبق اس کے سوا ہے۔ جنہوں نے مذہب کے نام پر سیاست کی‘ وہ کبھی مقبول نہیں ہو سکے۔ اس سے واضح ہے کہ مذہب کا سہارا لیے بغیر بھی سیاست میں مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ سیاست کو ریاستی اور حکومتی امور ہی پر مرتکز رہنا چاہیے۔ معاشی خود انحصاری اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سیاسی نظام کی ہیئت بھی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ اس پر بات ہونی چاہیے۔ سیاست کے لیے موضوعات کی کمی نہیں۔ جو لوگ مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں‘ وہ اگر اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے مذہب کا نام استعمال کریں تو قابلِ فہم ہے کہ ان کی سیاست کا اس کے علاوہ کوئی حوالہ نہیں۔ مقبول سیاسی جماعتوں کو اس کی قطعی حاجت نہیں۔ وہ جب ایسا کریں گی تو یہ عمل کسی حماقت پر منتج ہو سکتا ہے‘ جیسے اب ہوا۔ اس لیے مذہب اور سیاست‘ دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ مذہب کو اقتدار کی سیاست سے دور رکھا جائے۔