"KNC" (space) message & send to 7575

ہاتھی اور دُم

ہاتھی نکل گیا مگر دُم باقی ہے۔ 'کچھ علاج اس کابھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں‘؟
عالمی سیاسی نظم کے تضادات اپنی جگہ مگر ہم بتدریج اُن سے ہم آہنگ ہو رہے ہیں۔ چین اور امریکہ کے مابین ایک توازن ہمیں برقرار رکھنا ہے۔ اس پل صراط پر ابتدائی قدم کامیابی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ واری جا رہے ہیں اورسی پیک فیز 2 کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس توازن کو برقرار رکھنا مشکل ضرور ہے‘ ناممکن نہیں۔ بھارت نے سرد جنگ کے دنوں میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین اس توازن کو باقی رکھا۔ آج عرب ممالک کو بھی اندازہ ہو چلا ہے کہ معاشی ترقی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اگر دفاع کے لالے پڑے ہوں۔ بھارت معیشت کے میدان میں پاکستان کی نسبت زیادہ مفید ہو سکتا ہے مگر دفاع کے لیے اس سے کوئی توقع نہیں باندھی جا سکتی۔ امریکہ نا قابلِ اعتبار ہے۔ پاکستان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ مسلم اکثریتی ملک ہے۔ عوام سرزمینِ حرمین سے ایک جذباتی رشتہ رکھتے ہیں جس کی بنیادیں مذہب میں ہیں۔ اس کا دفاع انہیں پاکستان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اسی احساس نے‘ گمان یہ ہے کہ عربوں کو پاکستان کی طرف ایک بار پھر متوجہ کر دیا ہے۔ معرکۂ حق نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا جب انہوں نے بچشمِ سر پاکستان کی عسکری مہارت کو دیکھا۔ یہ منظر نامہ امید کے کئی چراغ روشن کر رہا ہے۔
داخلی سطح پر بھی ایک ایسا سیاسی نظام ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے جس میں سب کی شراکت ہے۔ فوج اس کا حصہ ہے اور اہلِ سیاست بھی۔ کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کے باوجود اس میں حصہ دار ہیں۔ یہ بندوبست پارلیمانی جمہوریت کے مروجہ نظام سے ہم آہنگ تو نہیں مگر اسے غیر نمائندہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ گورننس کا ایک نیا تجربہ ہے جس کی قیادت ریاستی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تجربہ جڑ پکڑ رہا ہے اوراس وقت کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو اس کا فائدہ ہوا ہے۔ تاہم اس میں ایک بڑا خلا ہے اوراسے میں نے ہاتھی کی دُم کہا ہے۔ یہ تحریک انصاف کی عدم شرکت ہے۔
تحریک انصاف اس سیاسی بندوبست کا حصہ نہیں ہے۔ اگر عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد‘ جسے نظر انداز کرنا مشکل ہو‘ کسی نظام میں شامل نہ ہو تو وہ کسی وقت بھی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ میں اس بات کو بارہا دہرا چکا کہ سیاسی عصبیت کو عدالتی فیصلے ختم نہیں کر سکتے‘ اگر وہ قانون اور انصاف کے مطابق بھی ہوں۔ عصبیت لازم نہیں کہ شعوری بنیاد رکھتی ہو یا منطقی ہو۔ یہ کئی عوامل کے تابع ہوتی ہے۔ عمران خان صاحب کی عصبیت‘ میرے تجزیے کے مطابق کوئی عقلی اساس نہیں رکھتی۔ یہ کلٹ ہے اور اس کی تعریف یہی ہے کہ اس کی منطقی وعقلی بنیادیں نہیں ہوتیں۔ یہ مقدمہ محلِ بحث ہو سکتا ہے مگر اس امرِ واقعہ کا انکار محال ہے کہ خان صاحب کو قابلِ ذکر سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ اگر ایک سیاسی نظام زبانِ حال سے اس کا اعتراف نہیں کرتا تو وہ عدم استحکام کے خدشات میں گھرا رہے گا۔
ان خدشات کو دور کرنے کی دو ممکنہ صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ موجودہ سیاسی نظام تحریک انصاف کی عدم شرکت کے باوصف‘ عوام پراپنی افادیت ثابت کر دیتا ہے‘ یا شعوری سطح پر اکثریت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ عمران خان صاحب اور ان کی سیاست کا اسلوب پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس کا نتیجہ اس عصبیت کا خاتمہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ انہیں اس نظام میں شراکت دار بننے پر آمادہ کر لیتا ہے۔ اگر وہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں تو پھر عدم استحکام کے خدشات ختم ہو جائیں گے۔ پھر ہم ایک ایسا سیاسی نظام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جو عملاً قومی حکومت ہو گی۔
دوسری صورت تو مجھے واقعہ بنتی نظر نہیں آتی۔ نرگسیت عمران خان صاحب کی شخصیت کا جزو لاینفک ہے۔ شراکت داری ان کے مزاج کا حصہ نہیں ۔ دیوتا کسی دوسرے کو اپنی اقلیم میں گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے سیاسی بندوبست کا حصہ بنیں جس میں دوسرے بھی شریک ہوں۔ دوسری طرف اس نظام کے کارپرداز بھی اس جانب مائل نہیں ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ خان صاحب کے بغیر اس نظام کو کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھائیں گے۔ کیا ایسا ہو سکے گا اور اگر ہو جائے تو کیا خان صاحب کی عصبیت ختم ہو جائے گی؟
میں جب کلٹ کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے اس سوال پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ موجودہ سیاسی وعسکری قیادت کی کامیابیوں نے خان صاحب کے ارادت مندوں کو ردِعمل کا شکار بنایا ہے۔ اس پیش رفت سے ان کی نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہیں پاکستان کی ایسی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی جس کاکریڈٹ موجودہ سیاسی یا عسکری قیادت کو ملے۔ ہر کامیابی ان کے غصے میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ غصہ حب الوطنی اور سیاسی عداوت کی سرحد کو مٹا دیتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طبقے کی اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے؟ ممکن ہے یہ اقلیتی گروہ ہو جو اندھی عقیدت میں مبتلا ہو؟ میرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ اقلیت کا معاملہ نہیں ہے۔
اس رائے کا ایک اور سبب بھی ہے۔ حکومتی اور ریاستی کامیابیوں کی پشت پر‘ اس وقت کوئی سیاسی بیانیہ موجود نہیں ہے۔ سیاسی بیانیہ کسی واقعے یا کامیابی کو سیاسی حمایت میں بدل دیتا ہے۔ (ن) لیگ نام کی کوئی سیاسی جماعت کہیں نہیں پائی جاتی۔ اس کے سیاسی کردار غیر فعال ہیں کہ ان کے پاس کوئی واضح مؤقف نہیں ہے۔ بحیثیت وزیراعلیٰ‘ مریم نواز صاحبہ کی کارکردگی متاثر کن ہے۔ اس حسنِ کارکردگی کو مگر سیاسی قوت اور بیانیے میں بدلنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جوابی گالم گلوچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ (ن) لیگ کے حامی جب جواباً تحریک انصاف کا اسلوب اختیار کرتے ہیں تو وہ نواز شریف صاحب کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جو سنجیدگی کا مظہر ہے۔
اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر خارجی محاذ پر ملنے والی کامیابیاں‘ اس داخلی مسئلے کی یرغمال بن جائیں گی جس کا کوئی حل اس وقت موجود نہیں ہے۔ قومی مفاد متقاضی ہے کہ ہم یک جان ہو کر ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں جو قدرت نے پیدا کر دیے ہیں۔ یہ مواقع اپنے جلو میں کچھ مسائل بھی لیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پاک سعودی دفاعی معاہدے کے جواب میں‘ اسرائیل بھارت دفاعی معاہدہ بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ امریکہ اس کی پشت پر کھڑا ہو جائے۔ صدر ٹرمپ کی تلون مزاجی سے ہر بات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اس نوعیت کے خدشات کا سدِباب قومی یکجہتی سے ممکن ہے۔ سوال مگر وہی ہے: یہ ہاتھی تو کسی طور گزر جائے گا مگر دم کا کیا ہوگا جو ابھی تک اٹکی ہوئی ہے۔
میری نظریں تو بار بار نواز شریف صاحب کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ سیاسی خطرات مول لینے کی جرأت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے بھی کئی بار قومی مفاد کے لیے اپنی سیاست کو خطرے میں ڈالا ہے۔ کارگل کا معرکہ اس کی ایک مثال ہے۔ اگر وہ متحرک ہوں اور عمران خان صاحب سے جیل میں جا کر ملیں اور انہیں پیشکش کریں کہ وہ اگلے انتخابات تک اس نظام کا حصہ بنیں تو یہ ملاقات پورے ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے تو قومی یکجہتی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ موجودہ ہائبرڈ نظام ہاتھی کو نکال لے گیا۔ دُم کا نکلنا ابھی باقی ہے۔ یہ کام میرے خیال میں نواز شریف صاحب ہی کر سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں اقتدار کی سیاست میں مثالی حل نہیں ہوتے۔ یہ حل مگر مثالی کے ساتھ حقیقت پسندانہ بھی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں