ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک معرکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مجاہدین کے درمیان بر پا ہے۔ جماعت کے 'تحریکی شعور‘ اور پی ٹی آئی کے 'سیاسی شعور‘ کے مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں فرق تلاش کرنا میرے لیے تو ممکن نہیں رہا۔ تربیت اور اخلاق کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب انسان غصے میں ہو یا خوشی میں۔ تحریکی شعور اس امتحان میں پورا اترا ہے نہ سیاسی شعور۔
سادہ بات کو گروہی مفادات کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔ فلسطین کے معاملے میں فیصلہ کن کردار عربوں کا ہے۔ پاکستان کو ان کے پیچھے چلنا ہے۔ ترکیہ کا مردِ مجاہد ہو یا پاکستان کا کوئی بطلِ حریت‘ اس کے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ جماعت اسلامی کا امیر برسرِ اقتدار ہو یا تحریک انصاف کا کپتان‘ دونوں کے لیے اس سے مفر نہیں۔ یہی نوشتۂ دیوار ہے۔ تاریخ کا رخ موڑنے کی ہمت کسی میں نہیں۔ تنہا پرواز ممکن ہی نہیں۔ ہمارے سیاسی راہنما سڑکیں گرم کر سکتے ہیں‘ میدانِ کارزار نہیں۔ ایک ایسے معاملے میں‘ جس میں ہمارا کردار مقلد کا ہے‘ ایک دوسرے پر زبانِ طعن دراز کرنا بے معنی سیاست کے سوا کچھ نہیں۔
فلسطین تو ایک طرف‘ ہم مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے نہیں روک سکے۔ اسلامی سربراہی اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن کو مدعو کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے یہاں آ کر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ اب ہم بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔ جاوید ہا شمی جلوس لے کر نکلے جو 'بنگلہ دیش نامنظور‘ کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو پشت خالی تھی۔ سب مسلم سربراہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔ اس وقت کی مسلم قیادت آج کے راہنماؤں سے کہیں بہتر تھی۔ زیادہ توانا‘ زیادہ پُرجوش‘ زیادہ بہادر۔ تاریخ کا رخ موڑنے کی طاقت مگر ان میں بھی نہ تھی۔ اس سربراہ کانفرنس کا بس ایک ہی فائدہ ہوا‘ دنیا کے نقشے پر ایک نیا مسلم ملک نمودار ہو گیا۔
ایک حقیقت اور بھی ہے۔ سیاسی راہنما اور حکومتی سربراہ میں فرق ہوتا ہے۔ حکومت کا سربراہ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کا فرمان ریاستی پالیسی کے تابع ہوتا ہے۔ وہ لکھ کر اسی لیے بات کرتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکل جائے جس کی قیمت ریاست کو ادا کرنا پڑے۔ وہ لیاقت باغ یا موچی دروازے کے زبان نہیں بول سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ لیڈر صاحبِ بصیرت ہو تو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ذمہ دارانہ گفتگو کرتا ہے۔ عمران خان صاحب نے ٹویٹ کی یا نہیں کی‘ اگر سیاسی حرکیات کی تفہیم ہو تو یہ ایک بے معنی بحث ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ بحیثیت وزیراعظم انہوں نے کیا کیا؟ اس کا جواب تاریخ دے چکی۔ انہوں نے وہی کیا جو اس ملک کا ہر وزیراعظم کرتا ہے اور کر رہا ہے۔ اگروہ آج وزیراعظم ہوتے تو ان کی حکمتِ عملی وہی ہوتی جو موجودہ وزیراعظم کی ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ سعودی عرب کی مرضی جانے بغیر ملائیشیا کا دورہ کیا۔ انہیں اس پر سجدہ سہو ادا کرنا پڑا۔ عمران خان کیا‘ اگر نعیم الرحمن صاحب بھی آج اس منصب پر بیٹھے ہوتے تو یہی کرتے جو ہو رہا ہے۔ کیا وہ طیب اردوان صاحب سے زیادہ باہمت اور باعزم ہیں؟ ایک اور اسلامی حکومت بھی دنیا میں موجود ہے: امارتِ اسلامی افغانستان۔ اس کی پالیسی کا کسی کو کچھ علم ہے؟
سیاسی شعور ہو یا تحریکی شعور‘ آج دونوں کا شعور سے کم ہی تعلق ہے۔ یہ وہ اصطلاحیں ہیں جو خود فریبی نے تراش رکھی ہے۔ تحریکی شعور کے بارے میں ہم یہ تو جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح اپنا ایک علمی پس منظر رکھتی ہے۔ مولانا مودودی کے نظامِ فکر میں اس کا ظہور ہوا۔ علمی وابلاغی سطح پر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ یہ تصور کیا ہے۔ ابتدائی تاریخ سے اس کے عملی مظاہر بھی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ آج مگر ان کا کوئی مصداق تلاش کرنا محال ہے۔ اکا دکا مو جود ہیں لیکن بس اتنے کہ عجائب خانے کی زینت کے لیے کفایت کریں۔ اکثریت نے یہ اصطلاح سن رکھی ہے مگر وہ اس کی حقیقت سے بے خبر ہے۔ سوشل میڈیا اس کی گواہی دے رہا ہے۔ رہا 'سیاسی شعور‘ تو یہ کس چڑیا کا نام ہے‘ یہ چڑیا گھر والوں کو بھی معلوم نہیں۔ کسی کو شک ہے تو سروے کر دیکھے۔
سیاست میں رومان کو زندہ رکھنا اہلِ سیاست کی مجبوری ہے۔ یہ رومان اب نظریاتی کم اور شخصی زیادہ ہے۔ جماعت اسلامی کبھی ایک نظریاتی رومان تھا۔ آج نہیں ہے۔ تحریک انصاف کل بھی شخصی رومان تھا اور آج بھی شخصی رومان ہے۔ عمران خان صاحب کا رومان تو مستقل ہے کہ وہ اس کا اوّل بھی ہیں اور آخر بھی۔ جماعت اسلامی میں اتنا 'نظریاتی ٹچ‘ ضرور باقی ہے کہ ان کا رومان فرد سے نہیں‘ منصب سے ہے۔ یہ آسانی سے سراج الحق صاحب سے نعیم الرحمن صاحب کو منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کو نظریاتی کہا جاتا ہے مگر اس کے دیگر خواص کم ہی پائے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم جو جنگ وجدال دیکھ رہے ہیں‘ یہ گروہی اور شخصی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
میرا مقدمہ ابتدا ہی سے یہی ہے کہ اقتدار کی سیاست رومانوی نہیں ہوتی۔ یہ مفاداتی ہوتی ہے۔ اس سیاست میں ارتقا ہے اور اگراس کی باگ صاحبانِ بصیرت کے ہاتھ آ جائے تو اس کی ا خلاقی سطح بلند بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں 'میثاقِ جمہوریت‘ جیسی دستاویزات تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی سیاسی قیادت کی سطح پست ہوتی ہے‘ اس کا معیار بھی گر جاتا ہے۔ اب ایک طرف میثاقِ جمہوریت ہے اور دوسری طرف شہلا رضا صاحبہ اور عظمیٰ بخاری صاحبہ کے بیانات ہیں۔ تاہم بنیادی طور پر اقتدار کی سیاست اصولوں کے بجائے ہمیشہ گروہی مفادات کی اسیر ہوتی ہے۔ بڑے لوگ اس کی اصل ہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ سوشل میڈیا کا یہ ہنگامہ اسی کی دلیل ہے۔
میری تشویش یہ ہے کہ سوشل میڈیا بے لگام ہے اور سیاست میں ہیجان واضطراب میں اضافہ کر رہا ہے۔ میں پہلے تحریک انصاف کا رونا روتا تھا۔ پھر (ن) لیگ اس میدان میں اتری اور پیپلز پارٹی بھی۔ اب جماعت اسلامی کے کارکن بھی سر بکف اس میدان میں شمشیر زن ہیں۔ معاملہ اب غلط اور صحیح کا نہیں رہا۔ سیاست میں ایسی لکیر وہی کھینچ سکتا ہے جس کا عقل وخرد سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ کسی کو منافق یا بغیر ثبوت کے کسی بیرونی قوت کا ایجنٹ کہنا‘کون سا سیاسی یا تحریکی شعور ہے؟ یہ گروہی سیاست کی ضرورت ہے جو مناظرانہ مزاج پیدا کرتی ہے۔ عام کارکن یہ سمجھتا ہے کہ وہ حق وباطل کا معرکہ لڑ رہا ہے۔سوشل میڈیا اسی مزاج کی آبیاری کر رہا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ غصے میں دیا گیا ردِعمل درست نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ مذہب ہو یا نفسیات‘ انسان کو یہی سکھاتے ہیں کہ درست بات کہنے کے لیے ضروری ہے آپ غصے میں نہ ہوں۔ اس کے لیے صبر چاہیے۔ سوشل میڈیا اس کی فرصت نہیں دیتا۔ اس کا مزاج متقاضی ہے کہ فوری ردِعمل دیا جائے۔ اس طرح لوگ اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور عقل وخرد سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ فٹ بال کے کھیل کی طرح ہے۔ وہی جیتے گا جس نے زیادہ گول کیے ہوں گے۔ اس کے لیے آپ کے پاس وقت محدود ہوتا ہے۔ سیاست اب کھیل ہے جس کا کوئی ضابطہ اور قانون نہیں۔
سماج میں ہیجان بڑھ رہا ہے۔ مذہب ہو یا سیاست‘ ہر طرف ہیجان ہے۔ سوشل میڈیا کی کرنسی ہیجان ہی ہے۔ یہ ہیجان اب وبائی مرض بن گیا ہے۔ جماعت اسلامی کا کارکن بھی اگر اس میں مبتلا ہے تویہ اس کے متعدی ہونے کی دلیل ہے۔ ہمیں اس کو روکنا ہو گا۔ ہماری سماجی بُنت خطرے میں ہے۔ میری اصل تشویش یہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنی باگ اس کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جماعتی مؤقف کی ترجمانی کا کام سنجیدہ لوگوں کو سونپا جائے۔