میرے علم کی حد تک‘ یہ اپنی نوعیت کا واحد کتب خانہ ہے۔ محض لائبریری قرار دینے سے شاید اس کی تصغیر ہو۔ یہ دراصل ایک دانش کدہ ہے۔
اسلام آباد سے مری کی طرف رخ کریں تو بھارا کہو سے چند میل بعد‘ پرانے مری روڑ پر برلبِ سڑک ایک خوبصورت عمارت آپ کو بلاارادہ اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ خوش ذوقی سے تعمیر کی جانی والی یہ عمارت چار بڑے حصوں پر مشتمل ہے: مسجد‘ کتب خانہ‘ مدرسہ اور رہائش گاہیں۔ اس کا سب سے منفرد حصہ کتب خانہ ہے۔ یہ لائبریری پچاس ہزار سے زیادہ کتب‘ مخطوطوں‘ جرائد اور اخبارات کو اپنے دامن میں حفاظت کے ساتھ سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کا دروازہ ہر جویائے علم کیلئے کھلا ہے۔ اس کی تفصیلات حیران کن ہیں۔
علم کا ایک متلاشی‘ جو اس کتب خانے میں آتا اور طلبِ علم میں کچھ وقت گزارنا چاہتا ہے‘ اسے ایک ڈیسک‘ آرام دہ کرسی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس کی خاطر تواضع کے لیے‘ کتب خانے کے ہال میں ایک طرف چائے قہوے کا سامان رکھا ہے۔ اس عمارت میں ایک ہال کھانے کے لیے مختص ہے جہاں‘ ناشتہ‘ دوپہر اور رات کا کھانا بھی میسر ہے۔ جو طالب علم چاہتا ہے کہ یہاں قیام کرے‘ اس کے لیے رہائش کا انتظام ہے۔ اس کا معیار تین ستارہ ہوٹل سے کم نہیں۔ بعض سہولتیں تو چار ستارہ والی ہیں۔ جیسے جم۔ جدید ترین آلات کا حامل یہ جم ان کے لیے ہے جو یہاں ٹھیرتے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی کچھ اور تفصیلات بھی ہیں۔
طالب علم کو اگر کسی ایسی کتاب کی تلاش ہے جو اس کتب خانے میں میسر نہیں تو وہ منتظم کو بتا سکتا ہے۔ کتاب کی فراہمی کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کتاب کی فوٹو کاپی چاہیے تو یہاں جدید ترین مشینیں موجود ہیں جو کتاب کی نقل تیار کر دیتی ہیں۔ یہاں ایک تربیت یافتہ ناظمِ کتب خانہ ہے۔ آپ انہیں کتاب کا نام بتائیں تو وہ تلاش کرکے‘ آپ کے ڈیسک تک پہنچا دیں گے۔ طالب علموں کے ساتھ محققین کیلئے بھی تمام سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ قدیم علما کے مزاج کی رعایت سے فرشی نشستوں کا بھی اہتمام ہے تاکہ انہیں ماحول سے مانوس ہونے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ کتب خانے کی عمارت جدید ہے لیکن مسلم تہذیبی روایت کی نمائندہ ہے۔
اس عمارت میں ایک جدید پریس بھی لگایا گیا ہے۔ گویا کتب کی اشاعت میں بھی یہ کتب خانہ خود کفیل ہے۔ یہاں نایاب کتب کا ذخیرہ ہے۔ مثال کے طور پردارالعلوم دیوبند کی مکمل فائل یہاں موجود ہے جو محققین کے لیے ایک نادر چیز ہے۔ اگر آپ یہاں زیر تعلیم رہنے والے طلبا کی فہرست بنانا چاہیں تو یہ ممکن ہے۔ یہ معلوم ہے کہ دارالعلوم دیوبند 1866ء میں قائم ہوا تھا۔ گویا ایک سو ساٹھ برس کا ریکارڈ یہاں موجود ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ اس لائبریری میں نادر کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب خدمات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا۔ یہ اہتمام علم اور طالبانِ علم کی خدمت کے لیے ہے۔ یہاں تو علم کے متلاشیوں کو کپڑے تک دھلے ہوئے ملتے ہیں اور وہ بھی کسی معاوضے کے بغیر۔ چند دن پہلے جب میں برادرم سبوخ سید اور برادرم ڈاکٹر فاروق عادل کی معیت میں یہاں آیا تویہ سب باتیں ہمیں ان نوجوانوں نے بتائیں جو یہاں موجود تھے۔ ان کا قیام بھی یہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لائبریری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے اور وہ جب چاہیں اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہاں رہنے کے لیے دنوں کی بھی کوئی قید نہیں۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی لائبریری ہو جو دن رات کھلی رہتی ہو۔ یہاں تک جامعات کے کتب خانے بھی چار بجے بند ہو جاتے ہیں۔
یہ کتب خانہ اور مرکز‘ صرف ایک شخصیت‘ مفتی محمد سعید صاحب کی محنت کا حاصل ہے۔ مفتی صاحب خود بھی ایک عالمِ دین ہیں۔ مہمان نواز اور متواضع۔ انہوں نے برسوں کی محنت سے نہ صرف نایاب کتب جمع کیں بلکہ ہر پہلو سے اسے علم کی اشاعت اور فروغ کے لیے ایک مثالی ادارہ بنانے کی سنجیدہ اور کامیاب کوشش کی۔ یہ کتب خانہ شفاف پانی کے ایک بہتے نالے کے ساتھ ہے جو پہاڑوں سے اترتا ہے۔ نالے کی دوسری طرف سرسبز و شاداب درختوں سے مزین ایک جنگل ہے۔ شام ڈھلتی ہے تو طرح طرح کے پرندوں کی آوازیں اور بہتے پانی کی موسیقی ایک عجیب رومانوی ماحول پیدا کر تی ہے۔ مفتی صاحب نے اس کا بھی اہتمام کیا ہے کہ یہاں آنے والے چاہیں تو فطری حسن سے لبریز‘ اس فضا میں بیٹھ کر اپنے پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔
مفتی صاحب دین کے عالم ہیں لیکن یہ کتب خانہ صرف دینی علوم کے طالب علموں کے لیے خاص نہیں۔ یہاں کسی علم کا متلاشی آ سکتا ہے۔ ہم نے کتب خانے میں جن طلبا سے ملاقات کی‘ ان میں اکثریت ان کی تھی جو سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے لیے آئے تھے۔ طالب علموں کی اکثریت کے پی سے آئی تھی جوخوش آئند ہے۔ ایک ڈاکٹر بھی تھے جو طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانا چاہتے تھے اور اس سلسلے کے ایک امتحان کی تیاری کے لیے یہاں ٹھیرے ہوئے تھے۔ تاہم دینی علوم کے طلبا کے لیے یہاں زیادہ کشش ہے۔ مفتی صاحب خود بھی طالب علموں کے ساتھ نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں جس سے ادارے کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ نادر کتب کی کشش اس پر مستزاد ہے۔
اس عمارت میں ایک سٹوڈیو بھی قائم ہے جس میں ریکارڈنگ کی جدید ترین سہولتیں میسر ہیں۔ مفتی سعید صاحب سوشل میڈیا کے لیے اپنے پروگرام یہیں ریکارڈ کرتے ہیں۔ تاہم ان کی طرف سے یہ صلائے عام ہے کہ کوئی اور بھی خیر کی تشہیر کے لیے اس سہولت سے استفادہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ مفتی صاحب خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اس لیے یہ کتب خانہ بھی ارتقا کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ وہ دنیا بھر کے کتاب میلوں میں شریک ہوتے اور اس کتب خانے کے لیے نایاب کتب جمع کرتے ہیں۔ ان میں انگریزی‘ عربی اور فارسی کی کتب زیادہ ہیں اور موضوعاتی اعتبار سے دینی کتب کا غلبہ ہے۔
میرا یہاں دو تین بار پہلے بھی آنا ہوا۔ میں نے اسے ہر دفعہ پہلے سے بہتر پایا۔ مفتی صاحب کی مسلسل کاوشوں سے اس کے باطنی اور ظاہری جمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صد افسوس کہ اس سے استفادہ کرنے والے بہت کم ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ علمی اعتبار سے ایسا پُرکشش ادارہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ میری ذمہ داریاں مجھے اجازت نہیں دیتیں کہ میں یہاں زیادہ وقت گزاروں‘ ورنہ اگر میرے زمانہ طالب علمی میں یہ کتب خانہ موجود ہوتا تو میں یہیں پڑا رہتا‘ گھر جانے کا نام نہ لیتا۔ آج بھی یہاں آتا ہوں تو وقت کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ اس بار اچانک جانا ہوا۔ مفتی صاحب نے حسبِ روایت کھانے کا اہتما م کیا۔ کتابوں کی کشش اتنی زیادہ تھی کہ تمام وقت انہوں نے لے لیا۔ کھانا دھرے کا دھرا رہ گیا۔
بہت کم لوگ اس ادارے سے واقف ہیں۔ چاہیے تھا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اس پر دستاویزی فلمیں بناتے تاکہ لوگ اس کے بارے میں جانتے اور طالب علم یہاں کا رخ کرتے۔ اس پر رپورٹس بنتیں اور ان کی تشہیر ہوتی۔ مفتی صاحب نے اس پر وقت ہی نہیں‘ بے پناہ مادی وسائل بھی صرف کیے ہیں تاکہ اسے مثالی ادارہ بنا سکیں۔ ان کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کریں۔ ان کی اس نیکی کا اجر تو یقینا ان کے پروردگار کے حضور میں محفوظ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ ادارہ محققین اور طالب علموں کو بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرے اور مفتی صاحب کی کاوشیں اس دنیا میں بھی ثمر بار ہوں۔