"KDC" (space) message & send to 7575

شام پر حملہ عظیم تر اسرائیل کے لیے ہوگا؟

امریکہ کو اپنی معیشت برقرار رکھنے کے لیے جنگ کی ضرورت رہتی ہے۔ ایران عراق جنگ میں امریکہ اور اسرائیل ، ایران اور عراق دونوں ممالک کو اسلحہ فروخت کرتے رہے۔ اب مصر کو پانچ ارب ڈالر اور شام کے عسکریت پسندوں کو 3ارب ڈالر دیے گئے ہیں‘ وہ اس رقم سے امریکی اسلحہ خریدیں گے۔ شاید وہ زمانہ قریب آپہنچا ہے جس کی خبر حضرت محمد ﷺ نے دی تھی۔ آپﷺ کی چند احادیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے: ’’جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے اور جنگِ عظیم اس وقت تک نہ ہو گی جب تک کوفہ خراب نہ ہو جائے‘‘۔ ’’ عنقریب تم افواج کو پائو گے شام میں ، عراق میں اور یمن میں ‘‘۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ نے پوچھا: ’’میرے لیے کیا حکم ہے‘‘، فرمایا: ’’تم شام کو لازماً پکڑنا‘‘۔ فرمایا: ’’ایمان فتنوں کے وقت شام میں ہو گا‘‘۔ آپ ﷺ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب شام میں فساد ہو تو تمہاری خیر نہیں‘‘ (مسند احمد بن حنبل)۔ یہ بھی فرمایا: ’’قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ اہلِ عراق کے اچھے لوگ شام کی طرف منتقل نہ ہو جائیں اور اہلِ شام کے شریر لوگ عراق کی طرف منتقل نہ ہو جائیں‘‘۔ (مسند احمد حنبل)۔ روایات کے مطابق شام امام مہدی ؑ کا ہیڈ کوارٹر ہو گا‘ یہیں حضرت عیسیٰ ؑ کا نزول ہو گا‘ یہیں سے ایک لشکر جہاد ہند کی نصرت کے لئے روانہ کیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ان احادیث و روایات سے محسوس ہوتا ہے شاید فتنہ دجال کا وقت قریب ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے اکثر نمازوں کے دوران تشہد میں پناہ مانگی اور سورۂ کہف پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران جو قومی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے اسے عرب لیگ میں بھی نمائندگی دی گئی ہے ۔ صدر بشار الاسد کا کردار اگرچہ قابلِ تعریف نہیں ہے لیکن مغربی مداخلت بھی خطرناک ہے۔ ملک میں 10فیصد عیسائیوں کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے 13فیصد شیعہ اور 60فیصدسنی مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔ اسے فرقہ وارانہ جنگ بنانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ، مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک، ترکی اور اسرائیل، شام پر اتحادیوں کے حملے کے حق میں ہیں۔ چین ، روس، مصر، ایران ، لبنان، اردن ، عراق حملے کے مخالف ہیں۔شام کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شروع ہونے والی عوامی بغاوت میں سوا لاکھ کے قریب شہری قتل کیے جاچکے ہیں اور وہاں دنیا کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا قتلِ عام جاری ہے۔ شام میں حالات 2011ء سے خراب ہونا شروع ہوئے جب وہاں کی اپوزیشن نے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف تحریک شروع کی ۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے بشار الاسد انتظامیہ نے سختی کی جس سے حالات بگڑنے شروع ہوگئے۔ پھر دائرہ پھیلنا شروع ہوا اور اس میں ایران اور لبنان کی حزب اللہ کا کردار بھی سامنے آیا۔ ترکی کا طیارہ بھی شامی فوج نے مار گرایا۔ پھر حکومت کے مخالف گروپ نے باقاعدہ عسکری قوت اختیار کر لی۔ ایران اس ممکنہ حملے سے لاتعلق نہ رہا اور ایرانی حکومت نے برملا کہا کہ شام پر حملے سے اسرائیل شعلوں میں گھِر جائے گا۔ ایسی صورت میں ایران ، اسرائیل کو تباہ کردے گا۔ اس ممکنہ جنگی منظر نامے میں دھوئیں کے سیاہ بادلوں کے سائے صرف شام ہی کے میدانوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔ سننے میں آیا ہے کہ پاکستان میں بعض مذہبی جماعتوں کو مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک سے مالی فوائد حاصل ہو رہے ہیں ۔اس کا سلسلہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک سے شروع ہوا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ تحریکیں شروع کرائی گئیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کی بعض مذہبی جماعتوں اور صحافیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ ایران کے زوال کے بعد پاکستان میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے ایران کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ 2مئی 2011ء کو ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا نے چشم کشا انکشافات کیے تھے ۔انہوں نے بعض ارکان کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ ان کی جماعت کو بعض ممالک سے مالی امداد ملتی رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے بارے میں بتایا تھا کہ فروری2008ء کے انتخابات میں اسے ایک بیرونی ملک سے مالی امداد ملی۔ اِسی طرح پنجاب کے مرحوم گورنر سلمان تاثیر نے کھلم کھلا بعض ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان حالا ت میں شام پر حملے کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا قوی اندیشہ ہے ۔پاکستان میں اہلِ تشیع پر حملے کئے جارہے ہیں۔ اگر ایران نے شام پر حملے کے جواب میں عملی اقدام کیا تو پاکستان میں بیرونی امداد حاصل کرنے والوںکے مابین فرقہ وارانہ اختلافات شروع ہو جائیں گے۔ہوسکتا ہے فرقہ واریت کی جنگ میں بلیک واٹر کے ایجنٹ بھی کود پڑیں ۔ مبصرین کے مطابق اب بھی پاکستان کے بعض مقامات پر بلیک واٹر کے ایجنٹ سرگرم ہیں۔ شام اور مصر کی خانہ جنگی سے مصر میں الاخوان المسلمون کی تحریک وفتی طور پر سرد پڑ جائے گی۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصہ بعد امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک کا جغرافیائی نقشہ تبدیل کر دینے میں کامیاب ہو جائے۔ اس گریٹ گیم کے مطابق عراق، شام، مصر اور سعودی عرب کو تقسیم کیا جائے گا۔ بلوچستان میں بھی علیحدگی کی تحریک تیز ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اس طرح امریکہ اپنے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت عظیم تر اسرائیل کے منصوبے کو کامیاب کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ اگر مسلمان متحد نہ ہوئے تو ہو سکتا ہے امریکہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہو جائے۔ ایران اور لبنان کی حزب اللہ کی اسرائیل کو آگ اور خون میں نہلانے کی باتیں محض نعرے ہیں۔ ایران اِس وقت معاشی، فوجی، داخلی اور خارجی معاملات میں کمزور مقام پر کھڑا ہے۔ لبنان میں عیسائی اور مسلمانوں کا توازن برابر ہے۔ 30فی صد سے کم شیعہ مسلمان حزب اللہ کے زیر اثر ہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ شام میں اپنی عسکری قوت کا کھل کر استعمال کرے گا۔ عراق کے سنی مسلمان شام کی سنی تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عراق کی تباہی میں ایران کا کردار عراق کے سنی مسلمان فراموش نہیں کر سکے۔ ایران نے عراق کے شیعہ مسلمانوں کو صدام حسین سے الگ تھلگ کرنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا اور عراق کے دس لاکھ پیپلز گارڈ زمیں واضح اکثریت شیعہ مسلمانوں کی تھی۔ انہوں نے صدر صدام حسین کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لگتا ہے پاکستان کی قیادت ان حالات میں الگ تھلگ رہے گی۔ شام پر یورپ اور امریکہ کے حملے کی صورت میں پاکستان میں فرقہ واریت مزید بڑھے گی۔ ایران، روس اور لبنان کی حزب اللہ ، اسرائیل پر شاید چند میزائل ہی داغ پائیں البتہ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں آگ اور خون کی ہولی کھیلے گا۔ ان حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو لگام دینے کی حکمتِ عملی اختیار کریں۔ شام میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم منعقد کرا کے صدر بشارالاسد کو معزول کرایا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں