"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کی چٹان

جنرل راحیل شریف نے پی ایم اے کاکول اکیڈمی کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے ۔اُس نے فاٹا، کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے علاوہ جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ جیسی صورت حال پیدا کر رکھی ہے‘‘۔ اس تشویش ناک صورتحال کے باوجود پاکستان میں انتخابی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ بھارتی سازشوں کے حوالہ سے‘ میں ملک میں خطرے کی گھنٹی کی گونج سن رہا ہوں۔ سندھ میں کرپشن کی لوٹ مار کے علاوہ ترقیاتی سکیموں پر عمل کی آڑ میں بھاری رقوم ملک سے باہر بھیجی جاتی رہیں، یہاں تک کہ سندھ افلاس و غربت اور بربادی کا منظر پیش کرنے لگا۔ سندھ میں کرپشن کی تہہ تک پہنچنے کے لئے تمام وفاقی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں، لیکن دوسری طرف بعض حلقوں کے خیال میں پنجاب کو احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس پالیسی سے سندھ کے عوام میں بے چینی پھیلتی جا رہی ہے۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر سندھ میں لوٹ کھسوٹ ہو رہی تھی‘ تو پنجاب میں بھی کرپشن کم نہ تھی۔ بہرحال وقت آگیا ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بناکر سندھ کی طرح پنجاب کے کرپٹ لوگوں کے خلاف بھی یکساں طرز کی تحقیقات کی جائے۔ اُن کے بارے میں جو بھی حقائق سامنے آئیں وہ نہ فقط عوام کے سامنے پیش کئے جائیں بلکہ لٹیروں کو ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔
رینجرز کے خلاف سندھ پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے کی خفیہ کوشش 
دوبئی میں سازشی ذہنوں نے تیار کرائی تھی؛ تاہم سندھ حکومت نے ایسی کسی بھی سازش سے انکار کیا ہے۔ اگرچہ فوج کے ڈر سے رینجرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کیا گیا ہے‘لیکن حقائق کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ایسی ہر منصوبہ بندی میں وہ ہاتھ ہے، جس نے گزشتہ دنوں افواج پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ موصوف سندھ پولیس اور رینجرز میں ٹکرائو کے حامی ہیں تاکہ دبائو بڑھا کر ڈاکٹر عاصم کے حوالہ سے سودا بازی کرائی جا سکے۔ کون اس بات پر یقین کرے گا کہ جب پولیس نے رینجرز کے خلاف ایف آئی آرز درج کیں تو وزیر اعلیٰ کو ان کا علم نہیں تھا۔ سندھ کی وزارت اطلاعات نے بھی پولیس کو اشتہارات کی منظوری دی اور ادائیگی کی، لیکن اس کے باوجود سارا ملبہ جونیئر پولیس اہل کاروں پر ڈال کر انہیں فوری طور پر منظر سے ہٹا دیا گیا۔ ممکن ہے کہ سندھ حکومت کے خفیہ ہاتھوں نے اُنہیں دوبئی بھجوا دیا ہو‘ کیونکہ جب ذوالفقار مرزا سندھ کے وزیرداخلہ تھے تو اُن کے عہد میں تقریباً دس ہزار کے لگ بھگ سیاسی کارکنوں کوصوبائی پولیس میں بھرتی کیا گیا پھر اسی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ جونیئر آفیسروں کو راتوں رات پولیس کیڈر میں مدغم کرا دیا گیا۔ اب ایف آئی آر والی واردات بھی انہیں وفاداروں کے ہاتھوں کرائی گئی ہے۔
ڈاکٹر عاصم کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو سیاسی و غیر سیاسی حلقے حیران رہ گئے۔ اسی کارروائی کے بعد، زرداری صاحب افواج پاکستان سے ناراض ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بیان دینے شروع کر دئیے کہ جرنیلوں اور ججوں کا احتساب کیا جائے اور سخت وارننگ دی کہ سندھ میں قومی احتساب بیورو نے ان کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو اس کا جواب دیا جائے گا ؛ چنانچہ سندھ میں احتساب کا نیا نظام لانے کے لئے صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے لئے بل پیش کر دیا گیا ہے۔ معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ سندھ رینجرز کے سربراہ جنرل بلال کو تحفظات کا اظہار کرنا پڑا‘ سندھ حکومت کو بتا دیا گیا کہ وہ کراچی آپریشن کے خلاف سازشیں فوراً بند کرے۔ سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ چپقلش آپریشن ضرب عضب، کراچی آپریشن یا پھر سیاسی نظام کے لئے اچھا شگون نہیں۔ آویزش بڑھے تو کشیدگی ناخوشگوار صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ایسے ہی واقعات اور سول ملٹری تعلقات میں تلخ تعلقات کے باعث 12اکتوبر 1999ء کا المیہ پیش آیا‘ جس کے نتیجے میں پورا سسٹم منہدم اور پارلیمانی نظام کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ اس رات نواز شریف اور ان کے گھر کے بعض افراد وزیر اعظم ہاؤس میں موجود تھے ‘ اگر چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان بروقت مداخلت نہ کرتے تو حکمرانوں کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے، عین اُس وقت جنرل پرویز مشرف کا طیارہ فضا میں تھا۔
اب کرپشن کے خلاف آپریشن، صرف ایک صوبے اور اُس کے سیاستدانوں یا آپریشن کے خلاف مزاحمت کرنے والوںتک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے،بلکہ قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے شفاف طریقے سے بلاتفریق اور شفاف طور پر ملک بھر کو محیط ہونا چاہیے۔ پنجاب میں میگا کرپشن ہو رہی ہے ‘وزیر خزانہ اسحاق ڈار غلط اعداد و شمار اور فرضی شماریات کے تحت قوم کو گمراہ کر رہے ہیں، ان سب کے خلاف بھی کارروائی 
ہونی چاہیے۔ پائلٹوں کی ہڑتالوں کے بہانے پی آئی اے کو نجکاری کے ذریعے غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ پی آئی اے کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے والے سازشی ذہنوں کو بے نقاب کرنے کے 
لئے آزاد کمیشن بنانا چاہئے۔ پاکستان سٹیل مل کو تباہی تک لیجانے والوں کوبھی منظر عام پر لانے کے لئے نیب کو مکمل اختیارات دیئے جائیں۔سندھ میں وسیع پیمانے پر کرپشن کے پھیلائو کا باعث بننے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ ایسا ہی فعال کمیشن حکمرانوں‘ ان کے رشتہ داروں اور اُن کے حوالیوں موالیوں کے خلاف بھی تحقیقات کرے کہ انہوں نے اپنی صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے ملکی معیشت کو دیوالیہ کیسے بنا دیا ۔ بلوچستان کے ساحل پر ایک شاندار شپ بریکنگ انڈسٹری کو تباہ کرانے میں کس کارپوریٹ مافیا گروپ کا ہاتھ ہے؟ سندھ میں حیدر آباد کے قریب نوری پور ایشیا کی سب سے بڑی شاندار انڈسٹریل سٹیٹ قائم کی گئی اسے تباہ کرنے میں کس کارپوریٹ ایجنسی کا ہاتھ تھا؟۔ اسی طرح سوات میں مثالی انڈسٹریل سٹیٹ کو تباہ کرنے میں کس صنعت کار کی سازش کار فرما تھی؟۔ ان سارے منصوبوں کو منظر عام پرلانے کے لئے عسکری قوت کی نگرانی میں تحقیقات ہونی چاہئے اور حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔
جنرل راحیل شریف قوم کی واحد امید ہیں جو پاکستان کو محفوظ و مستحکم بنانے کے لئے آخری چٹان کی مانند کھڑے ہیں۔ اگر ملک بھر کے کرپٹ عناصر کا آہنی ہاتھوں سے احتساب ہوا تو پوری قوم آرمی چیف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ لہٰذا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی، اب کرپشن کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو جانا چاہیے۔ ماضی کی حکومتوں میں کرپشن کے جو کارنامے سرانجام دیے گئے اس نے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ روپیہ کا مقروض ہے۔
آرمی چیف کا یہ بیان انتہائی تشویش انگیز ہے کہ اسلام آباد میں بعض عناصر داعش کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں، صورت حال خطرناک ہے، دہشت گرد تنظیم داعش القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ ہے؛لہٰذا عسکری قوتوں کو اسلام آباد میں ایسے لوگوں کے خلاف آپریشن کے لئے قومی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اسلام آباد آپریشن کے لئے 24 گھنٹوں کا کر فیو لگا کر کارروائی کی جائے۔ رئیل اسٹیٹ ایجنسیوں کے مالکان پر نظر رکھی جائے جو زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ان عناصر کو مالی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام آباد کی ایک لاکھ کنال سے زائد زمینوں پر ناجائز قبضہ جمانے کے لئے ان عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں