"KDC" (space) message & send to 7575

ترامیم کا خمیازہ

اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ ختم نبوت ؐ کا معاملہ انتہائی حساس مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے ایمان کی پہلی شرط ہے۔کوئی بھی شخص حضرت محمد ؐ کے خاتم النبیین ہونے کا اقرار کرنے کے بعد ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ اس پر سخت مئوقف اختیار کیا اور اسے منوایابھی۔ دینی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ ؐ کے احتجاج کے دوران جس نے جو کچھ کیا اسے اس معاملے کی حساسیت کا علم ہونا چاہئے تھا اور سب کو مل کر کام کرنا چاہئے تھا،لیکن زمینی حقائق سے لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت اپنے اپنے مفادات کے محور میں گھری ہوئی تھی کیونکہ حلف کے الفاظ اور انتخابی فہرست ایکٹ 74کی دفعہ 7-Bاور 7-Cکو بحال نہیں کیا گیا تھا مگر عوامی جذبات کے پیش نظر جب یہ احساس ہوا کہ یہ نقب لگانا ممکن نہیں تو 16نومبر2017کو سینیٹ سے ترمیم کے ذریعے 7-Bاور7-Cکوبحال کر دیا گیا۔
مجھے بڑی حیرت ہے کہ ایسا کون وزارت قانون و انصاف میں موجود ہے جو ختم نبوت کے عقیدے کے اتنا خلاف ہے کہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دے رہا اور بار بار کی ترامیم کے ذریعے کوئی ایسی لائن اور کوئی ایسا جملہ عبارت سے غائب کروا دیتا ہے کہ پوری عبارت اور قانون غیر مئو ثر ہو جاتا ہے۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈاراور ان کے معاون زاہد حامد نے پارلیمنٹ کے سامنے آٹھ قوانین کا مجموعہ رکھا کہ اسے ذرا آسان بنا دیں اور ان تمام کو انتخابی اصلاحات کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017کی شکل دے کر آئین اور الیکشن رولز کا حصہ بنا دیں ،بڑی چالاکی ،عیاری ،ہوشیاری اور سازش سے وہی کچھ نکالا جو اس ملت کے زعماء نے ختم نبوت کی بڑی تحریک 1953اور 1974میں ملا کر 1973کے آئین میں شامل کیا تھا اور جو ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے،آئین کے آرٹیکل 260کے نفاذ اور اطلاق کا واحد ذریعہ ہی دو دفعات 7-Bاور7-Cہیں ۔
اس ملک کے سیکولر طبقات کے ذہن میں یہ بات نہیں آرہی کہ عقیدہ ختم نبوت ؐ کی مسلمانوں کی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی اقلیتی برادریوں کے حقوق کا تحفظ بہت عزیز ہے اور وہ بطور انسان اس ملک کے برابر کے شہری ہیں اور ہمیں کسی برادری سے خدشات بھی نہیں ، مگر جو لوگ مسلمانوں کی آڑ لے کر ہمارے عقیدہ ختم نبوت ؐ پر نقب لگاتے ہیں انہیں سازشیں کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مسلمانوں پہ نبی کریم ؐ پر بطور خاتم النبیین ایمان لانا اور اس کا ببانگ دہل اعلان کرنا ایمان کا تقاضا ہے اور جو کمیونٹی انہیں آخری نبی نہیں مانتی وہ غیر مسلم ہے۔
اسلام آباد سمیت پورے ملک میں تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی احتجاجی تحریک کے باعث زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا اور ابھی بعض اہم شخصیات کے استعفے بھی آنے شروع ہو جائیں گے،پولیس نے انتہائی جارحانہ طریقے سے راہ عشق رسول ﷺ کے جانثاروں پر لاٹھی چارج کیا،جو درود پڑھتے تھے ان کو مارا پیٹا ۔ان کے خیمے جلائے گئے، اس سے پولیس کے اعلیٰ حکام کو اللہ تعالیٰ کے پاس جواب دہ ہونا پڑے گا،اس سانحے کے بعد نواز شریف آئندہ انتخابات میں کامیابی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ اور ملی مسلم لیگ پر امن جماعتیں ہیں جو کسی قسم کی بد امنی میں یقین نہیں رکھتیں ،مذہبی سیاسی جماعتیں ختم نبوت ؐ اور ناموس رسالت ؐ میں قانونی ردو بدل کے خلاف اپنا نقطہ نظر پیش کر چکی ہیں ، حکومت نے تاخیر کے بعد الیکشن ایکٹ 2017کی شق 7بی اور 7سی کا مکمل متن اردو ترجمے کے ساتھ ختم نبوتؐ کے حلف نامے میں شامل کر لیا ہے اور چند دنوں میں راجہ ظفر الحق کی انکوائری رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جا رہی ہے اور جو بھی اشخاص ذمہ دار قرار پائے ان کے خلاف کارر وائی کی جائے گی اور بیرسٹر ظفر اللہ خان جو پاکستان کے آئینی ماہر ہیں ان کی سر براہی میں ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیا جا رہا ہے،جو ایک ماہ کے اندر اندر تمام معاملات کی چھان بین کر کے ذمہ داران کا تعین کرے گا اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ بیرسٹر ظفراللہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں مگر ان کا جھکائو بعض ایسی غیر ملکی اور ملکی غیر تنظیموں کی طرف ہے جو سیکولر ازم کی راہ پر متعین ہیں اور پاکستان کے بھارت اور بنگلہ دیش سے کنفیڈریشن پر کام کر رہی ہیں ،لہٰذا بیرسٹر ظفر اللہ جو عاشق علامہ اقبال بھی ہیں ان کو پاکستان کی نظریاتی اساس کو مد نظر رکھتے ہوئے انکوائری رپورٹ تیار کرنا ہو گی اور جن غیر سرکاری تنظیموں سے قلبی اور نظریاتی تعلق ہے کنارہ کشی اختیار کرنا ہوگی اور جناب زاہد حامد اور شاہد خاقان کو ان تنظیموں سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی ۔ان کے ارد گرد فری میسن دانشورز نے گھیرا ڈالا ہوا ہے وہ اس سے گریز کریں۔
چونکہ اب سانحہ دھرنا فیض آباد کا معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی نمائندہ ٹیم کی کاوشوں کے ذریعے طے پا گیا ہے اور قوم کو ایک بڑے سانحے سے بچا لیا گیا ہے، اس لیے وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب سے جن متعلقہ نکات پر اتفاق ہوا ہے ان پر من و عن عمل کیا جائے گا،فوج کی اعانت سے حکومت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے قائدین کے درمیان احتجاج ختم کرانے کے لئے طاقت کے بجائے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس کا مثبت نتیجہ بر آمد ہوا،ختم نبوتؐ ہر مسلمان کے عقیدے کا بنیادی جزو ہے،اور اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ختم نبوت ؐ قانون میں ترامیم کے ذمہ داران کی نشاندہی کی جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے، چونکہ آرمی چیف نے قوم کو خلفشار سے بچا لیا ہے تو ایسے سیکولر ذہن رکھنے والوں کی نشاندہی کروانا قومی مفاد میں ہے،جنہوں نے آئین کے آرٹیکل 2-Aکی روح کے بر عکس پاکستان کی اساس پر حملہ کیا تھا۔ان عناصر پر نظر رکھنا ہو گی جو غیر ملکی فنڈنگ سے سرشار ہو کر ملک میں انتشار پیدا کرنے کے لئے نواز شریف کی راہ ہموار کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔
قوم کو حیرت ہو رہی ہے کہ نواز شریف نے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعدجمعہ کی تعطیل ختم کی اور اس کے ساتھ ساتھ یوم قائد اعظم 11ستمبراور یوم اقبال 9نومبر کی سرکاری تعطیلات کو منسوخ کیا اور اسی طرح تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب بھر میں کوئی نیا کام نہیں کیا۔وہی روایتی طریقے سے حکومت کی جس کا نقصان ملک کو پہنچا۔ ترقیاتی کام اپنی جگہ لیکن لوگوں کے جذبات کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ لوگ دین سے بہت لگائو رکھتے ہیں۔ مذہب سے چھیڑ چھاڑ کرنا کسی حکومت کے لئے درست نہیں۔ جو بھی ایسا کرے گا وہ گھاٹے میں رہے گا۔شہباز شریف کا کردار بڑا معنی خیز ہے کہ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ کابینہ کو ایسے شخص کو باہر نکال دینا چاہیے جس نے ختم نبوت ؐ کے قانون میں تبدیلی کی تھی۔ اس کے بعد مگر وہ خاموش ہو گئے۔ پنجاب سے تحریک لبیک کے قافلے نکل کر اسلام آباد بیٹھ گئے اور جب معاملہ گرم ہواتو پھر شہباز شریف بیچ بچائو کے لئے سامنے آ گئے۔
یہ حقیقت ہے کہ حکمران جماعت نے ختم نبوت ؐ کے حوالے سے ترامیم کر کے اپنے ووٹ بینک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ان کے نامزد کردہ امید وار جس حلقے سے انتخابات میں حصہ لیں گے‘ انہیں اس حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں