"KDC" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر، مؤثر عالمی کردار کا متقاضی

کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دلانے کے لیے عالمی برادری کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور مؤثر طور پر کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے وقت کا ناگزیر تقاضا ہے ۔ خوش آئند بات ہے کہ حکومت اس کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے ۔حالیہ بحران کے دوران حکومت نے عالمی سطح پر تیز ی سے رابطے کئے ہیں اور اسی کے نتیجے میں سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا۔پاکستان کے آزمودہ دوست چین نے اس کوشش کو کامیاب بنانے میں نتیجہ خیز کردار ادا کیا۔ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے خطے میںکشیدگی پیدا ہوئی ہے‘ جبکہ بھارتی اقدام چین کی اپنی خودمختاری کے لیے بھی چیلنج ہے۔ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہنے والے پانچ بڑی عالمی طاقتوں کے اس مشاورتی اجلاس کے بعد اگرچہ کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا‘ تاہم چینی مندوب نے یہ ضرور بتادیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تمام ارکان نے تشویش کا اظہار کیا۔اس دوران امریکی صدر نے بھی کم از کم دو بار وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی‘ جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فکر مندی کاا ظہار کیا گیا۔ عالمی برادری کواحساس ہے کہ اس تنازعے کے دونوں فریق تسلیم شدہ ایٹمی قوت ہیں ‘جبکہ بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے جنگی جنون کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا ملک ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کے اصول پر حالات کے تقاضوں کے تحت نظر ثانی کر سکتا ہے۔ یہ کہہ کر بھارتی وزیر نے عالمی امن کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کیونکہ ایٹمی طاقتوں کی جنگ کا مطلب محض ان مخصوص ملکوں کی تباہی نہیں جو اس میں ملوث ہوں گے بلکہ اس کے تباہ کن نتائج اردگرد کے دیگر ممالک کو بھی بھگتنا ہوں گے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ناجائز اور یک طرفہ اقدام سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر وقت کا انتخاب کیا ہے‘ یعنی جب پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے‘سماجی انتشار تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے‘معیشت قرضوں میں دبی ہوئی ہے‘ برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ روپے کی قدر خوفناک حد تک کم ہو چکی ہے اور آئی ایم ایف نے معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان حالات میں نریندر مودی نے پاکستان کی شہ رگ پر حملہ کرکے پاکستان کو مفلوج کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ ا س صورتحال فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا اوراس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مزید کئی لاکھ فوجی وہاں اتار دئیے ۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ ‘ جرمنی‘ فرانس نے بھارت کی مذمت نہیں کی اور اب وہ اس کا ایسا حل چاہتے ہیں جو اِن کے مفاد میں ہو۔ مسلم ممالک خصوصا ً عرب ممالک کا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اقدام پر ردعمل خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کر دیا ہے کہ مڈل ایسٹ کے ممالک کے مفادات بھارت سے پیوستہ ہیں‘تاہم بین الاقوامی دنیا کو احساس ہونا چاہیے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور پاکستان کے مؤقف کے مطابق حل نہ کیا گیا تو اس کے منفی نتائج کسی کے تصورات سے بھی زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں۔مودی سرکار نے اپنے اس غیر ذمہ دارانہ اقدام کے ذریعے نہ صرف مقبوضہ کشمیر پر ایک اور وار کر کے پاکستان کے ساتھ نئے مسائل پیدا کر لیے ہیں بلکہ لداخ کو بھارتی یونین میں شامل کرکے بھارت نے چین کی خود مختاری پر بھی وار کیا ہے۔ ہزار مربع میل کے علاقے کے حصول کے لیے بھارت کوئی بھی شرارت کر سکتا ہے اور یہ شرارت بنیادی طور پرسی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جائے گی۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ہے‘ لیکن خود مختار کشمیر کی رائے پر عمل کرنے والی قوتوں کی نظر یں مشرقی تیمور کے فارمولے پر لگی ہوئی ہیں ۔جب ایسا کوئی حقیقی عمل سامنے آیا تو پھر تیسرے آپشن کو بھی مد نظر رکھا جائے گا ۔
یوم پاکستان کی تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستانی مؤقف موثر ‘ جاندار اور ولولہ انگیز جذبے سے قوم کے سامنے پیش کیا‘ تاہم پاکستان ٹیلی ویژن کے فنکاروں نے قوم کے جذبات کو سرد کیے رکھا۔ فنکاروں کے غیرجذباتی انداز سے مایوسی ہوئی کیونکہ ان کے نغمے جوش و جذبے سے عاری محسوس ہوتے تھے ۔جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا ہے لیکن خود مختار کشمیر کی رائے پر عمل کرنے والی قوتوں کی نظر یں مشرقی تیمور کے فارمولے پر لگی ہوئی ہیں ۔جب ایسا کوئی حقیقی عمل سامنے آیا تو میرا اندازہ ہے کہ پھر تیسرے آپشن کو بھی مد نظر رکھا جائے گا ۔ ایسے پر اسرار ماحول میں ایوانِ صدر کے پالیسی ساز اہلکاروں کو آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کو خطاب کا موقع دیتے۔ ان سے خطاب کر انا موقع کی مناسبت سے بہتر ہوتا۔ مجھے مشعال ملک کا احترام ہے‘ وہ پاکستان کے محب وطن معیشت دان حسین ملک کی صاحبزادی ہیں اور ان کی والدہ صاحبہ 1985ء سے سیاسی دھارے میں رہی ہیں اور انہوں نے راولپنڈی حلقے سے پنجاب اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا تھا ان کی ناکامی کے سبب کا بھی مجھے علم ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بعض ماہرین اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے اہلکاروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا گرویدہ بنا دیا ہے‘ لیکن میری رائے یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان صدر ٹرمپ کے سحر انگیز ی سے دور رہنا چاہیے ۔پاکستان 1951ء سے آج تک امریکہ کی پالیسیوں سے متعدد بار سخت نقصان اٹھا چکا ہے ۔ان حالات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ چین ہی ہمارا حقیقی دوست ہے اور سی پیک کوایک بار پھر متحرک کرنا ہی ہماری معاشی اور اقتصادی دفاعی لائن ہے ۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس شہ رگ کو اگر ہم دشمن کے قبضے سے چھڑانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ سی پیک کی جنگ جیت جائیں۔ اس طرح تمام قوتیں پاکستان کے سامنے رام ہو جائیں گی۔بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یک طرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی تنسیخ کر کے تمام عالمی معاہدوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان صاحب ‘یہی ریاست مدینہ کا تصور ہے کہ آگے بڑھیں اور مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لئے اپنے گھوڑے تیار رکھیں اور اپنے ارد گردکے لوگوں پر گہری نظر رکھیں جنہوں نے ٹیپوسلطان کی رحمدلی اور سادگی کا فائدہ اٹھا کر انہیں سرنگا پٹم میں شہید کروا دیا تھا۔ایسے موقع پر ڈاکٹر بابر اعوان سے شہید ٹیپو سلطان کے ملبوسات اور تلوار کا حال احوال پوچھیں تو آپ کی آنکھیں بھی پُر نم ہوجائیں۔ جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں اور آرمی چیف کا بیان قوم کی آواز بن چکا ہے۔ ان حالات میں اگر مقبوضہ کشمیر کے حالات دیکھتے ہوئے مظفرآباد میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نام پر جلاوطن حکومت تشکیل دے دی جائے تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو حوصلہ اور عالمی سطح پر سفارتی حمایت حاصل ہو گی۔
6ستمبر 1965ء کے دن ایوانِ صدر سے پرشکوہ آواز گونجی تھی کہ آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے ‘بھارت نہیں جانتا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘ اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے آگے بڑھیں اور بھارت کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیں۔ ایسی للکار نے قوم کو ایک بار کھڑا کر دیا تھا‘ لیکن اس جذبے کوبیدار کرنے کے لیے وزیر اعظم کو اپنی کابینہ میں تبدیلیاں کرنا ہوگی۔ وزارت خارجہ میں غیرسرکاری مشاورتی کونسل کو تحلیل کرنا ہوگا۔ امریکہ اور اقوام متحدہ میں ایسے لوگ تعینات کرنا ہوں گے جو زیادہ قابل ہوں ‘ آخری جملہ یہی ہے قوم کو بیدار کریں‘ مرد مجاہد جاگ اٹھیں گے بشرطیکہ اپنے اردگرد مشاورتی ٹولے کے فریب میں نہ آئیں۔ یہ حکومت کے لیے ایک آزمائش کا وقت ہے‘ کیونکہ نریندر مودی کو علم ہے کہ چین ہانگ کانگ کے بحران سے نہیں نکل پا رہا ہے اور عالمی طاقتیں بھی اس کی مجبوریوں سے واقف ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں